’’امریکیو! پاکستان سے نکل جاؤ‘‘

   
۲۰۰۲ء غالباً

گزشتہ روز پشاور میں وکلاء نے امریکہ کے خلاف مظاہرہ کیا۔ ایک قومی اخبار کی رپورٹ کے مطابق مظاہرین ایف بی آئی کے چھاپوں اور گرفتاریوں پر احتجاج کر رہے تھے اور انہوں نے جو بینر اٹھا رکھے تھے ان پر لکھا تھا کہ امریکیو! پاکستان سے نکل جاؤ اور ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت بند کرو۔ احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے بار کونسل کے صدر شیر اَفگن خٹک نے کہا کہ پاکستان امریکہ کی کالونی بن چکا ہے اور ایف بی آئی کے چھاپے پاکستان کی سالمیت اور آزادی کے خلاف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غیرملکی ایجنٹوں کو چھاپے مارنے کا کوئی اختیار نہیں۔

پشاور کے وکلاء کی طرف سے امریکیوں سے پاکستان چھوڑ دینے کے مطالبہ پر ہمیں ۹ سال قبل کی ایک مہم یاد آ گئی جو ہم نے اسی عنوان سے ’’ورلڈ اسلامک فورم‘‘ کے پلیٹ فارم سے شروع کی تھی اور ۲۶ دسمبر ۱۹۹۳ کو کراچی میں اس کا پہلا کنونشن منعقد کیا تھا۔ مگر ہماری معروف دینی قیادت اس سلسلہ میں تحفظات کا شکار ہو گئی اور اس مہم کو بے اثر بنانے کے لیے ایسے ایسے ہتھکنڈے اختیار کیے گئے کہ ہم اس مہم کے لیے کراچی، لاہور اور گوجرانوالہ کے تین اجتماعات سے آگے نہ بڑھ سکے۔ یہ مہم اور اس کا انجام اب بھی یاد آتا ہے تو زبان پر بے ساختہ یہ شعر جاری ہو جاتا ہے کہ:

گلۂ جفائے وفا نما جو حرم کو اہل حرم سے ہے
کسی بتکدے میں بیاں کروں تو صنم بھی کہے ہری ہری

مگر اس داستان کو کسی اور مناسب موقع کے لیے چھوڑتے ہوئے کراچی کنونشن کی اس رپورٹ کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے جو اس سے قبل ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ میں اس دور میں شائع ہو چکی ہے۔ اس مہم کو ’’امریکیو! واپس جاؤ‘‘ کا نام دیا گیا تھا اور ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین کی حیثیت سے راقم الحروف اس کا داعی تھا، اس کے تحت جو سب سے پہلا اعلامیہ جاری کیا گیا وہ درج ذیل ہے:

’’اسلامی جمہوریہ پاکستان معرض وجود میں آتے ہی برطانوی استعمار کے تازہ دم جانشین امریکی استعمار کی سازشوں کا شکار ہو گیا تھا۔ اور ملک کے معاملات میں امریکی مداخلت اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ سابق صدر پاکستان محمد ایوب خان مرحوم ’’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ کے عنوان سے امریکی حکمرانوں کو یہ پیغام دینے پر مجبور ہو گئے تھے کہ ہمیں آقاؤں کی نہیں بلکہ دوستوں کی ضرورت ہے۔ مگر پاکستان کے داخلی امور میں امریکی مداخلت کا سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا جا رہا ہے اور اب صورتحال یہ ہے کہ:

  • امریکہ پاکستان میں قادیانیت اور دیگر لا دین عناصر کی مسلسل سرپرستی اور پشت پناہی کر رہا ہے۔
  • انسانی حقوق کے نام پر خواتین اور اقلیتوں کو گمراہ کرنے میں مصروف ہے۔
  • قرآن و سنت کی بالادستی کے لیے پیش کیا جانے والا ’’شریعت بل‘‘ امریکی سفارت خانے کی سازشوں کی نذر ہو چکا ہے۔
  • پاکستان کا ایٹمی پروگرام امریکی دباؤ کے تحت تین سال قبل منجمد کر دیا گیا تھا۔
  • اور کشمیر کو تقسیم کرنے اور وادی میں امریکی فوجی اڈہ قائم کرنے کا منصوبہ منظر عام پر آ چکا ہے۔

ان حالات میں مذہبی آزادی اور قومی خودمختاری کے تحفظ کے لیے ’’امریکیو! واپس جاؤ مہم‘‘ کو منظم کرنا ہمارے لیے دینی اور قومی فریضہ کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ اس مقصد کے لیے ملک کے مختلف حصوں میں علماء اور دانشوروں کے کنونشن منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور فرقہ وارانہ کشمکش، حکومتی لابیوں، انتخابی سیاست، گروہی سیاست اور اقتدار کی سیاست سے الگ تھلگ رہتے ہوئے ملک کی رائے عامہ کو امریکی مداخلت اور سازشوں کے خلاف منظم کرنے کا پروگرام طے کیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں پہلا کنونشن دسمبر ۱۹۹۳ء کے آخر میں کراچی میں ہو رہا ہے جس میں پروگرام کی تفصیلات اور ترجیحات کا اعلان کیا جائے گا، ان شاء اللہ تعالٰی۔‘‘

اس اعلامیہ کے ساتھ ۲۶ دسمبر ۱۹۹۳ء کو دفتر ختم نبوت (مسجد باب الرحمت ، پرانی نمائش، کراچی) میں پہلا کنونشن منعقد ہوا جس کی صدارت حضرت مولانا فداء الرحمان درخواستی نے کی اور اس سے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم، خطیب اسلام حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ، مجاہد ختم نبوت حضرت مولانا اللہ وسایا، اور حضرت مولانا مفتی نظام الدین شامزئی نے خطاب فرمایا، جبکہ شاعر اسلام الحاج سید سلمان گیلانی نے منظوم کلام کی صورت میں اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ ان بزرگوں نے پاکستان کے اندرونی معاملات اور قومی و دینی امور میں امریکہ کی روزافزوں مداخلت پر تشویش و اضطراب کا اظہار کرتے ہوئے اس مہم کی حمایت فرمائی اور اس بات پر زور دیا کہ اس مہم کو منظم اور مربوط طریقہ سے آگے بڑھایا جائے۔

اس موقع پر کنونشن کے شرکاء اور معزز مہمانوں کی خدمت میں خطبہ استقبالیہ کے عنوان سے جو معروضات پیش کی گئیں ان پر بھی ایک نظر ڈال لیں:

’’حضرات محترم! آج کے اس ’’علماء کنونشن‘‘ کے دعوت نامے سے آپ حضرات کو علم ہو چکا ہے کہ یہ اجتماع عالم اسلام اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے معاملات میں امریکہ کی بڑھتی ہوئی مداخلت اور اس کے روزافزوں منفی اثرات سے پیدا شدہ صورتحال کا خالصتاً دینی نقطۂ نظر سے جائزہ لینے کے لیے منعقد کیا جا رہا ہے اور اس کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ اکابر اہل علم علماء حق کی تاریخی روایات کا تسلسل قائم رکھتے ہوئے اس نازک اور حساس مسئلہ میں شرعی اصولوں کی روشنی میں امت مسلمہ کی راہنمائی کریں تاکہ علماء اور دینی کارکن اس کی بنیاد پر اپنی آئندہ جدوجہد اور تگ و تاز کی راہیں متعین کر سکیں۔

راہنمایان قوم! علماء حق کی تاریخ شاہد ہے کہ امت مسلمہ کو اجتماعی طور پر جب بھی بیرونی قوتوں کی دخل اندازی اور سازشوں سے سابقہ پڑا ہے، علماء امت نے آگے بڑھ کر ملت اسلامیہ کی راہنمائی کی ہے۔ تاتاری یورش کے خلاف شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کی جدوجہد، اکبر بادشاہ کے ’’دین الٰہی‘‘ کے خلاف حضرت مجدد الف ثانیؒ کا نعرہ حق، ہندو مرہٹوں کی بڑھتی ہوئی یلغار کے مقابلہ میں حضرت امام ولی اللہ دہلویؒ کی مومنانہ تدبیریں، اور فرنگی استعمار کے تسلط کے خلاف حضرت شاہ عبد العزیز دہلویؒ کا فتوٰی جہاد علماء حق کی اسی جدوجہد کے سنگ ہائے میل ہیں جو آج بھی اسلام کی بالادستی اور امت مسلمہ کی خودمختاری کی منزل کی طرف ہماری راہنمائی کرتے ہیں۔ اور تاریخ کے اسی تسلسل کے ساتھ حال کا رشتہ جوڑنے کے لیے آپ حضرات کو اس کنونشن میں شرکت کی زحمت دی گئی ہے۔

زعمائے ملت! امریکہ جو اس وقت سب سے بڑی عالمی قوت اور اسلام کے خلاف کفر کی تمام قوتوں کا نقیب ہے، عالم اسلام میں دینی بیداری کی تحریکات کو سبوتاژ کرنے اور بے اثر بنانے کے لیے جو جتن کر رہا ہے وہ آپ جیسے اصحاب دانش و فراست سے مخفی نہیں ہیں ۔اور امریکہ کے یہ مقاصد اب کسی سے پوشیدہ نہیں رہے کہ:

  • عالم اسلام کے کسی ملک میں اسلامی نظریاتی حکومت قائم نہ ہونے پائے۔
  • کوئی مسلم ملک معاشی خودکفالت اور اقتصادی خودمختاری کی منزل حاصل نہ کر سکے۔
  • کوئی مسلم ملک ایٹمی توانائی سمیت دفاع کی کوئی جدید تکنیک حاصل نہ کر سکے۔
  • عالم اسلام کے اتحاد اور سیاسی یکجہتی کی کسی جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار نہ ہونے دیا جائے۔

اس مقصد کے لیے نہ صرف دنیائے کفر کی تمام قوتیں بلکہ عالم اسلام کی سیکولر لابیاں اور لادین قوتیں بھی امریکہ کے ساتھ شریک کار ہیں۔

اسی طرح اسلامی جمہوریہ پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت بھی اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ یہ مداخلت جو قیام پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھی اب بڑھتے بڑھتے یہ کیفیت اختیار کر گئی ہے کہ پاکستان عملاً امریکہ کی نوآبادیاتی بن کر رہ گیا ہے اور اس کی قوی زندگی کے کسی بھی شعبہ میں امریکہ کی رضامندی کے بغیر اعلٰی سطح کا کوئی فیصلہ نہیں ہو پاتا، اور اس وقت عملی صورتحال یہ ہے کہ:

  • امریکہ نے پاکستان کی امداد کو ۱۹۸۷ء میں جن شرائط کے ساتھ مشروط کیا تھا (روزنامہ جنگ لاہور ۵ مئی ۱۹۸۷ء میں شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق) ان میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے اور اسلامی اصطلاحات کے استعمال سے روکنے کے اقدامات واپس لینے کے واضح مطالبہ کے علاوہ بعض اسلامی قوانین کو انسانی حقوق کے منافی قرار دیتے ہوئے ان کے نفاذ سے باز رہنے کی شرائط بھی شامل ہیں، جن پر امریکہ بدستور قائم ہے اور انہیں پورا کرنے کے لیے مسلسل دباؤ ڈال رہا ہے۔
  • ماہنامہ محقق لاہور دسمبر ۱۹۹۳ء کے انکشاف کے مطابق صدر جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے آخری دور میں شریعت آرڈیننس جاری کیا تو امریکی حکومت نے اس قدر سخت بازپرس کی کہ حکومت پاکستان کو اس پر عملدرآمد نہ ہونے کی یقین دہانی کرانا پڑی۔ اور امریکہ کو سرکاری طور پر مطلع کرنے کے علاوہ دنیا بھر کے پاکستانی سفارتخانوں کو بھی ہدایات جاری کی گئیں کہ وہ متعلقہ حکومتوں کو اس سے آگاہ کر دیں۔ اس کے ساتھ ہی سرکاری طور پر منظور کرائے جانے والے شریعت بل میں قرآن و سنت کی بالادستی سے حکومتی ڈھانچے اور سیاسی نظام کو مستثنٰی قرار دیے جانے پر اسلام آباد میں متعین امریکی سفیر نے کھلم کھلا جس طرح اطمینان کا اظہار کیا وہ اس سلسلہ میں امریکی پالیسیوں کے رخ کی واضح نشاندہی کرتا ہے۔
  • پاکستان کو ایٹمی توانائی کے حصول سے روکنے اور اپنے دفاع کے لیے خاطرخواہ انتظام کے شرعی اور جائز حق سے محروم کرنے کے لیے امریکہ جو کچھ کر رہا ہے وہ آپ بزرگوں کے سامنے ہے۔ اور پاکستان کو اقتصادی طور پر محتاج اور اپاہج بنائے رکھنے کی امریکی پالیسی روز روشن کی طرح واضح ہے۔
  • کشمیر کو تقسیم کرنے کا منصوبہ منظر عام پر آ چکا ہے اور امریکہ نے ایک طے شدہ پالیسی کے تحت پاکستان کی فوج کو صومالیہ میں الجھا کر وہاں کی مسلم آبادی سے پاک فوج کو لڑانے اور افریقی مسلمانوں میں پاکستان کے خلاف نفرت پیدا کرنے کی راہ ہموار کی ہے اور اس کے اثرات بتدریج سامنے آ رہے ہیں۔

ان حالات میں آپ بزرگوں کو زحمت دی گئی ہے کہ اسلام کی بالادستی، عالم اسلام کے اتحاد، مسلمانوں کی خودمختاری، مذہبی آزادی اور قومی وقار کے تحفظ کے لیے امت مسلمہ کی راہنمائی فرمائیں۔ اور دینی جماعتوں، علماء اور کارکنوں کے لیے ایک ایسا واضح لائحہ عمل متعین فرمائیں جو امریکی استعمار کے تسلط سے عالم اسلام اور پاکستان کی حقیقی آزادی کی جدوجہد کی دینی بنیاد ثابت ہو۔‘‘

یہ گزارشات آج سے نو سال قبل پیش کی گئی تھیں جب طالبان کا کوئی وجود تھا اور نہ ہی شیخ اسامہ بن لادن امریکہ کے مدمقابل کھل کر آئے تھے۔ یہ معروضات اس وقت کی معروضی صورتحال میں اکابر علماء کرام کے گوش گزار کی گئی تھیں جن کی اہمیت میں وقت گزرنے کے ساتھ مزید در مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ آج پشاور کے قانون دان حضرات اس مشن اور مہم کو لے کر آگے بڑھے ہیں تو یہ ہمارے لیے بے حد خوشی کا موقع ہے، جس پر ہم انہیں مبارکباد دیتے ہیں اور ان کی استقامت اور کامیابی کے لیے دعاگو ہیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter