’’پاکستان شریعت کونسل‘‘ کا انتخابی اور حکومتی سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اس کے قیام کے ساتھ واضح کر دیا گیا تھا کہ انتخابی سیاست اور اقتدار کی کشمکش سے الگ تھلگ رہتے ہوئے پاکستان شریعت کونسل ملک میں (۱) اسلامی نظام کے نفاذ، (۲) دینی قوتوں میں رابطہ و مفاہمت کے فروغ، (۳) اور اسلام مخالف لابیوں اور سرگرمیوں کے تعاقب کے لیے فکری اور علمی محاذ پر کام کرے گی۔ چنانچہ اسی دائرہ میں رہتے ہوئے کونسل اپنے وسائل اور استطاعت کے دائرہ میں سرگرم عمل ہے۔ اس کے ساتھ ہی اعلان بھی کر دیا گیا تھا کہ پاکستان شریعت کونسل کا کوئی بھی رکن یا عہدیدار کسی بھی سیاسی فورم سے انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے اور کسی بھی سیاسی جماعت کی رکنیت اختیار کر سکتا بشرطیکہ وہ وہاں بھی پاکستان شریعت کونسل کے مذکورہ بالا تین مقاصد کے لیے محنت کرتا رہے۔
موجودہ عالمی اور ملکی حالات کے پیش نظر پاکستان کی اسلامی حیثیت اور ملک کے دینی حلقوں اور مراکز کے مستقبل کے حوالہ سے ۱۰ اکتوبر ۲۰۰۲ء کے انتخابات انتہائی اہمیت اختیار کر گئے ہیں اس لیے اقتدار کی کشمکش سے قطع نظر ملی، قومی و دینی تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان شریعت کونسل کے امیر حضرت مولانا فداء الرحمن درخواستی اور سیکرٹری جنرل راقم الحروف (ابو عمار زاہد الراشدی) کی طرف سے حسب ذیل اپیل جاری کی جا رہی ہے، ملک بھر کے احباب سے گزارش ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ حضرات تک پہنچانے کی کوشش کریں اور خواص و عوام کو اس موقع پر ان کی دینی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانے کے لیے بھرپور کردار ادا کریں۔
مکرمی! _______________ السلام وعلیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
گزارش ہے کہ وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان اپنے قیام کے بعد سے ہی عالمی اور ملکی سطح پر اسلام دشمن عناصر کی مکروہ سازشوں کی زد میں چلا رہا ہے اور اس بات کی مسلسل کوشش کی جا رہی ہے کہ:
- پاکستان خودمختاری اور آزادی کے ساتھ اپنے پاؤں پر کھڑا نہ ہو۔
- پاکستان کی اسلامی نظریاتی حیثیت مستحکم نہ ہونے پائے۔
- پاکستان میں جاگیردارانہ اور نوآبادیاتی استحصالی نظام کے خاتمہ اور اس کی جگہ اسلام کے عادلانہ نظام کے نفاذ کی جدوجہد میں کوئی عملی پیشرفت نہ ہو سکے۔
- پاکستان معاشی اور عسکری طور پر خودمختار اور باوقار حیثیت نہ حاصل کر سکے۔
- پاکستان کی دینی قوتوں میں خلفشار کی فضا قائم رہے اور وہ پاکستانی قوم کی قیادت کے لیے اجتماعی کردار ادا کرنے کے قابل نہ رہیں۔
- پاکستان میں فحاشی اور عریانی پر مشتمل مغربی اور ہندو کلچر کے اثرات کو وسیع سے وسیع تر کر دیا جائے۔
- پاکستان میں دینی ادارے مراکز اور شخصیات کی کردارکشی کر کے عوام کو ان سے دور رکھا جائے۔
- ایک اسلامی نظریاتی ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر نمودار ہونے والے پاکستان سے عالم اسلام بالخصوص ملت اسلامیہ کے دینی حلقوں نے جو توقعات وابستہ کر رکھی ہیں ان کی تکمیل کی کوئی عملی صورت پیدا نہ ہو۔
- نئی نسل کو ہر قیمت پر دین اور دینی اثرات سے دور رکھا جائے، اور
- بالآخر پاکستان کو ترکی کی طرح ایک سیکولر ریاست اور معاشرہ کا درجہ دے دیا جائے۔
گزشتہ سال ۱۱ ستمبر کے سانحات کی آڑ میں افغانستان پر امریکی اتحاد کے حملے اور دنیا بھر کی اسلامی تحریکات اور جہادی قوتوں کے خلاف منفی پروپیگنڈے اور اقدامات کے ساتھ اس مہم کو مزید تیز کر دیا گیا ہے اور عالمی استعمار اپنے مقامی معاونین کے تعاون سے پاکستان کو سیکولر ملک کی حیثیت دینے کے ایجنڈے پر تیز رفتاری کے ساتھ اپنے کام کو آگے بڑھا رہا ہے۔
ان حالات میں ۱۰ اکتوبر ۲۰۰۲ء کو ہونے والے عام انتخابات انتہائی اہم حیثیت اختیار کر گئے ہیں اور (۱) پاکستان کی اسلامی حیثیت کے تحفظ (۲) وطن عزیز کی خودمختاری اور قومی آزادی کی بحالی (۳) اور دینی مراکز کے معاشرتی کردار کے حوالہ سے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ملک کا ہر ووٹر اپنی ترجیحات کا ازسرنو جائزہ لے اور برادری ازم، دھڑے بندی اور سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر اس الیکشن میں ایسے افراد کو سامنے لانے کے لیے کردار ادا کرے جو دینی سوچ، نظریاتی کردار اور ملی حمیت و غیرت کے حامل ہوں۔ کیونکہ ایسے حضرات ہی موجود بحران سے ملک و قوم کو باوقار طور پر نکال کر خودمختاری، آزادی اور اسلامی تشخص کی شاہراہ پر گامزن کر سکتے ہیں اور اگر خدانخواستہ اس موقع پر بھی دینی تقاضوں اور ملی ضروریات کو قبیلہ، برادری، لوکل دھڑے بندی اور سیاسی وابستگیوں پر قربان کر دیا گیا تو پاکستان کے گرد استعماری نظام کا شکنجہ سخت تر ہوتا چلا جائے گا اور ملک و قوم کی رہی سہی آزادی بھی ختم ہو کر رہ جائے گی۔
یہ انتہائی خوشی کی بات ہے کہ ملک کی دینی جماعتیں ’’متحدہ مجلس عمل‘‘ کے نام سے متحد ہو کر ان انتخابات میں قوم کے سامنے آگئی ہیں اور تمام دینی مکاتب فکر نے اجتماعی دینی قیادت کی عملی شکل ملت کے سامنے پیش کر دی ہے جس سے یہ توقع پیدا ہو گئی ہے کہ اگر اس قیادت کو پاکستان کے عوام نے ۱۰ اکتوبر ۲۰۰۲ء کے انتخابات میں آگے آنے کا موقع فراہم کیا تو وطن عزیز کو عالمی استعمار کے مفادات اور سازشوں کی دلدل سے نکالنے، نوآبادیاتی استحصالی نظام کے خاتمہ، اسلامی نظام کے نفاذ اور قومی خودمختاری کی بحالی کی کوئی صورت ضرور نکل آئے گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
اس لیے تمام مکاتب فکر کے علماء کرام، دینی کارکنوں اور غیور مسلمانوں سے اپیل ہے کہ وہ ۱۰ اکتوبر ۲۰۰۲ء کے الیکشن کو ’’ٹیسٹ کیس‘‘ سمجھتے ہوئے اس میں متحدہ مجلس عمل کے امیدواروں کی کامیابی کے لیے متحرک ہو جائیں اور صرف ووٹ دینے پر اکتفا کرنے کے بجائے اپنے اپنے حلقہ اثر میں متحدہ مجلس عمل کے امیدواروں کے لیے کام کریں اور انہیں کامیاب بنانے کے لیے مقامی حالات کی روشنی میں جو عملی کردار بھی ادا کر سکتے ہوں اس سے گریز نہ کریں۔
‘‘متحدہ مجلس عمل‘‘ سے ہٹ کر چند دیگر رہنماؤں کے حوالے سے بھی گزارش کرنا ضروری ہے جن میں راولپنڈی سے محترم راجہ ظفر الحق، کوہاٹ سے حاجی جاوید ابراہیم پراچہ اور جھنگ سے مولانا اعظم طارق بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ یہ حضرات اگرچہ متحدہ مجلس عمل کی طرف سے امیدوار نہیں ہیں لیکن اپنے نظریاتی کردار اور خدمات کے تسلسل میں بھرپور اعتماد کے حامل ہیں اور یہ جس فورم سے بھی منتخب ہو کر اسمبلی میں پہنچے، ان شاء اللہ تعالیٰ حق کی آواز بلند کریں گے اور حق کا ہی ساتھ دیں گے۔ اس لیے ملک بھر میں متحدہ مجلس عمل کے امیدواروں کو کامیاب بنانے اور ان کے لیے بھرپور محنت کرنے کی اپیل کے ساتھ ساتھ ان تین حضرات کے حلقوں سے تعلق رکھنے والے علماء کرام اور دینی کارکنوں سے بطور خاص گزارش ہے کہ وہ ان کی کامیابی کے لیے ہر ممکن محنت کریں اور ان سے بھرپور تعاون فرمائیں۔