حالات حاضرہ ۔ پاکستان شریعت کونسل کا اجلاس

   
۱۸ ستمبر ۲۰۱۳ء

پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمن درخواستی نے اہم امور کا جائزہ لینے کے لیے ایک مشاورتی اجلاس ۱۲ ستمبر کو طلب کیا جو مرکز حافظ الحدیث درخواستیؒ حسن ابدال میں ان کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس سے صدرِ اجلاس اور راقم الحروف کے علاوہ مولانا قاضی محمد رویس ایوبی، مولانا قاری جمیل الرحمن اختر، مفتی محمد سیف الدین گلگتی، صلاح الدین فاروقی، ڈاکٹر شاہ نواز اعوان، حافظ سید علی محی الدین، مولانا سید حبیب اللہ شاہ حقانی اور دیگر حضرات نے خطاب کیا۔ اجلاس میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالہ سے آل پارٹیز کانفرنس کے متفقہ فیصلے کا خیر مقدم کیا گیا اور توقع کا اظہار کیا گیا کہ دونوں فریق سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرات کے اس عمل کو آگے بڑھائیں گے اور ملک و قوم کو بد اَمنی اور قتل و غارت سے نجات دلائیں گے۔

اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعہ حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ:

  • پوری قوم اور خاص طور پر قبائلی عوام کی اس خواہش کا احترام کیا جائے کہ نفاذِ شریعت کا پوری طرح اہتمام ہو اور اس سلسلہ میں دستوری تقاضوں اور قبائلی عوام کے ساتھ کیے گئے معاہدات پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔
  • ڈرون حملوں کو بند کرانے کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں اور ملکی سرحدوں کے احترام کے ساتھ ساتھ بے گناہ شہریوں کا قتل عام ہر قیمت پر رُکوایا جائے۔
  • قبائلی علاقوں اور عوام کے ساتھ مبینہ طور پر ہونے والی زیادتیوں کا نوٹس لیا جائے اور ان کا ازالہ کیا جائے۔

جبکہ پاکستان شریعت کونسل نے پاکستانی طالبان کے تمام گروپوں سے اپیل کی ہے کہ وہ دستورِ پاکستان کی وفاداری اور منتخب حکومت کی رِٹ کو تسلیم کرنے کا اعلان کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ اپنی جدوجہد، مطالبات اور دائرہ کار کو دستورِ پاکستان کے دائرے میں لائیں گے۔

پاکستان شریعت کونسل اس رائے کا اظہار اس موقع پر ضروری سمجھتی ہے کہ دستورِ پاکستان پوری قوم کی متفقہ دستاویز ہے جس میں نفاذِ شریعت کے لیے تمام ضروری اقدامات کی ضمانت دی گئی ہے اور اس پر دیگر قومی راہ نماؤں کے ساتھ ساتھ حضرت مولانا مفتی محمودؒ ، حضرت مولانا عبد الحقؒ ، حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ ، حضرت مولانا نعمت اللہؒ ، حضرت مولانا صدر الشہیدؒ اور حضرت مولانا عبد الحکیمؒ جیسے اکابر کے دستخط ہیں جو پوری قوم کے لیے قابل احترام ہونے کے علاوہ طالبان کی غالب اکثریت کے اساتذہ ہیں۔ اس لیے اس دستور کی پاسداری ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ پاکستان شریعت کونسل یہ سمجھتی ہے کہ اگر نفاذِ شریعت کے لیے جدوجہد کرنے والے تمام گروپ دستوری جدوجہد کے راستے پر آجائیں تو انہیں اس جدوجہد میں پوری قوم کا تعاون اور حمایت حاصل ہوگی۔

اجلاس میں پاکستان میں موت کی سزا کا قانون ختم کرانے کی مہم کا جائزہ لیا گیا اور اس رائے کا اظہار کیا گیا کہ توہین رسالتؐ پر موت کی سزا کا قانون ختم کرانے کی مہم میں ناکامی کے بعد اب سیکولر مغربی لابیوں نے سرے سے موت کی سزا کو ختم کرانے کی مہم شروع کر دی ہے اور اس کے لیے یورپی یونین بطور خاص حکومت پاکستان پر مسلسل دباؤ ڈال رہی ہے۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ سابق صدر جناب آصف علی زرداری نے پارلیمنٹ ہاؤس کے آخری دورے کے موقع پر یہ کہہ کر بات واضح کر دی ہے کہ ’’اگر پاکستان نے یورپی مارکیٹ تک رسائی حاصل کرنی ہے تو پھانسی کا قانون ختم کرنا ہوگا‘‘۔ اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعہ کہا گیا ہے کہ مختلف جرائم پر موت کی سزا کے بارے میں قرآن و سنت کے صریح احکامات موجود ہیں جن سے انحراف دستورِ پاکستان سے انحراف ہوگا اور معاشرے میں جرائم کو بے لگام کر دینے کے مترادف ہوگا ، اس لیے اس کی پوری شدت کے ساتھ مخالفت کی جائے گی اور اس مہم کا مقابلہ کیا جائے گا۔

پاکستان شریعت کونسل نے ملک کی تمام دینی و سیاسی جماعتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ سزائے موت کے شرعی قوانین کے خلاف اس مہم کا نوٹس لیں اور ناموس رسالتؐ کے قانون کی طرح اس مہم کے خلاف بھی متحد ہو کر جدوجہد کریں۔

اجلاس میں افغان طالبان کے ساتھ امریکہ کے مذاکرات کی تجویز کو خوش آئند قرار دیا گیا ہے اور افغان طالبان کے ساتھ مکمل یک جہتی اور ہم آہنگی کا اظہار کرتے ہوئے ایک قرارداد میں کہا گیا ہے کہ (۱) افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کا انخلاء (۲) افغانستان کی قومی خود مختاری کی بحالی (۳) افغانستان میں شرعی قوانین کا نفاذ اور (۴) غیر ملکی مداخلت سے پاک ایک آزاد اور خود مختار حکومت کا قیام افغان عوام کا ناقابل تنسیخ حق ہے۔ اس لیے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ افغان قوم کے اس جائز اور مسلمہ حق کا احترام کرتے ہوئے اپنی افواج کو افغانستان سے بلا تاخیر نکال لیں اور افغان عوام کو خود مختار حکومت کے قیام کا آزادانہ حق واپس کر دیں۔ اجلاس میں مصر اور شام میں دینی اور عوامی قوتوں کے خلاف وہاں کی آمرانہ حکومتوں کے جبر و تشدد کی شدید مذمت کرتے ہوئے مصری اور شامی عوام کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا گیا ہے اور اس سلسلہ میں او۔آئی۔سی کی خاموشی اور بے حسی کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے دنیا بھر کی تمام مسلمان حکومتوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ مصر اور شام کے عوام پر روا رکھے جانے والے وحشیانہ مظالم پر خاموش تماشائی نہ بنیں اور ان مظلوم عوام کو عالمی استعماری طاقتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے کی بجائے خود آگے بڑھیں اور انہیں جبر و ظلم سے نجات دلانے کے لیے مؤثر اقدامات کریں۔ اجلاس کی ایک قرارداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ مسلم حکومتوں کے سربراہوں کا ہنگامی اجلاس طلب کر کے اس سلسلہ میں واضح موقف اور لائحہ عمل طے کیا جائے۔

پاکستان شریعت کونسل کے راہ نماؤں نے مشرق وسطیٰ اور پاکستان میں بڑھتی ہوئی سنی شیعہ کشیدگی کا بھی جائزہ لیا اور اس بات کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا ہے کہ ’’شیعہ جارحیت‘‘ کے تیزی سے بڑھتے ہوئے دائروں اور مستقبل کے خطرات و خدشات کے پیش نظر سنی محاذ پر کام کرنے والی جماعتوں میں مفاہمت و رابطہ کو فروغ دیا جائے اور مجموعی صورت حال کا زمینی حقائق کی بنیاد پر حقیقت پسندانہ جائزہ لیتے ہوئے ’’شیعہ جارحیت‘‘ کی پورے خطے میں مسلسل پیش رفت کی روک تھام کے لیے ٹھوس لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔ اجلاس میں طے پایا کہ اس سلسلہ میں متعلقہ حلقوں سے رابطے کیے جائیں گے اور باہمی رابطہ و مفاہمت کے فروغ کے لیے جدوجہد کی جائے گی۔

اجلاس میں گلگت بلتستان کے حوالہ سے آزاد کشمیر کی دینی و سیاسی جماعتوں کے اس موقف کی حمایت کی گئی ہے کہ گلگت بلتستان کو ایک انتظامی حکم کے تحت مستقل صوبہ بنانے سے مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے قومی موقف کو نقصان پہنچا ہے کیونکہ بین الاقوامی دستاویزات کی رُو سے گلگت بلتستان اور اسکردو کے یہ علاقے ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہیں اور انہیں اس سے الگ صوبائی حیثیت دینا قانونی، دستوری اور اخلاقی لحاظ سے درست نہیں ہے۔اجلاس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ آزاد کشمیر کی سیاسی و دینی قیادت کے اس متفقہ موقف کو تسلیم کرے اور گلگت بلتستان کو الگ صوبے کا درجہ دینے کا ایگزیکٹو آرڈر واپس لینے کا اعلان کرے۔

پاکستان شریعت کونسل نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ملک میں د ستور کے مطابق نفاذِ اسلام کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عمل درآمد کیا جائے۔ اجلاس میں پاکستان شریعت کونسل کے راہ نما مولانا قاری انیس الرحمن اطہر قریشیؒ کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے ان کی دینی و جماعتی خدمات پر خراج عقیدت پیش کیا گیا اور ان کے لیے دعائے مغفرت کی گئی۔

پاکستان شریعت کونسل کے سربراہ مولانا فداء الرحمن درخواستی نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنے اکابر کی جدوجہد اور روایات کو زندہ رکھنے کے لیے محنت کرنی چاہیے، انہوں نے کہا کہ ہمارے مسائل اور مشکلات کی اصل وجہ قرآن و سنت کی تعلیمات سے غفلت اور بے توجہی ہے، اگر آج ہم قرآن و سنت کی تعلیمات اور اپنے اکابر کے طرز عمل کو صحیح طور پر اپنا لیں تو موجودہ دلدل سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter