مانع حمل تدابیر اور اسلام

   
۲۰۱۰ء

(نمازِ فجر کے بعد درسِ حدیث)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ شادی نکاح کی بات ہو رہی تھی اور اس بات کا ذکر ہو رہا تھا کہ مانع حمل تدابیر اختیار کرنا، اس کے بارے میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا ہے؟

حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ میں اپنا حق استعما ل کرتا ہوں لیکن میں ’’عزل‘‘ کرتا ہوں۔ اس زمانے میں مانع حمل تدبیر یہ تھی۔ جناب نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا ’’ان ذٰلک لم یمنع شیئًا ارادہ اللہ‘‘ اللہ نے جس بات کا ارادہ کر لیا ہے تمہاری یہ تدبیر اس میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ چند دن گزرے تو وہی شخص آیا اور کہا کہ یارسول اللہ! میری ساری تدبیر کے باوجود وہ حاملہ ہو گئی ہے۔ تو جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا ’’انا عبد اللہ ورسولہ‘‘ میں اللہ کا بندہ ہوں اور اس کا رسول بھی ہوں۔

میاں بیوی کے، مرد و عورت کے ملاپ سے بچہ پیدا ہوتا ہے۔ اور بچے کی پیدائش سے بسا اوقات مرد و عورت بچتے ہیں کہ اپنا تقاضا تو پورا کریں لیکن حمل نہ ہو، بچہ نہ پیدا ہو۔ ہر زمانے میں یہ خواہش رہی ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی انفرادی طور پر یہ عمل ہوتا تھا۔ آج کل تو یہ ایک عالمی مہم کی صورت میں ہے اور حکومتی پالیسیوں کی شکل میں ہے کہ بچے کم سے کم پیدا کرو۔ ملک میں بھی اور دنیا میں بھی خاندانی منصوبہ بندی، مانع حمل ادویات، ٹیکے اور دیگر چیزیں ہیں۔ اُس زمانے میں دوائیاں ٹیکے نہیں ہوتے تھے، ذاتی تدابیر ہوتی تھیں۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا گیا تو آپؐ نے اس کا یہ جواب دیا۔ یعنی حضورؐ نے یہ بتایا کہ جس انسان نے دنیا میں آنا ہے اس نے آنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو تعداد طے کر رکھی ہے کہ میں نے اتنے بندے بھیجنے ہیں، اس نے بھیجنے ہیں، تمہاری تدبیروں سے اللہ کی فہرست میں کمی نہیں آئے گی۔

اصل بات یہ ہے کہ اس کے چند پہلو ہیں:

  1. ایک تو عقیدے کا پہلو ہے کہ جناب نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اگر نہ چاہے تو یہ تدبیریں رکاوٹ نہیں بن سکتیں۔
  2. دوسری بات یہ ہے کہ فقہاء کرامؒ اجازت دیتے ہیں کہ اگر میاں بیوی آپس میں راضی ہوں تو کوئی مانع حمل تدبیر اختیار کر سکتے ہیں، شرعاً رکاوٹ نہیں ہے۔
  3. تیسری بات یہ کہ ایک ہے شخصی طور پر کسی بات کی اجازت، اور ایک ہے اس کو حکومتی اور اجتماعی پالیسی بنانا۔ یہ جو پہلو ہے اس کے نقصانات ہیں کہ زنا عام ہوتا ہے، رکاوٹ ختم ہوتی ہے اور بے حیائی پھیلتی ہے۔ جس طریقے سے کنڈوم وغیرہ اور یہ چیزیں تقسیم ہوتی ہیں اور ترغیب دی جاتی ہے، اس سے معاشرے میں خرابی پیدا ہوتی ہے اور زنا کو فروغ ملتا ہے۔ اس لیے علماء اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ نفسِ جواز کی بات نہیں، نفسِ جواز تو ہے۔ لیکن ایک اجازت کی شکل میں کہ اگر میاں بیوی متفق ہیں، یا ڈاکٹر کی رائے ہے کہ یہ عورت متحمل نہیں ہے۔ لیکن اس کو عمومی مہم کی شکل دینے اور قومی و اجتماعی پالیسی بنانے میں نقصانات زیادہ ہیں۔

میں ایک دن لندن میں ریل کا سفر کر رہا تھا کہ ایک اشتہار دیکھا۔ میں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ یار یہ اشتہار تو سمجھاؤ کیا ہے۔ اس نے بتایا کہ اشتہار یہ ہے کہ لڑکی جو ایک چھوٹی بچی ہے، سکول جا رہی ہے اور بستہ اس کے ہاتھ میں ہے، اور ماں اس سے پوچھ رہی ہے کہ بستے میں کنڈوم رکھ لیا ہے؟ یعنی ماں اپنی بچی سے پوچھ رہی ہے کہ وہاں تمہیں یہ معاملہ تو پیش آئے گا ہی، تم نے احتیاطی تدبیر کی ہوئی ہے؟

یہ مہم کیا ہے؟ یہ ترغیب کی ایک شکل ہے اور یہ بات درست نہیں ہے۔ اور پھر اس مہم کی بنیاد جس بات پر ہے، یہ کہتے ہیں کہ آبادی بڑھ رہی ہے اور وسائل کم ہو رہے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کہتے ہیں کہ میں دنیا میں رزق پورے اندازے سے اتارتا ہوں ’’قدر فیھا اقواتھا‘‘ (فصلت ۱۰) جتنے بندے پیدا کیے ہیں اس کے مطابق رزق دیتا ہوں۔ وسائل کم نہیں ہوتے، بات تقسیم کی ہے کہ تقسیم غلط ہے۔ ہمارا نظم یہ ہے کہ ایک طرف اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے لاکھوں ٹن گندم سمندر میں پھینکی جاتی ہے اور کاشتکاروں کو گندم پیدا کرنے سے روکا جاتا ہے کہ مارکیٹ میں ریٹ کا بیلنس نہ بگڑے، جبکہ دوسری طرف لوگ بھوک سے مرتے ہیں۔ یعنی تمہارے کھاتے میں جو کام ڈالا ہوا ہے وہ تم خراب کرتے ہو۔

خیر، مسئلہ یہ ہے کہ نفسِ جواز تو ہے کہ میاں بیوی اگر متفق ہوں تو مانع حمل تدبیر اختیار کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر اگر مشورہ دے تب بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کو عمومی مہم بنانے کے جو نقصانات ہیں اور اس سے جو خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ان کی وجہ سے علماء اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع تو نہیں فرمایا لیکن پسند بھی نہیں فرمایا۔ اس لیے فقہاءؒ یہ فرماتے ہیں کہ اس کا انحصار حالات پر ہے کہ جواز کی صورت ہو تو ٹھیک ہے، لیکن نقصانات کی صورت میں گنجائش نہیں ہے۔

2016ء سے
Flag Counter