قرآن کریم کا ایک بڑا اعجاز

   
۱۱ دسمبر ۲۰۰۲ء

سورۃ العنکبوت کی آیت ۴۸ میں اللہ تعالیٰ نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ہے کہ قرآن کریم کے نزول سے قبل آپ نہ کوئی کتاب پڑھ سکتے تھے اور نہ ہی لکھ سکتے تھے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو باطل پرست لوگ شک پیدا کر سکتے تھے۔ یعنی اگر جناب رسول اللہ ’’امّی‘‘ نہ ہوتے اور لکھنا پڑھنا جانتے ہوتے تو مخالفین کو یہ کہنے کا موقع مل سکتا تھا کہ پڑھے لکھے آدمی ہیں اور کہیں سے یہ حکمت و دانش کا ذخیرہ مل گیا ہے جسے قرآن کی شکل میں پیش کر کے یہ دعویٰ کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سرے سے یہ امکان ختم کر دیا اور ایک اُمّی شخصیت پر قرآن کریم نازل کر کے اشتباہ کا دروازہ بھی ہمیشہ کے لیے بند کر دیا۔

اس کے بعد آیت ۴۹ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے بارے میں یہ فرمایا کہ یہ کھلی کھلی آیات ہیں جو اہل علم کے سینوں میں ہیں اور ان آیات کا انکار ظالم لوگ ہی کر سکتے ہیں۔ قرآن کریم کے اہل علم کے سینوں میں محفوظ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ سینوں میں محفوظ ہو جاتا ہے جو قرآن کریم کی خصوصیات میں سے ہے اور اس کے اعجاز کا ایک نمایاں پہلو ہے۔ دنیا کی کسی اور کتاب کے حافظ موجود نہیں ہیں۔ اول تو کوئی کتاب یاد ہوتی نہیں اور اگر کوئی کسی کتاب کو یاد کر لے تو اسے زندگی بھر یاد رکھنا کسی کے بس میں نہیں ہوتا۔ جبکہ قرآن کریم نہ صرف آسانی کے ساتھ یاد ہو جاتا ہے بلکہ اسے زندگی بھر یاد رکھنا بھی کوئی زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔ اور بہت سے توجہ رکھنے والے حافظ قرآن نہ صرف اسے یاد رکھتے ہیں بلکہ زندگی بھر تراویح اور نوافل میں سنانے کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت دنیا میں قرآن کریم کے حفاظ کی تعداد نوے لاکھ کے لگ بھگ ہے اور یہ قرآن کریم کے معجزہ ہونے کی کھلی اور ناقابل تردید شہادت ہے۔

حضرت شاہ عبد القادر محدث دہلویؒ نے سورۃ العنکبوت کی انہی آیات کے ضمن میں لکھا ہے کہ قرآن کریم کی اصل جگہ سینہ ہے اور کتابت امر زائد ہے۔ یعنی قرآن کریم کا اصل حق یہ ہے کہ اسے یاد کیا جائے اور اس کی حفاظت کا اصل نظام بھی یہی ہے کہ وہ یاد کیا جاتا ہے اور اتنی بار پڑھا اور سنا جاتا ہے کہ اس کے ساتھ کسی اور چیز کے خلط ملط ہونے کا کوئی امکان باقی نہیں رہا۔ کتابت قرآن کریم کی ضروریات میں سے نہیں ہے، اسے لکھا جائے یا نہ لکھا جائے اس کی حفاظت کے نظام میں کوئی کمی پیدا نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ جناب نبی اکرمؐ کے دور میں قرآن کریم تحریری طور پر کتابی شکل میں موجود نہیں تھا اور اسے تحریری طور پر کتاب کی شکل حضرت ابوبکرؓ کے دور خلافت میں احتیاطی تدبیر کے طور پر دی گئی۔ اس سے قبل وہ صرف یاد کرنے کی چیز تھی اور ہزاروں صحابہ کرامؓ کے سینوں میں محفوظ تھا۔

  1. قرآن کریم کو تحریری صورت میں کتاب کی شکل دینے کا داعیہ سب سے پہلے حضرت عمرؓ کے ذہن میں پیدا ہوا جب آنحضرتؐ کے وصال کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے دور میں مختلف اطراف میں بغاوت کے شعلے بھڑکے اور مرتدین کی سرکوبی کے لیے صحابہ کرامؓ کے مختلف لشکر چاروں طرف پھیل گئے۔ ان جنگوں میں شہید ہونے والے صحابہ کرامؓ میں ایک بڑی تعداد قرآن کریم کے حفاظ کی تھی، خصوصاً مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ میں شہید ہونے والے حافظ قرآن کریم صحابہ کرامؓ کی تعداد سات سو کے لگ بھگ بیان کی جاتی ہے۔ اس پر حضرت عمرؓ کو تشویش ہوئی اور انہوں نے خلیفہ وقت حضرت ابوبکر صدیقؓ سے عرض کیا کہ قرآن کریم کو کتابی شکل میں لکھ کر محفوظ کر لینا چاہیے۔ حضرت ابوبکرؓ پہلے تو اس کام کے لیے تیار نہ ہوئے پھر کافی سوچ بچار کے بعد انہوں نے اس تجویز کو قبول کیا اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب وحی حضرت زید بن ثابتؓ کو یہ ذمہ داری سونپی کہ قرآن کریم کو کتابی شکل میں محفوظ کیا جائے، جس پر قرآن کریم کا پہلا باضابطہ نسخہ لکھا گیا اور اسے سرکاری نسخہ کے طور پر مسجد نبویؐ میں رکھ دیا گیا۔ یہ قرآن کریم کو کتابی شکل دینے کا پہلا مرحلہ تھا۔
  2. اس کے بعد دوسرا مرحلہ امیر المومنین حضرت عثمانؓ کے دور میں پیش آیا جب اسلام کا دائرہ عرب سے باہر علاقوں میں دور دور تک پھیل چکا تھا۔ قرآن کریم عربی زبان میں قریش کی لغت میں نازل ہوا تھا لیکن ہر زبان میں لغتوں اور لہجوں کا تھوڑا بہت فرق ہوتا ہے اور کچھ الفاظ اور حروف مختلف علاقوں میں لہجے اور لغتوں کے فرق کے ساتھ بولے اور پڑھے جاتے ہیں، جس سے معنی میں کوئی فرق نہیں پڑتا مگر دیکھنے میں وہ الگ الگ لفظ دکھائی دیتے ہیں۔ اہل زبان ان میں کوئی فرق نہیں سمجھتے مگر دوسری قوموں میں ان میں فرق سمجھا جاتا ہے۔ قرآن کریم کو عربی کے مختلف لہجوں اور لغتوں میں پڑھنے کی اجازت تھی جو عربوں کے ہاں کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن یہ فرق جب عجمیوں کے سامنے آیا تو اختلاف پیدا ہونے لگے اور تنازعات کھڑے ہونے شروع ہوگئے۔ حضرت حذیفہ بن ایمانؓ نے ایک موقع پر دو آدمیوں کو لڑتے دیکھا جو قرآن کریم کے ایک لفظ پر جھگڑا کر رہے تھے۔ دونوں عجمی تھے، ایک لفظ کو الگ الگ لغت میں پڑھ رہے تھے اور عربی زبان سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے الگ الگ ہی سمجھ رہے تھے۔ یہ جھگڑا دیکھ کر حضرت حذیفہؓ کو تشویش ہوئی انہوں نے اپنی تشویش سے حضرت عثمانؓ کو آگاہ کیا تو انہوں نے صحابہ کرامؓ کے مشورہ کے ساتھ امیر المومنین کی حیثیت سے یہ فیصلہ صادر فرما دیا کہ قرآن کریم آئندہ قریش ہی کی لغت میں پڑھا جائے گا اور اس کی کتابت بھی اسی میں ہوگی۔ حضرت عثمانؓ نے مختلف لہجوں میں لکھی ہوئی قرآن کریم کی سورتیں لوگوں سے حاصل کیں اور سب کو جمع کر کے نذر آتش کر دیا، اور قرآن کریم کا جو محفوظ کتابی نسخہ بیت المال میں موجود تھا اس کی مختلف نقول قریش کی لغت پر تیار کر کے مختلف صوبوں میں بھجوا دیں جن میں سے تین نسخے اب بھی موجود ہیں۔ ایک استنبول کے توپ کاپی میوزیم میں ہے، دوسرا تاشقند میں ہے، اور تیسرا نسخہ لندن کی انڈیا آفس لائبریری میں ہے جس کی میں نے بھی زیارت کی ہے۔ یہ قرآن کریم کی کتابی شکل میں محفوظ کرنے کا دوسرا مرحلہ تھا۔
  3. جبکہ تیسرا مرحلہ اموی دور خلافت میں آیا اور اس کا باعث حجاج بن یوسف بنا۔ حجاج بن یوسف کے مظالم کی داستان بڑی لمبی ہے مگر اس کے ملّی کاموں کی فہرست بھی اسی طرح طویل ہے جن میں ایک یہ بھی ہے کہ اس نے کسی موقع پر ایک عجمی کو قرآن کریم پڑھتے سنا جو قرآن کریم پر زیر زبر اور دیگر علامات نہ ہونے کی وجہ سے غلط پڑھ رہا تھا اور ایک آیت کو اس قدر غلط پڑھ رہا تھا کہ اس سے کفر کا مفہوم نکلتا تھا۔ یہ سن کر حجاج کو تشویش ہوئی اور اس نے سرکردہ علماء کرام کی کمیٹی بنا کر اسے یہ کام سونپا کہ وہ قرآن کریم پر زیر زبر اور دوسری ایسی علامتیں لگائیں جس سے غیر عرب لوگوں کے لیے اس کی صحیح تلاوت آسان ہو جائے۔

اس طرح قرآن کریم کی یہ کتابی شکل وجود میں آئی جو اس وقت ہمارے سامنے ہے۔ یہ کتابی صورت ہماری ضرورت ہے، جبکہ قرآن کریم ہر وقت لاکھوں مسلمانوں کے سینوں میں اس شان کے ساتھ محفوظ رہتا ہے کہ ہر سال رمضان المبارک میں اسے اہتمام کے ساتھ پڑھا اور سنا جاتا ہے، چنانچہ کتاب کے ظاہری اسباب کی کوئی اہمیت اس کے لیے باقی نہیں رہ جاتی۔ اسی حقیقت کو حضرت شاہ عبد القادر محدث دہلویؒ نے ان الفاظ کے ساتھ بیان فرمایا کہ قرآن کریم کی اصل جگہ سینہ ہے اور کتابت امر زائد ہے۔ یعنی اگر قرآن کریم کی سرے سے کہیں کتابت نہ کی جائے تو بھی قرآن کریم کی موجودگی اور حفاظت کا نظام متاثر نہیں ہوتا، لاکھوں حفاظ اس کی ہر وقت حفاظت کر رہے ہوتے ہیں، اور یہ قرآن کریم کا بہت بڑا اعجاز ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter