بلتستان کے مطالعاتی دورے کے بارے میں کچھ گزارشات ایک گزشتہ کالم میں پیش کر چکا ہوں۔ یہ علاقہ سنی شیعہ کشیدگی کے حوالے سے بہت حساس ہے۔ گلگت بلتستان کے جس خطے کو ایک الگ صوبائی یونٹ کی حیثیت دی گئی ہے اس میں اہل سنت کی مجموعی آبادی ۲۷ فیصد بیان کی جاتی ہے، ان میں اکثریت علماء دیوبند سے متعلق ہے، کچھ اہل حدیث حضرات بھی ہیں اور اب خال خال لوگ بریلوی مکتب فکر کے مدارس سے تعلیم حاصل کرنے والے بھی پائے جاتے ہیں، جبکہ اہل تشیع میں اثنا عشریوں کے علاوہ اسماعیلیوں اور نور بخشیوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ دیامر کے علاقے میں اہل سنت کی اکثریت ہے، غزر ضلع میں اسماعیلی اکثریت میں ہیں، کنگچھے ضلع میں نور بخشیوں کی آبادی ۸۷ فیصد بتائی جاتی ہے، اور باقی علاقوں میں اثنا عشری فرقے کے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے۔ گلگت شہر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اہل سنت اور اہل تشیع کی آبادی تھوڑے بہت فرق کے ساتھ کم و بیش برابر ہے۔
یہ علاقہ پاکستان کے قیام کے وقت جموں و کشمیر کی ڈوگرہ ریاست کا حصہ سمجھا جاتا تھا اور یہاں جموں کے ڈوگرہ خاندان کی حکمرانی تھی، یہاں کے لوگوں نے ڈوگرہ فوج سے لڑ کر آزادی حاصل کی ہے، اسی وجہ سے یہ خطہ جموں و کشمیر کے ساتھ بھارت اور پاکستان کے درمیان متنازعہ علاقہ شمار ہوتا ہے۔ اور بین الاقوامی دستاویزات میں جو علاقہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازعہ سمجھا جاتا ہے اس میں گلگت بلتستان بھی شامل ہے، اسی بنا پر اس خطے کو الگ صوبہ کا درجہ دینے پر کشمیری رہنماؤں کو اعتراض ہے کہ اس سے مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی فورم پر نقصان پہنچے گا اور بھارت کو، جس نے مقبوضہ کشمیر کو اپنا باقاعدہ صوبہ بنا رکھا ہے، یہ کہنے کا موقع ملے گا کہ چونکہ پاکستان نے بھی متنازعہ علاقے کے ایک حصے کو اپنا باقاعدہ صوبہ بنا لیا ہے اس لیے اس کا مقبوضہ کشمیر کو اپنا صوبہ قرار دینے کا عمل بھی درست ہے۔ اسی طرح کشمیری قیادت کی طرف سے یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ گلگت بلتستان کو الگ صوبے کی حیثیت دینا کشمیر کو تقسیم کرنے کے عمل کی طرف پیشرفت بھی ہو سکتی ہے۔
اب سے ربع صدی قبل جب محمد خان جونیجو مرحوم کی وزارت عظمٰی کے دور میں شمالی علاقہ جات یعنی گلگت بلتستان وغیرہ کو الگ صوبہ بنانے کا پروگرام طے پایا تھا اور جونیجو مرحوم نے اس کا باقاعدہ اعلان کرنے کے لیے گلگت کے دورے کی تاریخ بھی طے کر دی تھی، کشمیری قیادت کی طرف سے اسی نوعیت کے تحفظات کے اظہار پر یہ منصوبہ ترک کر دیا گیا تھا۔ اس وقت آزاد کشمیر میں سردار عبد القیوم خان کی حکومت تھی اور جمعیۃ علماء اسلام کی طرف سے تین رہنماؤں کا وفد اسلام آباد کے کشمیر ہاؤس میں سردار عبد القیوم خان سے ملا تھا، اس وفد میں حضرت مولانا عبد الحکیم ہزاروی اور حضرت مولانا قاضی عبد اللطیف آف کلاچی کے علاوہ راقم الحروف بھی شامل تھا۔ ہم نے سردار صاحب محترم سے عرض کیا کہ اس خطے کے الگ صوبہ بننے سے مسئلہ کشمیر کو نقصان پہنچے گا، سردار صاحب نے اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس کو رکوانے کی کوشش کر رہے ہیں، چنانچہ ہم نے بھی جمعیۃ علماء اسلام کی طرف سے ان کی اس کوشش کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا تھا۔ سردار محمد عبد القیوم خان کشمیری سیاست کے ساتھ ساتھ پاکستان کی قومی سیاست میں بھی مؤثر آواز رکھتے تھے اس لیے ان کا احتجاج کارگر ہوا اور جونیجو مرحوم نے اپنا پروگرام ملتوی کر دیا۔
مگر اس بار اس حوالے سے کشمیری قیادت کی آواز مؤثر ثابت نہیں ہوئی اور گلگت بلتستان کے نام سے ایک الگ صوبائی یونٹ قائم کر کے اس کے لیے گورنر، وزیر اعلیٰ، قانون ساز اسمبلی، چیف الیکشن کمشنر، پبلک سروس کمیشن اور دیگر صوبائی سطح کے اداروں کے قیام کا اعلان کر دیا گیا ہے اور صوبائی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کی تیاریاں بھی ہو رہی ہیں۔
- ہم نے اس سلسلے میں اس علاقے کے دو اعلٰی عدالتی افسران اور قانون دانوں سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ اس یونٹ میں گورنر، وزیر اعلٰی اور قانون ساز اسمبلی کے قیام کے لیے پاکستان کے دستور میں ترمیم کرنا ہوگی کیونکہ موجودہ دستور میں اس خطے کے لیے ان عہدوں کی گنجائش نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسی وجہ سے گلگت بلتستان کے ہائیکورٹ کو پاکستان کے سپریم کورٹ کے تحت کرنے کی بجائے اس کے لیے الگ چیف کورٹ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے کیونکہ موجودہ دستوری ڈھانچے میں ایسے اقدامات کے لیے کوئی جواز نہیں بنتا۔
- ایک صاحب کا کہنا تھا کہ ایک طرف صوبے کے آئینی سربراہ کو گورنر اور انتظامی سربراہ کو وزیر اعلٰی قرار دیا گیا ہے مگر دوسری طرف ہائیکورٹ کو پاکستان کی سپریم کورٹ کا حصہ بنانے کی بجائے ایک الگ چیف کورٹ کے تحت کر دیا گیا ہے جبکہ اختیارات کا اصل سرچشمہ ابھی تک گلگت بلتستان کونسل ہے جس کی تقرری حکومت پاکستان کرتی ہے اور پاکستان کا وزیراعظم اس کا چیئرمین ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سب الفاظ کا ہیرپھیر اور لیپاپوتی ہے اور قانون ساز اسمبلی کے انتخابات، گورنر اور وزیر اعلٰی مقرر ہوجانے کے باوجود اس خطے کا انتظام عملاً اسی گلگت بلتستان کونسل کے ہاتھ میں رہے گا جو اس سے قبل اس کا نظام چلاتی آرہی ہے اور اس طرح جس منتخب ایوان کو قانون ساز اسمبلی کا نام دیا گیا ہے اس کی عملی حیثیت ڈسٹرکٹ کونسل سے زیادہ نہیں ہوگی۔
- اس سوال پر کہ اس خطے کے عوام کو سیاسی اور شہری حقوق دینے کے لیے اس کے سوا اور کیا ہو سکتا تھا؟ ایک اعلٰی شخصیت نے جواب دیا کہ اس خطے کو آزاد جموں و کشمیر کے نظام کے تحت ایک الگ انتظامی ڈویژن بنایا جا سکتا تھا اور یہاں ہائیکورٹ کا مستقل بینچ آزادکشمیر کی سپریم کورٹ کے تحت قائم کیا جا سکتا تھا جیسا کہ اس تجویز پر اس سے قبل کام بھی ہو چکا تھا اور اس پر باقاعدہ سمری تیار ہو چکی تھی مگر اچانک اس سارے پروگرام کو تبدیل کر کے اسے مستقل صوبائی یونٹ کا درجہ دینے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔
بہرحال کشمیری قیادت کی طرف سے تحفظات کا اظہار تو مسلسل ہو رہا ہے مگر اس کے لیے سردار محمد عبد القیوم خان جیسی توانا آواز کسی طرف سے بھی سامنے نہیں آرہی، خود سردار عبد القیوم خان اب زیادہ بوڑھے ہو چکے ہیں اور ہمارے خیال میں مسلم کانفرنس کی دھڑے بندی اور سردار عتیق احمد خان کی سیاسی تیز رفتاری نے بھی سردار محمد عبد القیوم خان کے بڑھاپے میں اضافہ کر دیا ہے۔ بہرحال ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ سردار صاحب موصوف کو صحت کاملہ سے نوازے اور قومی سیاست میں ایک بار پھر مؤثر کردار ادا کرنے کے قابل بنا دے، آمین یا رب العالمین۔
گلگت بلتستان کے الگ صوبہ بننے پر یہ تحفظات تو کشمیری قیادت کے ہیں جبکہ:
- اہل سنت کی مذہبی قیادت بھی اس حوالے سے تحفظات رکھتی ہے کہ ایک مستقل صوبہ بننے کے بعد بہرحال یہ شیعہ اکثریت کا صوبہ ہوگا اور اس کے ملک بھر کی فرقہ وارانہ سیاست پر گہرے اور دور رس اثرات ہو سکتے ہیں۔
- دوسری طرف گلگت بلتستان کو الگ صوبہ بنانے کے حامی حضرات کا کہنا ہے کہ ڈوگرہ راج کے عرصے کے علاوہ ہم کبھی بھی جموں و کشمیر کا حصہ نہیں رہے اور ہم نے ڈوگرہ راج سے آزادی جموں و کشمیر کے آزاد علاقے کے ساتھ نہیں بلکہ الگ طور پر حاصل کی ہے۔ یہ حضرات بتاتے ہیں کہ قیام پاکستان کے وقت گلگت انگریزی راج کے تحت تھا اور انگریزوں کا ریزیڈنٹ نمائندہ یہاں ان کی طرف سے حکومت کرتا تھا، اس کے خلاف یہاں کے لوگوں نے بغاوت کر کے اسے یہاں سے نکال دیا اور یکم نومبر ۱۹۴۷ء کو ’’جمہوریہ گلگت‘‘ کے نام سے آزاد حکومت کا اعلان کر دیا جو چند ہفتے قائم رہی، اس کے بعد کراچی میں قائد اعظم محمد علی جناح سے ملاقات کر کے ’’معاہدۂ کراچی‘‘ کے تحت حکومت پاکستان کی عملداری کو اس خطے میں قبول کر لیا گیا اور پاکستان کی طرف سے اس کا عارضی طور پر انتظام سنبھالنے کا اعلان کیا گیا۔
- سکردو میں ڈوگرہ حکومت کی طرف سے ایک سکھ بریگیڈیئر اس خطے کا حکمران تھا، گلگت کی آزادی کے بعد سکردو کے عوام نے بھی بغاوت کر دی اور اس مسلح بغاوت کی قیادت کرنل محمد اسلم نے کی جو ایئر مارشل (ر) اصغر خان کے چھوٹے بھائی تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ بلتستان کو ڈوگرہ فوج کے تسلط سے آزاد کرانے میں کرنل محمد اسلم کا اہم کردار تھا بلکہ وہ باغی فوجوں کی کمان کرتے ہوئے لداخ کے راستے سری نگر کے سر پر پہنچ چکے تھے اور ان کا عزم یہ تھا کہ وہ ایک آدھ روز میں سری نگر پر قبضہ کر لیں گے مگر پاک فوج کے انگریز کمانڈر انچیف کے حکم پر انہیں وہاں سے واپس آنا پڑا۔ ورنہ بلتستان کے لوگوں کا کہنا ہے کہ سری نگر پر قبضہ کچھ زیادہ مشکل نہیں رہا تھا۔
- بلتستان نے ڈوگرہ راج سے آزادی ۱۴ اگست ۱۹۴۸ء کو حاصل کی تھی، بعض لوگ کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے علاقے میں ایک راجہ شاہ رئیس خان نے اسے جمہوریہ قرار دے کر آزاد ریاست کے قیام کا پروگرام بنایا تھا مگر یہاں کے سرکردہ لوگوں نے، جن میں گلگت کے مولانا قاضی عبد الرزاق فاضل دیوبند اور سکردو کے مولانا محمد کثیر فاضل دیوبند بھی شامل تھے، اس کی شدید مخالفت کی جس کی وجہ سے راجہ کو حکومت پاکستان سے رابطہ کرنا پڑا اور حکومت پاکستان نے اس خطے کا انتظام سنبھال لیا۔ ایک روایت یہ بھی سننے میں آئی ہے کہ جب ’’جمہوریہ گلگت‘‘ کے نام سے ایک الگ ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا تو اس وقت کے سرکردہ کشمیری لیڈر چودھری غلام عباس مرحوم نے گلگت کی مرکزی جامع مسجد کے خطیب مولانا قاضی عبد الرزاقؒ اور دیگر اہم راہنماؤں سے رابطہ قائم کیا اور ان کے توجہ دلانے پر جمہوریہ گلگت کو ریورس گیئر لگانے کے لیے یہ راہنما متحرک ہوئے۔ اس جمہوریہ گلگت کی صدائے بازگشت آج بھی گلگت اور بلتستان کی فضاؤں میں ’’بلورستان نیشنل فرنٹ‘‘ کے نام سے موجود ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں اس خطے کا نام بلورستان ہوا کرتا تھا اور نیشنلسٹ ذہن اس پرانی یاد کو تازہ کرتے ہوئے آج بھی گلگت بلتستان کو ایک آزاد ریاست کی حیثیت دلوانے کی نہ صرف خواہش رکھتا ہے بلکہ جناب نواز ناجی کی قیادت میں بلورستان نیشنل فرنٹ اس مقصد کے لیے متحرک بھی ہے۔
- بعض حضرات کی طرف سے اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ دنیا کا سب سے اونچا وسیع میدان ’’دیوسائی‘‘ اس خطے میں ہے جو فوجی لحاظ سے انتہائی اہمیت رکھتا ہے اور اس پر بیٹھ کر چین، وسطی ایشیا، افغانستان اور پاکستان سمیت اردگرد کے سب علاقوں کی نگرانی کی جا سکتی ہے، اس لیے اس میدان پر عالمی استعمار کی نظر ہے اور ہو سکتا ہے کہ اس خطے میں ہونے والی یہ تبدیلیاں دیوسائی تک عالمی استعمار کی رسائی کا راستہ ہموار کرنے کا باعث بن جائیں، اس لیے بھی گلگت بلتستان کو الگ صوبے کا درجہ دینے پر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
بہرحال شمالی علاقہ جات کے نام سے موسوم چلا آنے والا یہ خطہ اب گلگت بلتستان کے صوبائی درجے کے ساتھ اپنے نئے سفر کا آغاز کر رہا ہے، قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کے لیے مختلف جماعتیں اور سینکڑوں امیدوار میدان میں اتر چکے ہیں اور گہماگہمی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ یہ الیکشن شاید پیپلز پارٹی جیت جائے جس کے سربراہ سید مہدی شاہ سے ہماری ملاقات سکردو سے واپسی پر ایئرپورٹ پر ہوئی اور انہوں نے مصافحہ کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا کہ وہ وزیراعظم کے دورۂ گلگت کی وجہ سے سکردو میں موجود نہ تھے ورنہ ایک نشست شاید ان کے ساتھ بھی ہو جاتی۔