امت مسلمہ کو درپیش چیلنجز

   
۱۹ اپریل ۲۰۰۹ء

(مسجد زکریا، ڈیوزبری، برطانیہ میں ظہر کی نماز کے بعد خطاب)

بعد الحمد الصلٰوۃ۔ اللہ تعالٰی کا بے حساب شکر ہے کہ اس نے ہم سب کو اپنے گھر میں نماز ادا کرنے کے بعد دین کی کچھ باتیں کہنے سننے کے لیے مل بیٹھنے کی توفیق عطا فرمائی، اللہ رب العزت کچھ با مقصد باتیں عرض کرنے کی توفیق دیں اور ان پر عمل کی توفیق سے بھی نوازیں، آمین یا رب العالمین۔ میرے میزبان دوست جناب سلیمان قاضی نے فرمائش کی ہے کہ ’’ملت اسلامیہ کو درپیش چیلنجز‘‘ کے عنوان پر کچھ معروضات پیش کی جائیں، یہ ایک وسیع اور متنوع موضوع ہے جس کے مختلف پہلوؤں پر ایک مجلس میں بات کرنا مشکل ہے، البتہ اس کے چند بنیادی پہلوؤں پر کچھ گزارشات پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔ امت مسلمہ کو کیا مسائل درپیش ہیں اور کن چیلنجز کا سامنا ہے؟ اسے دینی نقطۂ نظر سے چند تدریجی مراحل میں تقسیم کرنا چاہوں گا:

  1. پہلا مرحلہ ایک فرد کا ہے کہ ایک مسلمان فرد کے طور پر اسلام ہم سے کیا تقاضہ کرتا ہے؟ یہ بہت اہم مرحلہ ہے اس لیے کہ سوسائٹی اور اجتماعیت کی بنیاد فرد پر ہوتی ہے، افراد مل کر اجتماعیت اور سوسائٹی کی شکل اختیار کرتے ہیں، جس طرح ایک مشین بہت سے پرزوں پر مشتمل ہوتی ہے، اگر ہر پرزہ اپنی جگہ درست اور صحیح کام کر رہا ہو تو مشین بھی صحیح کام کرے گی، اور اگر کوئی پرزہ درست نہیں ہے اور اس میں خرابی ہے تو مشین بھی صحیح کام نہیں کرے گی۔ کسی مشین کے صحیح طور پر کام کرنے کے لیے سب سے پہلے یہ ضروری ہوتا ہے کہ اس کے تمام پرزے صحیح ہوں، ان میں کوئی خرابی نہ ہو۔ اور اس کے بعد یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ ان کا آپس کا جوڑ صحیح ہو اور نیٹ ورک درست ہو، کیونکہ اگر پرزے صحیح ہیں لیکن باہمی جوڑ صحیح نہیں ہے تو بھی مشین صحیح کام نہیں کر سکے گی۔ اسی طرح سوسائٹی کا معاملہ ہے کہ اگر فرد صحیح ہے اور بحیثیت مسلمان صحیح کام کر رہا ہے، اور پھر افراد کا باہمی جوڑ صحیح ہے اور ایک دوسرے کے ساتھ ان کے معاملات درست ہیں تو سوسائٹی کا نظام صحیح ہوگا، ورنہ بگڑ جائے گا۔

    اسی لیے حضرات صوفیاء کرام رحمہم اللہ تعالٰی کی توجہ سب سے زیادہ فرد پر ہوتی ہے، وہ فرد اور نفس کی اصلاح کو اپنا ہدف بناتے ہیں اور اسی پر محنت کرتے ہیں، اس لیے کہ اگر کوئی مسلمان بطور مسلمان صحیح ہے تو وہ سوسائٹی کا مفید اور کار آمد پرزہ بنے گا، لیکن اگر وہ صحیح مسلمان نہیں ہے تو سوسائٹی میں بھی خرابی پیدا کرے گا۔ چنانچہ سب سے پہلا مرحلہ یہ ہے کہ ہم سب صحیح مسلمان بننے کی کوشش کریں، ایک مسلمان کے طور پر اللہ تعالٰی اور ان کے آخری رسولؐ کے احکام و فرامین کے مطابق زندگی بسر کرنے کی کوشش کریں، اور ایمان و عقائد، فرائض و عبادات، حلال و حرام، باہمی حقوق و معاملات اور آداب و اخلاق کے حوالہ سے قرآن و سنت کی تعلیمات کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔ یہ ہمارے لیے پہلا مرحلہ اور دائرہ ہے جس پر سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

  2. اس کے بعد دوسرا دائرہ خاندان اور فیملی کا ہے اور اسلام ہم سے تقاضہ کرتا ہے کہ ہمارا گھر کا ماحول دینی ہو، اس میں قرآن و سنت کے احکام پر عمل ہو رہا ہو، گھر کے اندر اللہ تعالٰی اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام و فرامین کی عملداری ہو۔ چنانچہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ اپنے گھر والوں کو بھی نماز کی تلقین کرو اور اس پر صبر و حوصلہ سے کام لو، یعنی ایک آدمی کا خود اپنے آپ کو نماز کا پابند بنا لینا کافی نہیں ہے بلکہ گھر میں نماز کا ماحول پیدا کرنا اور گھر والوں کو نماز و روزہ کا پابند کرنا بھی اس کی ذمہ داری ہے۔ اس آیت کریمہ میں ایک جملہ اور کہا گیا ہے کہ اس پر صبر کرو۔ اس کا ایک معنٰی بعض مفسرین کرامؒ یہ بیان کرتے ہیں کہ گھر والوں کو نماز کا کہنا مشکل کام ہوتا ہے اس لیے اس پر صبر و استقامت کا مظاہرہ بھی کرنا ہو گا۔ یہ بات ویسے بھی سمجھ میں آتی ہے کہ ساری دنیا کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا آسان ہے لیکن یہ کام اپنے گھر میں کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اسی طرح ساری دنیا سے لڑنا آسان ہے مگر اپنے آپ سے لڑنا اور اپنے نفس کے خلاف جنگ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ حضرات صوفیاء کرامؒ فرماتے ہیں کہ اسی وجہ سے جناب نبی اکرمؐ کے ایک ارشاد گرامی میں نفس کے خلاف جہاد کو ’’جہادِ اکبر‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔

    بہرحال فرد اور نفس کی اصلاح کے بعد دوسرا دائرہ فیملی اور خاندان کا ہے اور آج ہمیں درپیش چیلنجز اور تحدّیات میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمارے گھروں کا ماحول دینی نہیں رہا اور اسلامی احکام و قوانین کی عملداری ہمارے گھروں کے اندر کم ہوتی جا رہی ہے۔ جناب نبی اکرمؐ نے ایک ارشاد گرامی میں فرمایا ہے کہ گھروں میں بھی نماز پڑھا کرو اور اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ، یعنی جس گھر میں نماز کا ماحول نہیں ہے وہ حضورؐ کے ارشاد گرامی کے مطابق آباد گھر نہیں ہے بلکہ قبرستان ہے۔ اس طرح ایک حدیث میں آنحضرتؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ جس گھر میں قرآن کریم کی تلاوت نہیں ہوتی وہ ویران گھر کی طرح ہے۔ اس لیے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے گھروں کو ویرانی سے نکالیں اور انہیں آباد کرنے کی کوشش کریں جو نماز کا ماحول بنانے، قرآن کریم کی تلاوت اور احکام اسلامی پر عمل کرنے سے ہو گا۔

  3. تیسرے مرحلہ میں ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ایک مسلم سوسائٹی اور مسلم کمیونٹی میں ہم مسلمانوں کا آپس میں جوڑ کیسا ہے؟ اور ہم ایک دوسرے کے حقوق و آداب میں اسلامی احکام کی پیروی کس حد تک کر رہے ہیں؟ اسلام نے باہمی حقوق و آداب اور معاشرتی اخلاقیات کی جتنی تفصیل بیان کی ہے اور کسی نظام میں اس کی مثال نہیں ملتی لیکن بد قسمتی ہے کہ ہماری باہمی معاشرت ان حقوق و آداب اور اخلاقیات سے خالی ہوتی جا رہی ہے جن کی قرآن کریم نے اور جناب نبی اکرمؐ نے تلقین فرمائی ہے۔ اس کی صرف ایک مثال سے اندازہ کر لیجئے کہ دیانت اور امانت کے حوالہ سے ہماری معاشرتی صورتحال کیا ہے۔ آج دنیا کی اقوام میں دیانت اور کرپشن کے حوالہ سے ہمارا کیا تعارف ہے؟ پرانے ادوار میں دین اور دیانت کو مترادف سمجھا جاتا تھا، اور دیانت کے لیے بھی دین ہی کا لفظ بولا جاتا تھا۔ لیکن آج دیانت و امانت کا تعلق ہماری دینداری کے ساتھ قائم نہیں رہا، ایک شخص جو دینداری میں معروف ہے اور اسے عام طور پر مذہبی آدمی سمجھا جاتا ہے لیکن دیانت کے باب میں وہ ناگفتہ بہ حد تک دین سے دور ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں دیانت اس کو سمجھا جاتا ہے کہ کہیں داؤ نہ لگ سکے۔ اور کہیں داؤ لگ گیا ہے تو کوئی بھی معاف کرنے کو تیار نہیں ہوتا، افراد ضرور مستثنیٰ ہوں گے اور ہیں، لیکن مجموعی طور پر ہماری حالت یہ ہے کہ ہم نے داؤ نہ لگ سکنے کا نام دیانت رکھ لیا ہے۔ ہماری اس حالت نے ہمیں دین سے تو دور کر ہی رکھا ہے، ہم دنیا سے بھی اس کی وجہ سے دور ہیں کہ بین الاقوامی معاملات میں، تجارت میں، لین دین میں اور معاہدات میں ہمارا اعتماد باقی نہیں رہا۔ حالانکہ ہم سب اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اگر ہم کرپشن سے نجات حاصل کر لیں اور دیانت و امانت کے خوگر ہو جائیں تو ہمارے پچاس فیصد مسائل خودبخود حل ہو جائیں گے اور ہم اقوام عالم کی برادری میں اپنا مقام حاصل کر لیں گے۔ اس لیے ہمیں درپیش آج کی تحدیات اور چیلنجز میں سے ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ ہم اپنے داخلی معاشرہ میں بددیانتی اور کرپشن سے کیسے نجات حاصل کر سکتے ہیں؟ اور دیانت و امانت کے اسلامی احکام ہماری معاشرتی زندگی میں کس حد تک اثر انداز ہوتے ہیں؟
  4. یہ مرحلہ تو دنیا کے کسی بھی ملک میں موجود مسلم کمیونٹی اور سوسائٹی کے لیے ہے، لیکن اس سے اگلا ایک مرحلہ یہ بھی ہے کہ مختلف ممالک میں آباد مسلم سوسائٹیوں کا آپس میں جوڑ اور معاملہ کیسا ہے؟ انڈونیشیا میں مسلمان رہتے ہیں، مراکش میں رہتے ہیں، پاکستان میں رہتے ہیں، ترکی میں رہتے ہیں اور بیسیوں ممالک میں مسلمان اکثریت میں رہتے ہیں۔ ان کا ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ مسلم کمیونٹیز اور مسلم سوسائٹیز میں اسلامی احکام و قوانین کی عملداری کس درجہ میں ہے؟ وہاں قرآن و سنت کے احکام نافذ ہیں یا نہیں۔ پھر ان احکام و قوانین کا ایک درجہ یہ ہے کہ حکومتی سطح پر اسلامی قوانین کے نفاذ کا اہتمام ہو، ان ممالک میں نظام شرعی نافذ ہو۔ اور دوسرا درجہ یہ ہے کہ جن احکام و قوانین کا حکومت و اقتدار سے تعلق نہیں ہے ان کا سوسائٹی میں فروغ ہو، رواج ہو اور مسلم سوسائٹیوں میں اسلامی احکام و قوانین اور معاشرتی اخلاقیات پر عمل کا اہتمام پایا جاتا ہو۔

    یہ صورتحال بھی ہمارے سامنے ہے لیکن میں اس سے ہٹ کر یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ مسلم ممالک کے مسلمانوں کا ایک دوسرے کے ساتھ تعلق کیسا ہے؟ کیا دنیا بھر کے مسلم ممالک ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں؟ ایک دوسرے کی مشکلات کو اپنی مشکلات سمجھتے ہیں؟ اور مصیبت کے وقت ایک دوسرے کے کام آتے ہیں؟ یہ بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے کہ ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ مسلمان دنیا میں آباد ہیں لیکن مختلف مقامات پر الگ الگ پٹ رہے ہیں، مار کھا رہے ہیں اور مصائب و آلام کا شکار ہیں، لیکن ملت کی سطح پر کوئی اجتماعی آواز نہیں ہے اور ایک دوسرے کے کام آنے کا کوئی نظم موجود نہیں ہے۔ اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمیں ملی سطح پر درپیش چیلنجز میں سے یہ بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔

  5. اس سے آگے بڑھیں تو ایک اور دائرہ اور مرحلہ سامنے آتا ہے وہ یہ کہ ہم اس کرۂ ارضی میں کم و بیش سات ارب انسانوں کے درمیان رہتے ہیں اور ان سات ارب کے لگ بھگ انسانوں کے درمیان فاصلے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس گلوبل سوسائٹی میں ہم مسلمانوں کا رول کیا ہے؟ اسی تناظر میں آپ حضرات بھی خود کو دیکھ لیں جو غیر مسلم اکثریت کے ممالک میں رہتے ہیں اور خاص طور پر مغربی ملکوں میں رہائش پذیر ہیں، میں اس حوالہ سے غیر مسلموں کو تین درجوں میں تقسیم کر کے ان کے بارے میں مسلمانوں کے طرز عمل کا ایک جائزہ پیش کرنا چاہوں گا:
    • غیر مسلموں کی ایک سطح وہ ہے جو تعداد میں اگرچہ بہت کم ہے لیکن وسائل پر کنٹرول کی وجہ سے بہت طاقتور ہے، جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مختلف محاذوں پر حالت جنگ میں ہے۔ سیاست، معیشت، اقتصادیات، عسکریت، سائنس، ٹیکنالوجی، اور تہذیب و ثقافت، ہر محاذ پر مسلمانوں کو مغلوب کرنے اور مسلسل مغلوب رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اور بہت سے شعبوں میں مسلمانوں کو مغلوب کر لینے کے بعد اب تہذیب و ثقافت اور عقیدہ و نظریہ کے محاذ پر مسلمانوں کے خلاف برسرِ جنگ ہے۔ اس کی پوری کوشش یہ ہے کہ مسلمانوں کی تہذیب اور ثقافت و عقیدہ کو مکمل شکست دے کر انہیں مغربی فلسفہ و ثقافت کے سانچے میں ڈھال لیا جائے، اس کے لیے وہ میڈیا، لابنگ اور بریفنگ کے جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہے۔ سوال یہ ہے کہ غیر مسلموں کے اس طبقہ کا سامنا کرنے اور ان کی مسلط کردہ جنگ کا مقابلہ کرنے کے لیے ہم کیا کر رہے ہیں؟ ان افراد اور اداروں کی خدمات سے انکار نہیں ہے جو مختلف مقامات پر اس سلسلہ میں انفرادی طور پر مصروف عمل ہیں لیکن اجتماعی طور پر عالمی سطح پر اور ملی دائرے میں اس چیلنج کا ہم کس طرح سامنا کر رہے ہیں؟ یہ ہمارے لیے چیلنج ہے اور لمحۂ فکریہ ہے اور خاص طور پر علمی اداروں اور دینی مراکز کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس صورتحال کو سمجھیں اور اسلام اور مسلمانوں کے عقیدہ و ثقافت کو اس خوفناک یلغار سے بچانے کے لیے کردار ادا کریں۔
    • غیر مسلموں کا دوسرا دائرہ ان لوگوں کا ہے جو اسلام سے کسی حد تک متعارف تو ہیں لیکن کنفیوژن کا شکار ہیں، وہ اسلام کے دشمن نہیں ہیں، اسلام کو سمجھنا چاہتے ہیں اور اس کے قریب آ سکتے ہیں لیکن شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔ جیسا کہ برطانیہ کے ایک دانشور جم مارشل نے، جو پارلیمنٹ کے ممبر بھی رہے ہیں، ایک دفعہ ایک جلسہ میں کہا تھا کہ ہمارے سامنے اسلام کی تین الگ الگ تصویریں ہیں: (۱) ایک تصویر وہ ہے جو ہمارے بڑوں نے ہمارے ذہنوں میں بٹھا رکھی ہے اور نسل در نسل ہمارے ذہنوں میں منتقل ہوتی آرہی ہے، (۲) دوسری تصویر وہ ہے جب ہم تاریخ میں اسلام اور تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو اسلام کی ایک بالکل مختلف تصویر ہمارے ذہنوں میں بنتی ہے، (۳) لیکن جب ہم اپنے درمیان رہنے والے مسلمانوں کو دیکھتے ہیں تو ان دونوں تصویروں سے مختلف ایک الگ تصویر بن جاتی ہے۔ اسلام کی ان تین الگ الگ تصویروں نے ہمارے ذہنوں میں کنفیوژن قائم کر رکھا ہے، اگر مسلمان اس کنفیوژن کو دور کرنے کی کوئی صورت نکال سکیں تو مغرب میں مقیم بہت سے لوگ اسلام کو سمجھنے کے لیے خواہش رکھتے ہیں اور اس کے لیے تیار ہیں۔ جم مارشل کی یہ بات بالکل درست ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ غیر مسلموں کی ایک بڑی اکثریت اس دائرہ میں ہے جو اسلام کے نام سے متعارف ہے، اس کی کچھ تعلیمات سے بھی واقف ہے اور مسلمانوں کو دیکھ رہی ہے، لیکن اسلامی احکام و قوانین کے بارے میں شکوک و شبہات سے دوچار ہے اور کنفیوژن کا شکار ہے۔ ان کے اس کنفیوژن کو دور کرنے کے لیے آسمان سے فرشتے نہیں اتریں گے، یہ کام ہمیں کو کرنا ہو گا لیکن ہمارے ہاں اس قسم کا کوئی اہتمام موجود نہیں ہے اور میں اسے بھی مسلمانوں کو درپیش چیلنجز میں سے ایک چیلنج سمجھتا ہوں،
    • دنیا میں آباد غیر مسلموں کا تیسرا دائرہ ان لوگوں کا ہے جن تک اسلام کا نام اور اسلام کی دعوت نہیں پہنچی۔ ایک بڑی تعداد ایسے غیر مسلموں کی دنیا میں موجود ہے جو اسلام کے نام سے بھی متعارف نہیں اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے بارے میں کوئی واقفیت نہیں رکھتی، ان لوگوں تک اسلام کی دعوت پہنچانا، اور انہیں اللہ تعالٰی کی ذات، نبی کریمؐ کی شخصیت و نبوت، اور اسلام کی بنیادی تعلیمات سے واقف کرانا ہماری ذمہ داری ہے۔ بد قسمتی سے اس حوالہ سے بھی دنیا میں اجتماعی طور پر کوئی نظم و اہتمام موجود نہیں ہے، افراد اور اداروں کی سطح پر کام ہو رہا ہے لیکن ملی طور پر اور اجتماعی سطح پر اس حوالہ سے کوئی فکر نہیں پائی جاتی۔

یہاں تک تو میں نے بات کی ہے ان تحدّیات اور چیلنجز کی جو ہمیں آج کی انسانی سوسائٹی میں دینی حوالہ سے مختلف سطحوں پر درپیش ہیں۔ اور اب آخر میں اختصار کے ساتھ یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ان سے نمٹنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟

  1. میرے خیال میں ہماری ذمہ داری کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ ہم صورتحال سے باخبر ہوں، مطالعہ کریں، معلومات حاصل کریں، اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ ہم نے بے خبری کو مسائل کا حل سمجھ رکھا ہے جو درست نہیں ہے۔ بے خبری کسی مسئلہ کا حل نہیں ہوتی، شتر مرغ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ صحرا میں طوفان کو دیکھ کر اپنا سر ریت میں چھپا لیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں طوفان سے بچ جاؤں گا، ہم بھی حالات سے آنکھیں بند کر کے ان کی سنگینی سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو غلط طریقہ ہے۔ اس لیے ہمیں سب سے پہلے باخبر رہنا ہوگا، اس صورتحال کو نظروں کے سامنے رکھنا ہو گا اور حالات کو پوری طرح سمجھنا ہو گا۔
  2. اس کے بعد دوسرا مرحلہ ہے کہ مختلف سطحوں، دائروں اور شعبوں کے بارے میں معلومات اور واقفیت حاصل کرنے کے بعد ہم جس شعبہ میں اور جس سطح پر کچھ کر سکتے ہوں اس کے لیے ہمیں تیار ہونا چاہیے اور کچھ نہ کچھ ضرور کرتے رہنا چاہیے۔ اسلام اور مسلمانوں کو درپیش چیلنجز اور تحدیات سے بے خبر رہنا جرم ہے، جبکہ لاتعلق رہنا تو اس سے بھی بڑا جرم ہے، ایمان کے تقاضوں کے منافی ہے اور دینی ذمہ داریوں سے فرار کے مترادف ہے۔ آپ وہی کچھ کریں جو کر سکتے ہیں اور اتنا ہی کریں جتنا کر سکتے ہیں، لیکن کچھ نہ کچھ ضرور کریں، لاتعلق نہ رہیں، بے خبر نہ رہیں اور اپنی ذات کے خول میں بند نہ ہوں۔ اس لیے ہم میں سے ہر شخص کو حالات اور مسائل و مشکلات کا پوری طرح ادراک کرتے ہوئے اپنی محنت کا شعبہ اور میدان منتخب کرنا چاہیے، اور اپنے ذوق اور حالات کے دائرے میں جو کچھ کسی بھی سطح پر ہم کر سکتے ہیں اس سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔

اللہ تعالٰی ہم سب کو اس کی توفیق سے نوازیں اور قبولیت و ثمرات سے بھی بہرہ ور فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter