(مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں سورۃ التوبہ کی آیات نمبر ۷۵ تا ۷۷ کا درس۔)
بعد الحمد والصلٰوۃ۔
’’اور بعضے ان میں سے وہ ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر وہ ہمیں اپنے فضل سے نوازے تو ہم ضرور خیرات کیا کریں اور نیک لوگوں میں سے ہو جائیں۔ پھر جب اللہ نے اپنے فضل سے نوازا تو اس میں بخل کرنے لگے اور منہ موڑ کر پھر بیٹھے۔ تو نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے ان کے دلوں میں نفاق پیدا کر دیا اس دن تک جب اللہ سے ملیں گے اس لیے کہ انہوں نے جو اللہ سے وعدہ کیا تھا اسے پورا نہ کیا اور اس لیے کہ جھوٹ بولا کرتے تھے۔‘‘ (سورہ التوبہ ۔ آیات ۷۵ و ۷۷)
غزوۂ تبوک کے موقع پر منافقین نے جہاد میں شرکت سے گریز کرنے اور پیچھے رہ جانے کے ساتھ ساتھ جو مختلف حرکتیں کی تھیں سورہ التوبہ میں انہیں ایک ایک کر کے بیان کیا گیا ہے، اور ان آیات میں اسی تسلسل میں ایک اہم بات بیان فرمائی گئی ہے۔ بعض مفسرین کرامؒ نے ان آیات کے ضمن میں ثعلبہ بن حاطب نامی ایک شخص کا واقعہ بیان کیا ہے اور محققین نے اس کے ساتھ یہ وضاحت فرمائی ہے کہ ثعلبہ بن حاطبؓ نامی معروف بزرگ بدری صحابی ہیں اور بدری صحابہؓ میں سے کسی بزرگ کے ساتھ نفاق کی نسبت درست نہیں ہے اس لیے یہ ثعلبہ وہ بدری صحابی نہیں بلکہ کوئی اور شخص ہے جسے منافقین میں شمار کیا جاتا ہے۔
حافظ ابن کثیرؒ نے واقعہ بیان کیا ہے کہ ثعلبہ نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ میرے لیے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کریں کہ مجھے بہت سا مال ملے تاکہ میں اس میں سے صدقہ خیرات کر سکوں اور فراغت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف ہو جاؤں۔ جناب نبی اکرمؐ نے اسے سمجھایا کہ اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے مال پر قناعت کرو اور زیادہ مال کی تمنا نہ کرو، اس لیے کہ زیادہ مال بسا اوقات فتنہ بھی بن جایا کرتا ہے۔ لیکن ثعلبہ کا اصرار جاری رہا تو آپؐ نے اس کے لیے کثرت مال کی دعا کر دی جو اللہ تعالیٰ نے قبول فرما لی، اس کا بھیڑ بکریوں کا کاروبار تھا، چند ہی دنوں میں مدینہ منورہ کی گلیوں میں ہر طرف اس کی بھیڑیں نظر آنے لگیں، حتیٰ کہ مدینہ منورہ کی گلیاں تنگ پڑ گئیں اور اس نے کچھ فاصلے پر جگہ لے کر اپنا کاروبار وہاں منتقل کر لیا۔ بھیڑوں بکریوں میں مسلسل مصروفیت کی وجہ سے نماز کے لیے مسجد میں حاضری متاثر ہونے لگی، حتٰی کہ عام نمازوں کے علاوہ جمعہ کی حاضری بھی کم ہو گئی اور کاروبار میں مگن ہونے کی وجہ سے مسجد نبویؐ کی حاضری بالآخر بالکل ہی منقطع ہو کر رہ گئی۔
کچھ عرصہ کے بعد جناب نبی اکرمؐ کی طرف سے مقرر کردہ عاملین نے لوگوں سے سالانہ زکوٰۃ وصول کرنا شروع کی تو ایک نمائندہ ثعلبہ کے پاس بھی گیا اور اسے آنحضرتؐ کا پیغام دیا کہ وہ اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرے۔ جس پر اس کا فوری تبصرہ یہ تھا کہ یہ جزیہ تو کافروں پر لگایا جاتا ہے، یہ کہہ کر اس نے زکوٰۃ دینے سے گریز کیا۔ نبی کریمؐ کو رپورٹ ملی تو آپؐ کی زبان مبارک سے تین مرتبہ یہ جملہ نکلا ’’ویح ثعلبۃ‘‘ ثعلبہ کے لیے بربادی ہے۔ بعد میں ثعلبہ کو اپنی حرکت کا احساس ہوا تو حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور معذرت کر کے زکوٰۃ ادا کرنے کی پیشکش کی مگر آپؐ نے معذرت اور زکوٰۃ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ نبی کریمؐ کے وصال کے بعد ثعلبہ اپنی زکوٰۃ لے کر حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور زکوٰۃ پیش کی، خلیفۂ اولؓ نے بھی یہ کہہ کر اس کی زکوٰۃ لینے سے انکار فرما دیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ زکوٰۃ نہیں لی تو میں کیسے وصول کر سکتا ہوں؟ حضرت صدیق اکبرؓ کی وفات کے بعد ثعلبہ نے حضرت عمر فاروقؓ کی خدمت میں حاضری دی مگر وہاں سے بھی وہی جواب ملا۔ ان کے بعد حضرت عثمانؓ نے بھی اس کی زکوٰۃ وصول نہیں کی اور ان کے دورِ خلافت میں ثعلبہ کا اسی حالت میں انتقال ہو گیا۔ اس واقعہ کی روایت پر بعض محدثین نے کلام بھی کیا ہے لیکن اس کے باوجود بہت سے مفسرین کرامؒ نے ان آیات کے ضمن میں اس واقعہ کا ذکر کیا ہے۔
مگر میں اس واقعہ سے قطع نظر ان آیات کے عمومی مفہوم کے حوالہ سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ سے عہد کر کے اور اس وعدہ کے ساتھ دعا کر کے مال حاصل کیا کہ وہ اس مال کے ذریعے نیکی کا راستہ اختیار کریں گے اور صدقہ خیرات کرتے رہیں گے لیکن بعد میں بخل سے کام لیا اور اپنے وعدہ کو پورا کرنے سے اعراض کر کے منہ پھیر لیا، ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس سزا کا اعلان کیا ہے کہ ان کے دلوں میں نفاق پیدا ہو گا جو مرتے دم تک رہے گا۔ اس نفاق کے دو سبب اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائے ہیں، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو عہد کیا تھا وہ انہوں نے توڑ دیا، اور دوسرا سبب یہ ذکر کیا ہے کہ وہ جھوٹ بولتے رہے۔
یہ جرم اور اس کی یہ سزا اللہ تعالیٰ نے مدینہ منورہ کے ان منافقین کے حوالہ سے بیان فرمائی ہے جو تبوک کے غزوہ میں جھوٹے بہانے کر کے پیچھے رہ گئے تھے، اور نہ صرف یہ کہ خود نہیں گئے تھے بلکہ جہاد میں مال خرچ کرنے میں بھی انہوں نے بخل سے کام لیا تھا۔ چنانچہ آیات کریمہ کا عمومی مفہوم سامنے رکھ کر میں آج کے حالات کے بارے میں توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ کل ہم نے پاکستان کا یوم آزادی منایا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ساتھ بھی کچھ اس طرح کا معاملہ ہی ہو گیا ہے۔ ہم نے قومی طور پر اللہ تعالیٰ سے عہد کیا تھا کہ ہندوؤں سے الگ آزاد ریاست مل جائے تو ہم اللہ تعالیٰ کا قانون اور نظام نافذ کریں گے اور شریعت مطہرہ کے مطابق ملک و حکومت کا نظام چلائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں الگ ملک دے دیا اور وسائل بھی عطا فرمائے مگر ہم نے اس عہد کی پاسداری نہیں کی اور قرآن و سنت کا نظام نافذ کرنے سے مسلسل گریز کر رہے ہیں۔ پھر ہم اس حوالہ سے اور دیگر بہت سے حوالوں سے بھی مسلسل جھوٹ بولتے جا رہے ہیں۔
ہم قومی سیاست میں جھوٹے وعدے کرتے ہیں، توڑ دیتے ہیں اور لگاتار جھوٹ بولتے چلے جاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہم قومی سطح پر منافقت اور کرپشن کا شکار ہو چکے ہیں۔ بددیانتی، دھوکہ، فریب کاری، جھوٹ اور دھوکہ بازی ہمارا معاشرتی اور قومی مزاج بن چکا ہے اور اس صورتحال میں اصلاح کا کوئی ظاہری راستہ دکھائی نہیں دے رہا۔ آج کرپشن، منافقت اور بددیانتی کا ہر طرف دور دورہ ہے اور نیچے سے اوپر تک ہم اس کا شکار ہیں۔ اس کا اعتراف ہر شخص کر رہا ہے مگر اصلاح کے لیے کوئی عملی طور پر تیار نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہمہ جہتی کرپشن اور منافقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا ہے اور ہماری اس اجتماعی بدعہدی کا نتیجہ ہے جو ہم نے پاکستان کے قیام اور اس کے بعد اسلامی نظام کے نفاذ کے حوالہ سے کی ہے اور اس سے نجات کا ایک ہی راستہ ہے کہ ہم اس اجتماعی اور قومی بدعہدی سے توبہ کریں اور جھوٹ بولنا ترک کر کے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیا ہوا وعدہ عملی طور پر پورا کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اجتماعی توبہ اور استغفار کے ساتھ اصلاح احوال کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔