روزنامہ نوائے وقت میں ’’اور پاکستان بدنام ہو رہا ہے‘‘ کے عنوان سے اصغر علی گھرال کے مضمون کی تین قسطیں نظر سے گزریں جس میں انہوں نے پاکستان میں قادیانیوں کے خلاف درج مقدمات اور ان کے حوالہ سے عالمی سطح پر قادیانیوں کی طرف سے پاکستان کو بدنام کرنے کی مہم کا ذکر کیا ہے اور قادیانیوں کو یہ تسلی دینے کی کوشش کی ہے کہ ان کے خلاف شوروغوغا صرف تنگ نظر ملاؤں نے بپا کر رکھا ہے ورنہ عام مسلمانوں کو ان سے کوئی شکایت نہیں ہے اور نہ ہی ملک کی عام آبادی قادیانیوں کے خلاف کسی قسم کی مہم میں شریک ہے۔ اصغر علی گھرال نے پارسی کالم نگار اردشیر کاؤس جی کے ایک مضمون کا بھی حوالہ دیا جس میں انہی مقدمات کو موضوع بحث بنایا گیا ہے اور قادیانیوں کی مبینہ مظلومیت کی دہائی دی گئی ہے۔
یہ بات درست ہے کہ قادیانی گروہ نے کچھ عرصہ سے لندن کو اپنا ہیڈکوارٹر بنا کر دنیا بھر میں یہ پراپیگنڈا شروع کر رکھا ہے کہ پاکستان میں ان کے مذہبی حقوق پامال کیے جا رہے ہیں، ان شہزادی کی آزادیاں محدود کر دی گئی ہیں اور انہیں مذہب کی تبلیغ اور عبادت کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے۔ ان کے اس موقف کو مغربی ذرائع ابلاغ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسے اداروں کے ساتھ ساتھ امریکی حکومت کی بھی باقاعدہ سرپرستی حاصل ہے۔ اور امریکی وزارت خارجہ ہر سال پاکستان کے بارے میں اپنی سالانہ رپورٹ میں قادیانیوں کے اس موقف کی حمایت کرتی ہے جس کے ساتھ سرکاری طور پر حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ قادیانیوں کے خلاف کاروائیاں روک دی جائیں اور ان کے خلاف کیے گئے آئینی اور قانونی فیصلے واپس لیے جائیں۔ مثلاً مارچ ۱۹۹۶ء میں امریکی وزارت خارجہ نے پاکستان کے بارے میں جو رپورٹ جاری کی اس میں کہا گیا ہے کہ قادیانیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، انہیں مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت نہیں، قادیانیوں کو فریضۂ حج کی ادائیگی کے لیے پاسپورٹ نہیں دیا جاتا، ان پر توہین رسالت کے مقدمات بنا دیے جاتے ہیں اور توہینِ رسالت کے قانون کا ناجائز استعمال ہوتا ہے۔
اس کشمکش سے نکلنے کا ایک راستہ تو یہ ہے کہ قادیانیوں اور ان کے بارے میں امریکی وزارت خارجہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور مغربی ذرائع ابلاغ کےموقف کو آنکھیں بند کر کے درست تسلیم کر لیا جائے اور پھر تنگ نظر ملاؤں کو اس ساری صورتحال کا ذمہ دار ٹھہرا کر قادیانیوں اور ان کے سرپرستوں کو دلاسا دینے کی کوشش کی جائے۔ ہمارے ان محترم دانشوروں اصغر علی گھرال اور اردشیر کاؤس جی نے یہی راستہ اختیار کیا ہے مگر ہمیں اس سے شدید اختلاف ہے۔ کیونکہ اگر حق کی تلاش اور اس کی حمایت کا یہی معیار ہے کہ تو پھر سلمان رشدی، تسلیمہ نسرین اور مصر کے ڈاکٹر نصر ابو زید کا کوئی قصور نہیں ہے کہ ان کے بارے میں مغربی لابیوں کا موقف تسلیم نہ کیا جائے اور انہیں مظلوم قرار دے کر ان کی حمایت نہ کی جائے، اس لیے کہ معاملہ وہاں بھی آزادیٔ رائے اور شہری حقوق کا ہے اور مغرب اسی حوالہ سے ان کی سرپرستی کر رہا ہے۔ سلمان رشدی کا معاملہ تو سب کے علم میں ہے البتہ قارئین کی معلومات کے لیے تسلیمہ نسرین اور ڈاکٹر نصر ابو زید کے بارے میں کچھ عرض کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
تسلیمہ نسرین کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے اور وہ مصنفہ ہے، اس کی متعدد تصانیف اہل مذہب کے ہاں قابل اعتراض ہیں مثلاً ایک مقام پر اس خاتون نے لکھا ہے کہ ’’قرآن کریم میں عورتوں اور مردوں کے بارے میں جو ضابطے بیان کیے گئے ہیں (نعوذ باللہ) وہ فرسودہ ہوگئے ہیں اس لیے ان میں ترمیم کی ضرورت ہے تاکہ انہیں آج کی سوسائٹی کے لیے قابل قبول بنایا جا سکے۔‘‘ اس پر مذہبی حلقوں نے صدائے احتجاج بلند کی اور تسلیمہ نسرین کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا گیا جس پر یہ مقدمہ درج ہوگیا، اس کی سزا بنگلہ دیش کے قانون کے مطابق تین سال قید ہے۔ مغربی لابیوں کو آزادیٔ رائے کی ایک نئی ہیروئن مل گئی، یورپ ممالک کے وزرائے خارجہ کی سطح پر اس کے تحفظ پر غور کیا گیا اور باقاعدہ پلاننگ کے تحت ڈھاکہ میں ایک مغربی ملک کے سفارت خانے میں اسے سیاسی پناہ دلوا کر یورپ پہنچا دیا گیا جہاں اسے مکمل پروٹوکول اور تحفظ حاصل ہے۔
ڈاکٹر نصر ابو زید کا تعلق قاہرہ سے ہے، اس نے تسلیمہ نسرین سے بھی دو قدم آگے بڑھ کر یہ لکھ دیا کہ ’’پورا قرآن ہی (نعوذ باللہ) ایک اَن پڑھ بادیہ نشین کے خیالات کا مجموعہ ہے اس لیے نئی نسل کو اس خرافات سے جلد از جلد نجات حاصل کر لینی چاہیے‘‘۔ اس پر قاہرہ کے چند غیور وکلا نے اس کے خلاف مقدمہ درج کرایا اور ایک عدالت نے اسے مرتد قرار دے کر تنسیخ نکاح کی ڈگری جاری کر دی۔ یہ ڈاکٹر نصر ابو زید بھی آج کل یورپ میں بیٹھا ہے اور آزادیٔ رائے اور انسانی حقوق کے نام پر ناز برداری کا لطف اٹھا رہا ہے۔
ہم اصغر گھرال اور اردشیر کاؤس جی سے بصد احترام یہ عرض کریں گے کہ ان کے مضامین میں اس مسئلہ کا حقیقت پسندانہ جائزہ لینے کی بجائے مغرب کے موقف کی ترجمانی کی گئی ہے اور قادیانیوں کے بارے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل ہی کی سالانہ رپورٹ کو ایک الگ انداز سے پیش کیا گیا ہے۔ اگر ہماری اس بات پر کوئی شک ہو تو پاکستان کے بارے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور امریکی وزارت خارجہ کی گزشتہ دو سال کی رپورٹیں سامنے رکھ لی جائیں اور گھرال صاحب اور کاؤس جی کے مضامین کے ساتھ ان کا تقابل کر لیا جائے تو کسی قسم کا کوئی ابہام باقی نہیں رہ جائے گا۔ مگر ہمارے لیے اس مغربی موقف کو قبول کرنا مشکل ہے، اصول و نظریات کے حوالے سے بھی اور واقعات و حقائق کی بنیاد پر بھی۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس موقف کا ایک حد تک جائزہ لیا جائے تاکہ تنگ نظر ملا جو شور و غوغا کر رہا ہے اس کی وجہ سمجھ آسکے۔
اس سلسلہ میں پہلی گزارش یہ ہے کہ شہری آزادیوں اور انسانی حقوق کا جو تصور مغرب نے پیش کر رکھا ہے اور جسے اقوام متحدہ کے منشور اور جنیوا انسانی حقوق کمیشن کی قراردادوں کے زور پر ہم سے منوانے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہے کیونکہ وہ ہمارے دینی معتقدات، مذہبی احکام اور تہذیبی تسلسل کے منافی ہے:
- مغرب کے ہاں مذہب انفرادی اور اختیاری فعل ہے جبکہ ہمارے ہاں مذہب ریاست اور سوسائٹی کی بنیاد ہے اس لیے ہم مذہب کے بارے میں مغربی فلسفہ کی پیروی نہیں کر سکتے۔
- مغرب کے ہاں آزادیٔ رائے کا تصور یہ ہے کہ خدا، رسول اور مذہب سمیت ہر شخصیت اور ادارے پر تنقید کی جا سکتی ہے اور اس کا تمسخر اڑایا جا سکتا ہے مگر ہمارے ہاں اس کی اجازت نہیں ہے۔
- مغرب کے ہاں مرد اور عورت کے آزادانہ اختلاط اور باہمی رضامندی سے جنسی تعلقات پر کوئی قدغن نہیں ہے مگر ہمارے مذہبی قوانین اس کے روادار نہیں ہیں۔
- مغرب کے نزدیک مرد کا مرد کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنا حقوق کی فہرست میں شامل ہو چکا ہے مگر ہمارے ہاں یہ قابل نفرت اور قابل تعزیر جرم ہے اس لیے ہم مغرب کے انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے فلسفے کو قبول نہیں کر سکتے اور نہ ہی اسے انصاف اور آزادیوں کا کوئی معیار سمجھتے ہیں۔
دوسری گزارش یہ ہے کہ مغرب اس وقت ہمارے خلاف حالت جنگ میں ہے اور اس نے سوویت یونین کے بکھر جانے کے بعد اسلام اور ملت اسلامیہ کو اگلا ہدف قرار دے کر مسلم ممالک میں سیاسی مداخلت اور معاشی جکڑ بندیوں کے ساتھ ساتھ میڈیا اور لابنگ کے تمام تر وسائل و ذرائع اس جنگ میں ہمارے خلاف میدان میں جھونک دیے ہیں۔ یہ ایک تہذیبی جنگ اور ثقافتی یلغار ہے جس کا مقصد ہمیں سوسائٹی کی مذہبی بنیادوں سے محروم کر دینا ہے اور اس مقصد کے لیے اقلیتوں کے حقوق، عورتوں کی مظلومیت اور شہری آزادیوں کے نعروں کو بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کیفیت میں اگر کوئی شخص ہمیں مغرب کے موقف کو قبول کرنے اور اس پر غور کرنے کے لیے کہتا ہے تو بالکل ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے وہ مغرب کے آگے سپرانداز ہونے کا مشورہ دے رہا ہو۔ یہ درست ہے کہ ہم سائنس، ٹیکنالوجی اور معیشت میں مغرب سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں جس کی ذمہ داری ان لوگوں پر ہے جو ان شعبوں میں گزشتہ دو سو برس تک سرگرم رہے ہیں مگر اپنے مذہبی اعتقادات، دینی تعلیم، تہذیبی روایات اور آسمانی تعلیمات کے ساتھ جذباتی وابستگی میں ہم بحمد اللہ تعالیٰ مغرب سے بہت آگے ہیں اور ’’تنگ نظر ملا‘‘ اس محاذ پر فتح و کامرانی کا پرچم سنبھالے آج بھی ڈٹا ہوا ہے۔ اس لیے ہم اپنے معاشرتی ڈھانچے، قانونی نظام اور مذہبی اقدار و روایات کے بارے میں مغرب کا کوئی مشورہ اور دباؤ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
تیسری گزارش یہ ہے کہ قادیانیوں کے حوالہ سے مغرب کا یہ موقف اصولی طور پر غلط ہونے کے علاوہ واقعاتی لحاظ سے بھی بے بنیاد ہے اور مکروفریب کی ایک گمراہ کن داستان سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا کیونکہ قادیانیوں کے ساتھ ان کے اقلیتی حقوق کے حوالہ سے ہمارا کوئی تنازعہ ہی نہیں ہے۔ ہم نے کبھی ان کے اقلیتی حقوق سے انکار نہیں کیا اور نہ آج کر رہے ہیں۔ اقلیتوں کے حقوق کا اسلام سے زیادہ علمبردار کون ہے؟ پاکستان میں دوسری غیر مسلم اقلیتیں بھی آباد ہیں مگر ہمارا کسی کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ عیسائی، ہندو، پارسی، بابی، بہائی سب یہاں رہتے ہیں مگر قادیانی گروہ اور مسیحی کمیونٹی کے بعض سیکولر لیڈروں کے سوا ہمارا کسی سے تنازعہ نہیں ہے۔ بلکہ اس موقع پر اس تاریخی حقیقت کا حوالہ دینا بھی شاید نامناسب نہ ہو کہ قیام پاکستان کے وقت ریاست قلات سے ہندوؤں نے نقل وطن کر کے بھارت جانا چاہا تو ریاست کے نواب میر احمد یار خان مرحوم اور ان کے ’’تنگ نظر ملا‘‘ وزیر دینی امور علامہ شمس الحقؒ افغانی نے ہندو کمیونٹی کے ذمہ دار افراد کو بلا کر یقین دلایا کہ ریاست میں شرعی قوانین نافذ ہیں جو ان کے حقوق کا مکمل تحفظ کرتے ہیں اس لیے انہیں نقل مکانی کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور وہ اطمینان کے ساتھ اپنے وطن میں رہیں۔ چنانچہ اس یقین دہانی پر ہندوؤں کی بڑی تعداد قلات میں ہی رہ گئی جو آج بھی وہاں موجود ہے اور آزادی کے ساتھ تجارت اور دیگر امور میں شریک ہے۔ ان کے علاوہ سکھ بھی ملک میں موجود ہیں اور ہر سال بھارت سے بھی آتے ہیں اور اپنی تقریبات آزادی کے ساتھ کرتے ہیں، کسی ’’ملا‘‘ نے کبھی ان سے تعرض نہیں کیا۔البتہ قادیانی گروہ کا معاملہ اس سے مختلف ہے اور کچھ عرصہ سے مسیحی اقلیت کے چند راہنماؤں کا طزعمل بھی قابل اعتراض ہے جس پر ’’تنگ نظر ملا‘‘ ضرور روک ٹوک کرتا ہے اور یہ روک ٹوک بلاوجہ نہیں ہے۔
اس لیے ہم اردشیر کاؤس جی اور اصغر علی گھرال سے گزارش کریں گے کہ وہ اس روک ٹوک پر چیں بہ جبیں ہونے کی بجائے اس کے اسباب کا جائزہ لیں اور غریب ملا سے بھی پوچھ لیں کہ اسے قادیانی گروہ اور مسیحی اقلیت کے چند راہنماؤں سے کیا شکایات ہیں؟ اگر یہ شکایات درست نہیں ہیں تو بلاشبہ آپ کو حق حاصل ہے کہ ملا کو کوسیں اور اس پر طعن و تشنیع کے تیر جی بھر کے برسائیں۔ لیکن اگر یہ شکایات جائز ہیں تو پھر امریکی وزارت خارجہ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کے کہنے پر آنکھیں بند کر کے ایمان لانے کی بجائے حقائق کا ساتھ دیں اور کسی ملامت کی پروا کیے بغیر انصاف کی حمایت کریں۔
ان گزارشات کے بعد ان شکایات کا ذکر بھی مناسب معلوم ہوتا ہے جو اس ملک کے ’’تنگ نظر ملا‘‘ کو قادیانیوں اور چند مسیحی راہنماؤں سے ہیں تاکہ قارئین تصویر کے اس رخ سے بھی آگاہ ہوں اور انہیں اس معاملہ میں رائے قائم کرنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے۔
قادیانیوں کے بارے میں صورتحال یہ ہے کہ انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی تجویز ’’ملا‘‘ کی نہیں بلکہ مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کی تھی جسے ملا نے اپنے روایتی موقف سے بہت پیچھے ہٹ کر قبول کر لیا اور پاکستان میں قادیانی گروہ کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوانے کے لیے تحریک شروع کی۔ اور یہ قادیانی مسلم تنازعہ کا منطقی تقاضا تھا کہ جب قادیانی نئے نبی اور نئی وحی کی بنیاد پر اپنا مذہب مسلمانوں سے الگ کر چکے ہیں اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو اپنا ہم مذہب تسلیم نہیں کرتے، جس کا اظہار پنجاب کی تقسیم کے موقع پر گورداسپور کی تقسیم کے حوالہ سے ریڈ کلف کمیشن کے سامنے قادیانیوں کا موقف الگ پیش کرنے کی صورت میں اور اس کے بعد قائد اعظم کے جنازے کے موقع پر موجود ہوتے ہوئے بھی وزیرخارجہ سر ظفر اللہ خان کے قائد اعظم مرحوم کے جنازہ میں شریک نہ ہونے کی صورت میں عملاً ہو چکا ہے، اور ۱۹۷۴ء میں پارلیمنٹ کے فلور پر قادیانی سربراہ مرزا ناصر احمد نے واضح اعلان کیا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی نہ ماننے والے دنیا بھر کے مسلمانوں کو اپنا ہم مذہب تسلیم نہیں کرتے، تو قادیانیوں کی جداگانہ مذہبی حیثیت کے دستوری تعین کے سوا اور کون سا راستہ باقی رہ گیا تھا؟
قادیانیوں کو اسی بنیاد پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا اور جب وہ خود اپنے اختیار کردہ عقائد اور موقف کی بنیاد پر غیر مسلم اقلیت قرار پا گئے ہیں تو اسلام کا نام اور مسلمانوں کے مخصوص شعائر و علامات پر ان کا کوئی استحقاق باقی نہیں ہے۔ انہیں اپنے لیے الگ نام اختیار کرنا ہوگا اور اپنے مذہبی شعائر و علامات مسلمانوں سے الگ بنانے ہوں گے۔ ورنہ اشتباہ قائم رہے گا جس سے مسلمانوں کا مذہبی تشخص اور امتیاز مجروح ہوتا ہے اور اپنے تشخص اور امتیاز کا تحفظ دنیا کے ہر فرد اور گروہ کا مسلمہ حق ہے جس سے کوئی ذی شعور شخص انکار نہیں کر سکتا۔ اس لیے اگر قادیانیوں کو اسلام کا نام اور مسلمانوں کی مخصوص مذہبی علامات مثلاً کلمہ طیبہ، مسجد، اذان وغیرہ استعمال کرنے سے قانوناً روک دیا گیا ہے تو اس سے آخر انصاف کا کون سا تقاضا پامال ہوا ہے؟ اور ہم اس معاملہ میں قادیانیوں کی حمایت کرنے والے دوستوں سے پوچھنا چاہیں گے کہ کیا اپنے مذہبی تشخص اور امتیاز کے تحفظ اور اسے اشتباہ سے بچانے کا مسلمانوں کو بھی کوئی حق حاصل ہے یا نہیں؟ اور اگر وہ اسے حق تسلیم کرتے ہیں تو متنازعہ امتناعِ قادیانیت آرڈیننس سے ہٹ کر وہ کوئی فارمولا طے کر دیں جس سے مسلمانوں اور قادیانیوں کا مذہبی نام الگ الگ ہو جائے اور مذہبی اصطلاحات و علامات کے حوالہ سے ان کے درمیان اشتباہ عملاً ختم ہو جائے۔ ہم انہیں یقین دلاتے ہیں کہ ’’تنگ نظر ملا‘‘ ان کے تجویز کردہ فارمولے کو بھی اسی طرح تسلیم کر لے گا جس طرح اس نے اپنے روایتی موقف سے پیچھے ہٹ کر علامہ اقبالؒ کی اس تجویز پر قناعت کر لی تھی کہ قادیانیوں کو صرف غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا جائے۔
ہمیں قادیانیوں سے شکایت یہ ہے کہ وہ نہ تو ملتِ اسلامیہ کے اجتماعی عقائد قبول کر کے مسلمانوں کے دائرہ میں واپس آرہے ہیں اور نہ ہی مسلمانوں سے الگ حیثیت قبول کر رہے ہیں۔ یہ بے جا ضد اور ہٹ دھرمی ہے جس کا حوصلہ انہیں صرف اس لیے ہو رہا ہے کہ امریکہ ان کی حمایت کر رہا ہے اور مغربی لابیاں اور پریس ان کی پشت پر ہیں۔ اور یہ بات بھی یقیناً کاؤس جی اور اصغر علی گھرال کے علم میں ہو گی کہ قادیانیوں نے اسی بنیاد پر مردم شماری اور ووٹ شماری کا بائیکاٹ کر رکھا ہے اور جداگانہ انتخابات سے لاتعلقی اختیار کی ہوئی ہے کہ اس طرح وہ مسلمانوں سے الگ اقلیتوں کے خانوں میں درج ہوں گے اور اسی حوالہ سے حال ہی میں قادیانی امت کے سربراہ مرزا طاہر احمد نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کو کھلم کھلا ’’ردی کاغذ کا ٹکڑا‘‘ قرار دے کر اس کے خلاف نفرت کا اظہار کیا ہے۔
مغرب کی بات چھوڑیے کہ اسے تو پاکستان کی اسلامی حیثیت پر اعتراض ہے، اس لیے اس کے نزدیک پاکستان کے دستور اور قانون کی ہر وہ شق غلط ہے جس کا اسلام کے کسی بھی پہلو سے کوئی تعلق ہے۔ اور وہ ملک کے ہر اس فرد اور گروہ کی حمایت کرے گا جو پاکستان کو سیکولر بنانے کے لیے کسی بھی درجے میں کار آمد ہو۔ اگر آپ مغرب کے اعتراضات کی بات کرتے ہیں اور اقوام متحدہ کے منشور، جنیوا انسانی حقوق کمیشن کی قراردادوں، ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹوں اور امریکی وزارت خارجہ کے مطالبات کے حوالہ سے پاکستان کو بدنامی سے بچانا چاہتے ہیں تو ان ’’بدنامیوں‘‘ کی فہرست بہت لمبی ہے:
- انہیں پاکستان کے نام کے ساتھ ’’اسلامی‘‘ کے لفظ اور دستور میں اسلام کو ریاست کی بنیاد قرار دینے والی شقوں پر اعتراض ہے۔
- وہ توہین مذہب اور توہین رسالت کو سرے سے کوئی جرم نہیں سمجھتے اور اس پر سزا دینا ان کے نزدیک انسانی حقوق کے منافی ہے۔
- زنا ان کے ہاں کوئی معیوب کام نہیں ہے اور اس جرم پر اسلامی سزا ان کے نزدیک وحشیانہ اور غیر منصفانہ کہلاتی ہے۔
- معاشرتی جرائم کے بارے میں قرآن کریم کی مقرر کردہ سزائیں ان مغربی اداروں کے نزدیک جسمانی تشدد اور وحشت و بربریت کے زمرے میں شمار ہوتی ہیں۔
- نکاح، طلاق، وراثت اور خاندانی تعلقات کے حوالہ سے قرآن کریم کے بیان کردہ قوانین اور ضابطے ان کے نزدیک غیر منصفانہ ہیں اور خود ان کے مقرر کردہ بین الاقوامی معیار کے مطابق نہیں ہیں۔
- انہیں سرے سے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے پر ہی اعتراض ہے اور وہ اسے بھی انسانی حقوق کے منافی کہتے ہیں۔
پاکستان کے بارے میں اقوام متحدہ، انسانی حقوق کمیشن، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور امریکی وزارتِ خارجہ کی گزشتہ پانچ سال کی رپورٹوں کو سامنے رکھ لیں یہ سب مطالبات ریکارڈ پر ہیں اور ان سب امور کے حوالہ سے پاکستان بین الاقوامی سطح پر ’’بدنام‘‘ ہو رہا ہے۔ اس لیے پاکستان کو بدنامی سے بچانے کے خواہش مند دوستوں بالخصوص اصغر علی گھرال سے یہ گزارش ہے کہ وہ حوصلہ کر کے پوری بات کریں، آدھی بات کیوں کرتے ہیں کہ ملک کو ایک حوالہ سے تو بدنامی سے بچانے کی کوشش کی جائے اور باقی ’’بدنامیوں‘‘ پر چپ سادھ لی جائے۔ باقی رہی بات ’’تنگ نظر ملا‘‘ کی تو کسی طعن و ملامت کی پروا کیے بغیر ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک مغرب کے تمام مطالبات غلط ہیں اور اسلام اور مغرب کے درمیان دن بدن تیز ہونے والی تہذیبی جنگ کے ہتھیار ہیں جنہیں مغرب کی حکومتیں، ادارے اور لابیاں ہمارے خلاف صرف اس مقصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں کہ مسلمان اپنی اعتقادی اور تہذیبی بنیادوں سے محروم ہو جائیں تاکہ مغرب اس ثقافتی یلغار میں انہیں آسانی کے ساتھ بلڈوز کر سکے۔ لیکن مغرب اس حقیقت کا ادراک نہیں کر پا رہا کہ اسلام اور عیسائیت میں فرق ہے۔ اسلام زندہ، متحرک اور عملی مذہب ہے اور اسلام کی نمائندگی کرنے والا ’’تنگ نظر ملا‘‘ اپنی تمام تر کمزوریوں، کوتاہیوں اور خامیوں کے باوجود اسلام اور اسلام کے اجتماعی کردار کے ساتھ لازوال وفاداری کا تعلق رکھتا ہے، اس لیے اسے یورپ کے عیسائی پادری کی طرح مذہب کے معاشرتی کردار سے محروم کر کے ’’کارنر‘‘ کرنے کی خواہش مغرب کی خام خیالی ہے جو ان شاء اللہ العزیز کبھی پوری نہیں ہو سکے گی۔
ہمیں پاکستان کی مسیحی برادری کے چند مذہبی راہنماؤں سے یہی شکایت ہے کہ وہ مذہب کی نہیں بلکہ ’’لامذہبیت‘‘ کی نمائندگی کر رہے ہیں، وہ مذہبی اقدار کو فروغ دینے اور بائبل کے احکام کو سوسائٹی میں رواج دینے کی بجائے سیکولر لابیوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ اور ان کی بیشتر تنظیمیں این جی اوز میں شامل ہیں جو مغرب کی سیکولر لابیوں کی شہ پر اور بین الاقوامی اداروں کی رقوم کے ساتھ پاکستان میں فکری انتشار پیدا کرنے اور مذہبی قدروں کو کمزور کرنے کے لیے مسلسل سرگرم عمل ہیں۔ ورنہ وہ اگر انسانی حقوق کمیشن کی قراردادوں کی بجائے اپنی سوسائتی کے لیے بائبل کے احکام و قوانین کی بات کریں تو ہم انہیں یقین دلاتے ہیں کہ ’’تنگ نظر ملا‘‘ کی حمایت ان کے ساتھ ہوگی اور ہم مسیحی کمیونٹی کے لیے بائبل کے قوانین کو اسی طرح سپورٹ کریں گے جس طرح مسلم معاشرہ کے لیے قرآن و سنت کے قوانین کی بات کرتے ہیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ بات مذہب کی ہو لامذہبیت کی نہ ہو، اور اس کی بنیاد بائبل پر ہو جنیوا کے سیکولر انسانی حقوق کمیشن کی قراردادوں پر نہ ہو۔
آخر میں یہ گزارش ہے کہ قادیانی گروہ اقلیتی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے اپنا مذہبی نام اور مذہبی اصطلاحات و علامات مسلمانوں سے الگ کر لے اور پاکستان اور اس کے دستور کے خلاف بے بنیاد مہم بند کر دے تو ہمیں بحیثیت اقلیت ان کے وجود اور سرگرمیوں پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن مسلمانوں سے الگ ہوتے ہوئے اسلام کا نام اور علامات استعمال کرنے کی انہیں کبھی اجازت نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی امریکہ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل یہ سراسر ناجائز مطالبہ ہم سے کسی قیمت پر منوا سکتے ہیں۔