حضرت مولانا سمیع الحق کی المناک شہادت کی اچانک خبر دل و دماغ پر بجلی بن کر گری، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ میں نے جمعہ کے روز عشاء کی نماز گرجاکھ گوجرانوالہ کی جامع مسجد عثمانیہ میں ادا کی جس کے بعد مجھے وہاں اعلان کے مطابق درس دینا تھا اور پھر جمعیۃ اہل السنۃ والجماعۃ گوجرانوالہ کے راہنما مولانا شوکت نصیر کے طلب کردہ علاقائی اجلاس میں شریک ہونا تھا۔ فرض نماز سے فارغ ہوتے ہی ایک دوست نے موبائل فون کے حوالہ سے یہ خبر پڑھائی جس نے دل و دماغ کو ماؤف کر دیا اور ذہن ایک دم سناٹے میں آگیا، درس نہ دے سکا اس لیے صدمہ کی حالت میں چند باتیں کہہ کر دعا کرا دی۔ صبح جامع نصرۃ العلوم میں ترجمہ قرآن کریم کی اجتماعی کلاس کے بعد طلبہ کے سامنے حضرت مولانا سمیع الحقؒ کی کچھ دینی و ملی خدمات کا تذکرہ کیا اور جامعہ میں اس صدمہ و غم میں تعطیل کا اعلان کر دیا۔ اب قلم ہاتھ میں لیا ہے تو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا لکھوں اور بات کہاں سے شروع کروں۔ مولانا سمیع الحقؒ کی ضخیم کتاب ’’مشاہیر کے خطوط‘‘ کے حوالہ سے لکھا گیا ایک پرانا مضمون بار دگر قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں، صورتحال واضح ہونے اور حواس پوری طرح بحال ہونے کے بعد ہی تفصیلی گزارشات پیش کر سکوں گا، ان شاء اللہ تعالٰی۔
حضرت مولانا سمیع الحق شہیدؒ
۴ نومبر ۲۰۱۸ء