میں جامعہ خالد بن ولیدؓ ٹھینگی، ضلع وہاڑی میں بیٹھا زیر نظر سطور لکھ رہا ہوں۔ مولانا ظفر احمد قاسم ہمارے پرانے دوستوں میں سے ہیں، عمدہ تعلیمی و تحریکی ذوق سے بہرہ ور ہیں، ان کے ساتھ مسلکی اور جماعتی تعلق کے ساتھ ساتھ شیرانوالہ لاہور کی نسبت بھی ہے، جس کی وجہ سے بہت زیادہ محبت اور شفقت سے نوازتے ہیں۔ درس نظامی کے ساتھ ضروری عصری تعلیم کے امتزاج پر انہوں نے اس دور میں کام شروع کیا اور کامیابی کے ساتھ آگے بڑھایا جب یہ بات ہمارے حلقوں میں سننا بھی مشکل ہوتی تھی۔ جنگل میں منگل کا سماں باندھ رکھا ہے، بڑے ذوق، جذبہ اور وقار کے ساتھ جامعہ خالد بن ولیدؓ کی تعمیر و ترقی میں مصروف ہیں۔ ملک میں کسی بھی دینی حوالہ سے کوئی مسئلہ یا پریشانی ہو ان کا اضطراب قابلِ دید ہوتا ہے، خود بھی تڑپتے رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی تڑپانے کی پوری کوشش کرتے ہیں اور ان کا بس چلے تو سارے ملک کے دینی حلقوں کو ایک لائن میں لگا کر کفر و ظلم اور الحاد و نفاق کے خلاف صف آرا کر دیں۔ ان کے حکم بلکہ اصرار پر حاضری ہوئی ہے۔ کل شام انہوں نے ایک عجیب سی فرمائش کر دی ہے کہ جامعہ خالد بن ولید کے دورۂ حدیث شریف کے طلبہ کو بخاری شریف کا ایک سبق پڑھا دوں۔ میں ایک رسمی سا مدرس ہوں اور کوئی ایسی امتیازی تدریسی خصوصیت نہیں رکھتا جس کی وجہ سے اس قسم کی کسی فرمائش کی نوبت آ جائے، لیکن حضرت مولانا ظفر احمد قاسم کی یہ فرمائش حکم کے انداز سے تھی، جس کی تعمیل کے بغیر کوئی چارہ نہیں تھا، اس لیے مغرب کے بعد یہ ڈیوٹی دی۔ جبکہ عشاء کے بعد جامعہ کے اساتذہ اور طلبہ کے عمومی اجتماع میں موجودہ ملکی حالات کے تناظر میں کچھ گزارشات پیش کیں، جن کا خلاصہ نذر قارئین ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ہم آج جس صدمہ اور رنج و غم کے ماحول میں یہاں جمع ہیں، اس نے ہر دل کو مضطرب اور بے چین کر رکھا ہے۔ جس شخص کے سینے میں بھی گوشت کا دل ہے اور پتھر کا ٹکڑا نہیں ہے، وہ لال مسجد اور جامعہ حفصہؓ سے معاملہ میں غمزدہ ہے، بے چین ہے، مضطرب ہے اور پریشانی کی سی کیفیت سے دو چار ہے۔ اہل دین کے حوالہ سے بالعموم اور اہل مدارس کے حوالہ سے خاص طور پر گزشتہ پوری صدی میں ہمیں اس نوع کے اور اس سطح کے سانحہ سے دو چار نہیں ہونا پڑا کہ مسجد میں، اللہ کے گھر میں اس طرح اہل دین کی لاشیں تڑپی ہوں اور دینی مدرسہ کی چار دیواری کے اندر طلبہ اور طالبات کو اس بے دردی کے ساتھ بھون دیا گیا ہو۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے، بہت بڑا سانحہ ہے اور بہت بڑے صدمے کا مقام ہے۔ ہمیں مولانا عبد العزیز اور مولانا عبد الرشید غازی شہید رحمہ اللہ کے طریقِ کار سے اختلاف تھا، جو اب بھی قائم ہے، لیکن اسلام کے نفاذ اور فحاشی و بے حیائی کے سدباب کے لیے ان کا خلوص و جذبہ اور ان کے مقصد کی سچائی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ اس لیے ہم اس المناک سانحہ کے تمام شہداء کے لیے دعاگو ہیں کہ اللہ رب العزت انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں، زخمیوں کو صحت کاملہ عطا فرمائیں اور اس قربانی کو ان کے دینی مشن کے صحیح طور پر منظم ہونے اور آگے بڑھنے کا ذریعہ بنائیں، آمین یا رب العالمین۔
ویسے تو دینی مدارس کا یہ نظام اپنے قیام سے لے کر اب تک مسلسل چیلنجوں کا سامنا کر رہا ہے اور اسے تحدیات درپیش ہیں۔ ان دینی مدارس کی تاریخ گزشتہ ڈیڑھ سو سال کو محیط ہے۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد جنوبی ایشیا کے اس خطہ میں پہلا پرائیویٹ دینی مدرسہ ۱۸۶۵ء / ۱۸۶۶ء میں دیوبند میں قائم ہوا تھا، اس کے بعد سہارنپور میں، مراد آباد میں اور بنگلہ دیش کے مقام ہاٹ ہزاری میں اسی دور میں یہ مدارس وجود میں آئے تھے۔ یہ مدارس ہمارے اس نظام میں ”السابقون الاولون“ کی حیثیت رکھتے ہیں اور یہ مدارس قائم کرنے والے چند درویشوں نے جس خلوص اور للہیت کے ساتھ اس کارِ خیر کا آغاز کیا تھا، یہ اسی کی برکت ہے کہ کم و بیش ڈیڑھ سو برس گزرنے کے بعد آج یہ مدارس جنوبی ایشیا کے طول و عرض میں ہزاروں کی تعداد میں پھیلے ہوئے ہیں اور کوئی علاقہ ان سے خالی نہیں ہے۔
گزشتہ ڈیڑھ سو برس کے دوران اہل مدارس کو ہر دور میں چیلنجوں کا سامنا رہا ہے اور امتحان و آزمائش سے سابقہ پیش آیا ہے، لیکن بحمد اللہ تعالیٰ ان اکابر کے خلوص اور للہیت کی برکت ہے یہ مدارس ہر آزمائش میں سرخرو رہے ہیں اور انہوں نے ہر چیلنج کا کامیابی کے ساتھ سامنا کیا ہے اور مجھے امید بلکہ یقین ہے کہ اکابر کے اسی خلوص کی برکت سے ہم آج کے اس چیلنج اور ابتلا میں بھی ان شاء اللہ تعالیٰ ضرور سرخرو ہوں گے۔ اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں ہے اور نہ ہم میں کوئی ایسی خوبی ہے، البتہ اچھا کنکشن میسر ہے، اس لیے ہر امتحان اور آزمائش میں اس نسبت اور کنکشن کی مضبوطی ہمارے لیے کامیابی کا ذریعہ بن جاتی ہے۔
آج بھی یہ مدارس ایک نئی آزمائش کے دور سے گزر رہے ہیں اور انہیں عالمی سطح پر ایک نئے چیلنج کا سامنا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ وہ انتہا پسندی کے داعی ہیں اور دہشت گردی پھیلا رہے ہیں۔ اس کے بارے میں اس سے پہلے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مغرب جب انتہا پسندی اور دہشت گردی کی بات کرتا ہے تو اس کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ آج مغرب نے آسمانی کتابی تعلیمات سے دست برداری اور وحی الٰہی سے بغاوت کے ماحول میں انسانی سوسائٹی کی خواہشات کو ہر فیصلے کی بنیاد بنا رکھا ہے اور اس فلسفے کو دنیا سے منوانے کے لیے طاقت اور پروپیگنڈہ استعمال کر رہا ہے۔ دنیا میں اس وقت موجود کم و بیش تمام مذاہب کے پیروکاروں نے اس فلسفے کو اور اس فکر و ثقافت کو قبول کر لیا ہے، اس کے سامنے سپر انداز ہو گئے ہیں، مگر اسلام کے پیروکار اس کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ مسلمان اور خاص طور پر ان کے اہل دین اپنے معاشرتی اور اجتماعی معاملات میں وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات سے دست برداری کو قبول نہیں کر رہے اور انہوں نے مغرب کے اس فلسفہ و ثقافت کو مسترد کر دیا ہے۔ مغرب کے نزدیک یہ انتہا پسندی ہے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے کسی جدوجہد میں شدت پیدا ہو جائے تو وہ دہشت گردی کہلاتی ہے۔ ہم پر اسی دہشت گردی کا الزام ہے، لیکن ہم اس الزام کو اپنے لیے کریڈٹ سمجھتے ہیں۔
چند برس پہلے کی بات ہے کہ برطانیہ کے ایک اخبار ”دی انڈی پینڈنٹ“ نے ایک فیچر رپورٹ شائع کی تھی، جس میں بتایا گیا تھا کہ دنیا میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے اصل مراکز اور سرچشمے کون سے ہیں، اس میں دارالعلوم دیوبند کے دارالحدیث اور بستی نظام الدین کے تبلیغی مرکز کے فوٹو تھے اور لکھا تھا کہ دنیا میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے اصل سرچشمے یہ ہیں۔ اس پر بہت سے دوست پریشان ہوئے اور کہا کہ ہم پر بہت بڑا الزام لگایا گیا ہے۔ میں نے برمنگھم کی ایک بڑی کانفرنس میں وہ رپورٹ ہاتھ میں لے کر عرض کیا کہ جس چیز کو ہمارے لیے الزام اور فردِ جرم قرار دیا جا رہا ہے، تاریخ کی نظر میں وہ ”کریڈٹ“ کی حیثیت رکھتی ہے۔ آج مغرب اس بات کا کھلے بندوں اعتراف کر رہا ہے کہ اس کے نزدیک اس کے سیکولر اور دین بیزار فلسفہ کی راہ میں دراصل رکاوٹ کون ہے اور آسمانی تعلیمات کی بالا دستی کا پرچم کس کے ہاتھ میں ہے، اس لیے میں اسے چارج شیٹ نہیں، بلکہ ”کریڈٹ“ سمجھتا ہوں اور اس پر ”دی انڈی پینڈنٹ“ کا شکریہ ادا کرتا ہوں، لیکن بہرحال ہم ایک نئے چیلنج کا سامنا کر رہے ہیں اور لال مسجد کا یہ سانحہ بھی اسی کا حصہ ہے، اس لیے اس موقع پر میں دو باتیں بطور خاص عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
ایک یہ کہ لال مسجد اور جامعہ حفصہؓ میں ہمیں جس نقصان عظیم اور صدمہ کا سامنا کرنا پڑا وہ جس قدر بڑا اور اضطراب انگیز ہے، اس کے عوامل و اسباب کا بھی اسی گہرائی کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے۔ اس سلسلہ میں قرآن کریم کا اسلوب اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ کیا ہے؟ اس کے لیے میں دو حوالے دینا چاہوں گا۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ابتلا و آزمائش کے بہت سے ایام کا سامنا کرنا پڑا تھا، لیکن ان میں سے دو کا قرآن کریم نے بطور خاص ذکر کیا ہے۔ ایک حنین کے دن کا، جب مسلمان اپنی دوگنا اکثریت کے باوجود بنو ہوازن کے مقابلہ میں وقتی طور پر شکست سے دو چار ہوئے تھے اور ایک مرحلہ ایسا آیا تھا کہ میدان جنگ میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ایک دو ساتھیوں کے سوا کوئی بھی موجود نہیں رہا تھا۔ قرآن کریم نے مسلمانوں کی اس وقتی ہزیمت کا ذکر کیا ہے اور ساتھ ہی اس کی وجہ بھی بیان کی ہے کہ ”اذ اعجبتكم کثرتكم“ جب تمہیں تمہاری کثرت نے گھمنڈ میں ڈال دیا تھا، یعنی تم اپنی کثرت کے زعم میں بہت سی احتیاطوں سے بے پروا ہو گئے تھے اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دشمن نے اچانک حملہ کر کے تمہارے قدم اکھاڑ دیے تھے۔
دوسرا احد کا دن ہے، جب مسلمانوں کی فتح وقتی طور پر شکست میں تبدیل ہو گئی تھی، ستر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم شہید ہو گئے تھے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود زخمی ہوئے تھے۔ حتیٰ کہ ایک مرحلہ میں ابو سفیان نے مسلمانوں سے پوچھ بھی لیا تھا کہ کیا تمہارے درمیان محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) موجود بھی ہیں یا قتل ہو گئے ہیں؟ قرآن کریم نے اس کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے، اس کے اسباب و محرکات بیان کیے ہیں، مسلمانوں کی کمزوریوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی کی ہے اور بتایا ہے کہ تمہاری کون سی غلطیوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے تمہیں اس طرح آزمائش سے دو چار ہونا پڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے غلطیوں کی نشاندہی کی ہے، اس پر ڈانٹا ڈپٹا بھی ہے اور تنبیہ کرنے کے بعد معانی کا اعلان بھی کیا ہے۔
میرے خیال میں ہم سب کو جنگ احد کے بارے میں قرآن کریم کے ارشادات کا بار بار مطالعہ کرنا چاہیے اور اس کی روشنی میں لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے سانحہ کے اسباب و عوامل کا جائزہ لینا چاہیے۔ ہم میں سے ہر شخص کو اپنی کوتاہیوں سے باخبر ہونا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ معاملات کے یہاں تک پہنچنے میں ہماری کون کون سی کوتاہی کا دخل ہے۔ یہ اسباب کی دنیا ہے، اللہ تعالیٰ بعض مقامات پر اسباب سے ہٹ کر نصرت ضرور فرماتے ہیں، لیکن اس کا عمومی قانون اور ضابطہ اسباب کے حوالہ سے ہے اور وہ دنیا کا نظام بھی اسباب ہی کے ذریعے چلا رہا ہے، اس لیے ہم کسی مرحلہ میں بھی اسباب سے بے نیاز نہیں ہو سکتے۔ یہ درست ہے کہ اسباب پر حتمی بھروسہ نہیں کرنا چاہیے اور توکل صرف خدا کی ذات پر کرنا چاہیے، لیکن ہمیں اسباب سے بے نیاز ہو جانے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ میرے والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم اس سلسلے میں یہ فرمایا کرتے ہیں کہ اسباب کی اہمیت کا اس بات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے تو آسمان سے دمشق کی جامع مسجد کے مینار پر اترنے کے بعد سیڑھی طلب کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ جب اوپر سے ظاہری اسباب کے بغیر یہاں تک اتر گئے ہیں تو چند سو فٹ کے مینار سے نیچے اترنے کے لیے سیڑھی کی ضرورت کیوں پیش آ گئی ہے؟ یہ اللہ تعالیٰ کے اس قانون اور ضابطہ کا اظہار ہے کہ دنیا کا نظام اسباب کے ذریعے چلتا ہے اور اسباب کو یکسر نظر انداز کر کے کوئی کام محض غیبی امداد کے حوالے سے کرنے کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔
اس لیے ہمیں لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے اس المناک سانحہ کے اسباب و عوامل کا کھلے دل سے جائزہ لینا ہو گا اور اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی کر کے ان کی تلافی کرنا ہو گی، ورنہ بہتر مستقبل کی منصوبہ بندی نہیں کر سکیں گے اور دینی جدوجہد کو صحیح رخ پر آگے بڑھانے میں کامیاب نہیں ہو پائیں گے۔
دوسری بات جو میں اس موقع پر عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ دینی مدارس کو جن تحدیات اور چیلنجز کا آج کے دور میں سامنا ہے، اس کے مختلف پہلو ہیں اور متعدد رخ ہیں جن میں سے میرے نزدیک سب سے اہم پہلو فکری اور نظریاتی تحدیات کا ہے۔ اور چونکہ میری جدوجہد کا شعبہ یہی ہے اس لیے اس کا بطور خاص تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں۔
دینی مدارس کو درپیش فکری چیلنجز بہت سے ہیں جن میں ایک یہ بھی ہے کہ ان مدارس کی آخر الگ سے کیا ضرورت ہے؟ اور جب مسلمان معاشرے میں اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں موجود ہیں اور تعلیمی خدمات سرانجام دے رہی ہیں تو اجتماعی دھارے اور مین اسٹریم سے ہٹ کر یہ مدارس الگ کیا کام کر رہے ہیں اور کیوں کر رہے ہیں؟ یہ بہت بڑا سوال ہے جو پوری دنیا میں دہرایا جا رہا ہے اور بار بار دہرایا جا رہا ہے جس کا جواب دینا ضروری ہے اور نئی نسل کو مطمئن کرنا ضروری ہے، ورنہ مدرسہ کی افادیت و ضرورت کے بارے میں شکوک و شبہات کا دائرہ دن بدن پھیلتا جائے گا اور ہم اس چیلنج کا صحیح طور پر سامنا نہیں کر سکیں گے۔
بدقسمتی سے ہمارا یعنی دینی حلقوں کا عمومی مزاج یہ بن گیا ہے کہ ہم اس قسم کے سوالات کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور انہیں بے دینوں اور ملحدوں کی بات قرار دے کر حقارت کے ساتھ مسترد کر دیتے ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ درست طرز عمل نہیں ہے اور اس کے نقصانات کا ہمیں صحیح طور پر اندازہ نہیں ہے۔ نئی نسل، بالخصوص پڑھے لکھے نوجوانوں کے ذہنوں میں جو سوالات جنم لے رہے ہیں یا میڈیا جو سوالات پیدا کر رہا ہے، ان کا جواب نظر انداز کرنا نہیں ہے، حقارت سے ٹھکرانا نہیں ہے، اور غصے کا اظہار کر کے انہیں یہ احساس دلانا نہیں ہے کہ ان سوالات کا کوئی جواب ہی نہیں ہے۔ بلکہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ان سوالات کو سمجھیں، ان کے اسباب و علل کو سمجھنے کی کوشش کریں اور پھر یہ بھی دیکھیں کہ کس انداز اور کون سے اسلوب سے ان سوالات کا جواب ان نوجوانوں کو اور پڑھے لکھے لوگوں کو مطمئن کر سکتا ہے۔ جبکہ ہمارا یعنی دینی حلقوں کا عمومی مزاج یہ بن گیا ہے کہ کسی بھی شک و شبہ والے سوال پر اول تو ہم ڈانٹ ڈپٹ سے کام لیتے ہیں اور ٹالنے کی کوشش کرتے ہیں، اور اگر کسی سوال کا جواب دیتے ہیں تو اس میں انداز، اسلوب اور اصطلاحات ہماری اپنی ہوتی ہیں جن سے آج کی دنیا مانوس نہیں ہے اور جنہیں سمجھنے کے لیے انہیں الگ سے مشقت کرنا پڑتی ہے۔
اس پس منظر میں دینی مدارس کے حوالے سے لوگوں کے ذہنوں میں پائے جانے والے سوالات میں سے ایک کا مختصر جائزہ لینا چاہتا ہوں۔ اور وہ یہ ہے کہ جب اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے ذریعے سے تعلیم کا ایک وسیع نظام موجود ہے اور ہر سطح پر ان تعلیمی اداروں کا نیٹ ورک کام کر رہا ہے تو الگ سے ان دینی مدارس کی ضرورت کیا ہے اور اجتماعی دھارے سے الگ ہو کر یہ کس بات کی تعلیم دیتے ہیں؟ اور جن علوم کی یہ تعلیم دیتے ہیں، سوسائٹی کی ضروریات سے ان کا کیا تعلق ہے؟ بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ دینی مدارس کی تعلیم کا سوسائٹی کی ضروریات سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ معاشرہ کی کوئی ضرورت پوری کرنے کے بجائے غیر ضروری علوم و فنون میں وقت صرف کر رہے ہیں۔
ان کے جواب میں یہ عرض کرتا ہوں کہ اسکول، کالج اور یونیورسٹی ہماری بہت سی ضروریات پوری کرتے ہیں اور ان میں پڑھائے جانے والے علوم و فنون بلاشبہ سوسائٹی کی ضروریات سے تعلق رکھتے ہیں جن کی اہمیت و افادیت سے کسی درجے میں انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن یہ بھی امر واقعہ ہے کہ اسکول، کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم اور ان میں پڑھائے جانے والے علوم و فنون ہماری زندگی کی تمام ضروریات کو پورا نہیں کرتے۔ مثلاً سائنس ہماری بہت سی ضرورتیں پورا کرتی ہے اور ہمیں کائنات کی مختلف اشیا کے بارے میں مفید معلومات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے استفادہ اور ان کے بہتر سے بہتر استعمال کے لیے ہماری راہنمائی کرتی ہے۔ یہ کائنات کی وسعتوں کے حوالے سے بھی ہے اور انسانی جسم اور اس کی مشینری کے حوالے سے بھی ہے، لیکن اس کی تمام تر تگ و دو صرف دو سوالوں تک محدود ہے: ایک یہ کہ یہ کائنات کیا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ کیسے کام کر رہی ہے؟ اسی طرح انسانی جسم کیا ہے؟ یہ کیسے کام کرتا ہے اور اسے کیسے صحیح رکھا جا سکتا ہے؟ لیکن کائنات اور انسان دونوں حوالوں سے سائنس اس سوال کا جواب نہیں دیتی کہ یہ کیوں ہیں اور کس مقصد کے لیے وجود میں لائے گئے ہیں؟ اس سوال کا جواب صرف وحی دیتی ہے اور آسمانی تعلیمات اس کا جواب فراہم کرتی ہیں اور وحی الٰہی اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے بجائے دینی مدرسہ میں پڑھائی جاتی ہے۔
اسی طرح ہم اپنے اردگرد کے ماحول کو دیکھتے ہیں تو ہمارے اردگرد صرف وہی چیزیں موجود نہیں ہیں جو مشاہدات یا محسوسات کے دائرے میں آتی ہیں، بلکہ اس سے ہٹ کر بھی بہت سی چیزیں پائی جاتی ہیں جو سائنس کے دائرۂ کار سے خارج ہیں اور سائنس سرے سے ان پر بحث ہی نہیں کرتی۔ مثلاً:
- یہ بات نہ صرف ہمارے عقیدے میں شامل ہے بلکہ تجربات و مشاہدات کا بھی حصہ ہے کہ برکت اور نحوست دونوں کا وجود پایا جاتا ہے اور یہ ہماری زندگی کا حصہ ہیں۔ لیکن ان کے بارے میں سائنس خاموش ہے اور کوئی معلومات مہیا نہیں کرتی، اس لیے کہ سائنس کا دائرہ فکر صرف میٹر تک محدود ہے، وہ صرف مادے اور اس کے متعلقات پر بات کرتی ہے، جبکہ برکت و نحوست مادے کے دائرے سے باہر کی چیزیں ہیں۔ اس لیے برکت اور نحوست کا سبجیکٹ نہ آکسفورڈ کے مضامین میں شامل ہے، نہ کیمبرج میں پڑھایا جاتا ہے اور نہ ہی ہاورڈ یونیورسٹی اس سے بحث کرتی ہے۔ یہ مضمون آپ کو جامعہ خالد بن ولید کے نصاب میں ملے گا، جامعہ نصرۃ العلوم کے نصاب میں ملے گا، اور جامعہ اشرفیہ کے نصاب میں ملے گا۔
- اسی طرح یہ بات ہمارے عقیدے کا حصہ ہے کہ ہمارے اردگرد فرشتوں کا ایک وسیع نیٹ ورک موجود ہے جو شب و روز متحرک رہتا ہے اور ہر شخص کے ساتھ کئی فرشتے مختلف حوالوں سے اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں، لیکن اس یونیورسل نیٹ ورک کے بارے میں سائنس ہمیں کچھ نہیں بتاتی اور کوئی معلومات فراہم نہیں کرتی۔
- پھر یہ بھی دیکھ لیں کہ اسکول، کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی کے علوم و فنون اپنی تمام تر افادیت و ضرورت کے باوجود ہمیں جو کچھ بھی معلومات اور سہولتیں فراہم کرتے ہیں، وہ صرف اس دنیا تک محدود ہیں اور ان کی افادیت، اہمیت اور ضرورت صرف اور صرف مرنے سے پہلے تک ہے۔ جبکہ ہمارا عقیدہ ہے کہ یہ دنیا کی زندگی محدود ہے اور قبر، حشر اور آخرت کی زندگی اس سے کہیں زیادہ طویل اور بے انتہا ہے۔ ہم دنیا میں فخر کرتے ہیں کہ ۶۰ سال زندگی پائی ہے، ۷۰ سال زندگی گزاری ہے اور ۸۰ سال کی زندگی سے بہرہ ور ہوئے ہیں، لیکن آخرت کی طویل زندگی کے مقابلے میں اس کی حیثیت کیا ہے؟ قرآن کریم کے ایک ارشاد سے اس کا اندازہ کر لیں کہ تمھارے ایک ہزار سال اللہ تعالیٰ کے ایک دن کے برابر ہیں۔ اس سے دیکھ لیں کہ ہمارے ستر، اسی اور نوے سال اللہ تعالیٰ کے اس ایک دن میں کتنے گھنٹوں کے برابر شمار ہوتے ہیں اور اس دنیا کی زندگی کی حقیقت کیا ہے؟
اب ظاہر بات ہے کہ سائنس، ٹیکنالوجی اور اسکول و کالج کے علوم ہماری دنیا کی زندگی کی جتنی معلومات بھی دے دیں اور جتنی سہولتیں بھی فراہم کریں، وہ بہت محدود ہیں اور اصل زندگی کے بارے میں ہماری کوئی راہنمائی نہیں کرتے۔ یہ راہ نمائی ہمیں وحی الٰہی سے ملتی ہے۔ آسمانی تعلیمات ہمیں یہ معلومات فراہم کرتی ہیں جو دینی مدرسہ میں پڑھائی جاتی ہیں اور درس نظامی کے نصاب کا حصہ ہیں۔ اس لیے ہمارے لیے ان مدارس کی اہمیت زیادہ ہے۔ ہم دنیا کی ضروریات کو بہتر سے بہتر انداز سے پورا کرنے کی مخالفت نہیں کرتے، بلکہ اسے ضروری سمجھتے ہیں اور اس کے لیے اسکول، کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم کی ضرورت اور افادیت کے قائل ہیں، لیکن ہماری بہت سی ضروریات جو اس دنیا کی زندگی کی ضروریات سے کہیں زیادہ وسعت رکھتی ہیں، وہ ان دینی مدارس کے ذریعے سے پوری ہوتی ہیں اور ان مدارس کا ہماری معاشرتی ضروریات سے انتہائی گہرا تعلق ہے۔
میں نے صرف ایک سوال کا ذکر کیا ہے۔ اس قسم کے بیسیوں سوالات دینی مدارس کے بارے میں اٹھائے جا رہے ہیں اور ہمارے پڑھے لکھے لوگوں اور نئی نسل کے ذہنوں میں شکوک و شبہات کا باعث بن رہے ہیں جن کا سامنا کرنا اور عمدہ اسلوب کے ساتھ ان کانٹوں کو ذہنوں سے نکالنا ہماری ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں دینی جدوجہد اور دینی مدارس کے حوالے سے اپنے فرائض صحیح طور پر سرانجام دینے کی توفیق ارزانی فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔
اس موقع پر بہت سے طلباء نے لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے حوالے سے سوالات کیے اور اپنے جذبات کا اظہار کیا، جو ملک بھر کے دینی مدارس کے طلبہ کے اجتماعی جذبات کی عکاسی کرتے ہیں اور جن کی ایک جھلک ان چند اشعار میں دیکھی جا سکتی ہے، جو میرے خطاب سے قبل ایک طالب علم عمیر حفیظ نے انتہائی پرسوز آواز میں وہاں پڑھے اور طلباء نے پرجوش انداز کے ساتھ اس سے ہم آہنگی کا اظہار کیا، وہ اشعار یہ ہیں:
کتاب سادہ رہے گی کب تک، کبھی تو آغازِ باب ہو گا
جنہوں نے بستی اجاڑ ڈالی، کبھی تو ان کا حساب ہو گا
سحر کی خوشیاں منانے والو! سحر کے تیور بتا رہے ہیں
ابھی تو اتنی گھٹن بڑھے گی کہ سانس لینا عذاب ہو گا
وہ دن گئے جب کہ ہر ستم کو ادائے محبوب کہہ کے چپ تھے
اٹھے گی ہم پر جو اینٹ کوئی، تو پتھر اس کا جواب ہو گا
سکونِ صحرا میں بسنے والو! ذرا رتوں کا مزاج سمجھو
جو آج کا دن سکوں سے گزرا تو کل کا موسم خراب ہو گا