(سندھ یونیورسٹی آف جام شورو میں فیکلٹی آف اسلامک اسٹڈیز کے زیر اہتمام منعقدہ ایک سمپوزیم سے آن لائن خطاب)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ محترم جناب حافظ منیر احمد خان، ڈین فیکلٹی آف اسلامک اسٹڈیز، سندھ یونیورسٹی، جام شورو اور ان کی ٹیم کا شکرگزار ہوں کہ آج کے اس اہم ترین سمپوزیم، جو پاکستانی معاشرے میں غصہ و عدمِ برداشت اور اس کے علاج و حل کے موضوع پر منعقد ہو رہا ہے، اس میں مجھے بھی شرکت کا موقع عنایت فرمایا۔ میرا وہاں حاضری کا پروگرام تھا لیکن جنگی صورتحال کی وجہ سے نہیں ہو سکی، اس لیے آج میں آن لائن آپ حضرات کے ساتھ مخاطب ہوں اور دو چار گزارشات عرض کروں گا۔
ایک بات تو یہ کہی جا رہی ہے، صرف پاکستانی معاشرے کے بارے میں نہیں بلکہ دنیا بھر کے مسلم معاشرے کے بارے میں، کہ ان میں غصہ اور عدمِ برداشت ہے اور دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کا حل کیا ہے، اس کی طرف جانے سے پہلے میں چند باتیں اصولی طور پر عرض کروں گا۔
غصہ و انتقام اور اپنے جذبات کے اظہار کی اصولی حیثیت کیا ہے؟ قرآن پاک نے مختلف مقامات پر اس کا ذکر کیا ہے۔ یہ بھی فرمایا ہے کہ ’’واعفوا واصفحوا‘‘ (البقرہ ۱۰۹) صبر کرو اور نظرانداز کرو۔ یہ بھی فرمایا ہے کہ اپنے موقع محل کے مطابق تم جواب دے سکتے ہو۔ اور یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر جواب دینے کی ضرورت پیش آئے تو برابر کی سطح پر ہو، اس میں زیادتی اور نا انصافی نہ ہو۔
مثال کے طور پر اللہ رب العزت نے ایک جگہ مسلمانوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے یہ فرمایا ’’والذین اذا اصابھم البغی ھم ینتصرون‘‘ (الشوریٰ ۳۹) یعنی مسلم کا مزاج یہ ہے کہ وہ ظلم برداشت نہیں کرتا، اس کا بدلہ لیتا ہے اور اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ فرمایا کہ ’’جزاؤ سیۃ سیۃ مثلھا‘‘ اگر کسی بات کا جواب دینا ہے تو برابری پر ہو۔ اس کے بعد پھر فرمایا ’’فمن عفا و اصلح‘‘ (الشوریٰ ۴۰) جو معاف کر دے اور نظر انداز کر دے تو یہ زیادہ بہتر بات ہے۔ یہ قرآن پاک نے مسلمان کے اوصاف میں سے ایک وصف بیان کیا ہے۔
ایک جگہ یہ فرمایا ’’لایحب اللہ الجھر بالسوء من القول الا من ظلم‘‘ (النساء ۱۴۸) اونچی آواز سے اور احتجاج کے لہجے میں سخت بات کرنا اللہ کو پسند نہیں ہے، ہاں مظلوم اگر ایسی بات کرتا ہے تو اس کا حق ہے کہ وہ اپنی بات جائز حد تک کہے، مظلوم کی بات اس دائرے میں نہیں آتی۔
پھر ایک مقام پر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جب مکی زندگی میں مخالفین کا پراپیگنڈا اور ان کی باتیں بہت زیادہ زور پکڑ گئیں تو اللہ پاک نے آپؐ کو یہ کہہ کر حوصلہ دیا کہ ’’واصبر علیٰ ما یقولون‘‘ ان کی باتوں پر آپ ٹینشن نہ لیں، ان کی باتوں کو موضوع نہ بنائیں، ان پر صبر کریں، ’’واہجرہم ہجراً جمیلاً‘‘ (المزمل ۱۰) ان سے ٹکراؤ نہ اختیار کریں، علیحدہ رہیں، لیکن باوقار طریقے سے اپنا راستہ طے کریں۔
اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں یہ ارشاد فرمایا ’’لتبلون فی اموالکم وانفسکم‘‘ مسلمانوں سے کہا کہ تمہیں مال و جان کے حوالے سے آزمائش میں ڈالا جائے گا۔ ’’ولتسمعن من الذین اوتوا الکتاب من قبلکم ومن الذین اشرکوا اذًی کثیراً‘‘ اور اہلِ کتاب کی طرف سے بھی اور مشرکین کی طرف سے بھی آپ کو بہت اذیت کی باتیں سننی پڑیں گی۔ اور آج تک سن رہے ہیں ہم۔ ’’ان تصبروا وتتقوا فان ذٰلک من عزم الامور‘‘ (اٰل عمران ۱۸۶) اگر صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو عزیمت کا راستہ یہی ہے۔ جبکہ رخصت اور اجازت کا راستہ وہ ہے جس کا پہلے ذکر ہوا ہےکہ مظلوم کو اپنی مظلومیت کے اظہار میں سخت بات کرنے کا حق حاصل ہے بشرطیکہ وہ زیادتی نہ کرے۔ اور بہتر یہ ہے کہ وہ صبر کرے، اللہ پاک فرماتے ہیں ’’واستعینوا بالصبر والصلوٰۃ‘‘ (البقرۃ ۴۶)۔
یہ ساری باتیں قرآن پاک نے مختلف مقامات پر کہی ہیں۔ ایک اصولی بات یہ ہے کہ زیادتی کو اگر برداشت کیا جائے گا تو زیادتی کا راستہ نہیں روکا جا سکتا۔ دوسری بات یہ کہ زیادتی جتنی ہوئی ہے اس حد تک بدلہ لینے کی اجازت ہے۔ تیسری بات یہ کہ صبر کرو گے تو یہ عزیمت کا راستہ ہے۔ یہ تو اس کی اصولی حیثیت ہے لیکن ایک واقعاتی بات بھی ہے۔ ہم مسلمانوں پر سب سے زیادہ الزام یہ ہوتا ہے کہ یہ مذہب کے معاملات میں جذباتی ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر قرآن پاک کی حرمت پر، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور ختمِ نبوت پر، اور دین کے شعائر پر یہ جذباتی ہو جاتے ہیں۔ اس کا تاریخی بیک گراؤنڈ یہ ہے کہ بہرحال مسلمان کی کمٹمنٹ قائم ہے، اللہ کے ساتھ بھی، اللہ کے رسول کے ساتھ بھی، اور قرآن پاک کے ساتھ بھی۔ میں اسے اس طرح تعبیر کرتا ہوں کہ یہ جو قرآن پاک اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں مسلمان کے جذبات ہیں، یہ اس کی کمٹمنٹ کا منطقی نتیجہ ہے۔
مغرب کا مسئلہ یہ ہے کہ مغرب نے کمٹمنٹ ترک کر دی ہے۔ مغرب نے رسمی طور پر مذہب کا نام رکھا ہوا ہے لیکن مذہب ، انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات اور کتاب کے ساتھ ان کا عملی تعلق نہیں ہے۔ جو کمٹمنٹ ہوتی ہے وہ نہیں ہے، اس لیے وہ طیش میں بھی نہیں آتے۔ وہ مذہب کے عملی اور معاشرتی کردار سے دستبردار ہو چکے ہیں۔ جبکہ مسلمان ابھی تک قائم ہیں الحمد للہ، حالانکہ مسلمان کو معاشرتی طور پر مذہب، اللہ پاک کی ذات، اللہ کے رسول، قرآن پاک اور شریعت کے احکام سے دستبردار کرانے کے لیے تین سو سال سے محنت ہو رہی ہے۔ مسلمان بے عمل ضرور ہے، بد عمل بھی ہو گا، لیکن کمٹمنٹ پر قائم ہے۔ میں اس کی تین مثالیں دیا کرتا ہوں۔
دنیا کے کسی کونے میں آپ چلے جائیں اور کسی مسلمان کے سامنے قرآن پاک کے بارے میں کوئی ایسی بات کریں، اگرچہ وہ قرآن پاک نہیں پڑھا ہوا لیکن وہ قرآن پاک کی توہین برداشت نہیں کرے گا، اس کو کمٹمنٹ کہتے ہیں۔ اور کوئی شخص کسی مسلمان کے سامنے یہ کہہ دے کہ قرآن پاک نے فلاں بات جو کہی ہے وہ خدانخواستہ صحیح نہیں ہے، یہ جملہ بھی کوئی مسلمان برداشت نہیں کرے گا، دنیا میں کہیں کا بھی مسلمان ہو۔
اسی طرح جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے بارے میں دنیا کے کسی خطے کا کوئی مسلمان اہانت کا جملہ برداشت نہیں کرے گا۔ اور کسی مسلمان کے سامنے کوئی یہ کہے کہ تمہارے پیغمبر نے یہ بات کہی ہے اور صحیح نہیں کہی، یہ جملہ بھی کوئی مسلمان برداشت نہیں کرے گا۔ یہ کمٹمنٹ ہے، محبت ہے، عقیدت ہے۔ اصول یہ ہے کہ جتنی عقیدت اور محبت ہوتی ہے، غصہ بھی اس کے حساب سے ہی آتا ہے۔ جب اس عقیدت و محبت کو مجروح کیا جاتا ہے اور اس کمٹمنٹ کو چیلنج کیا جاتا ہے تو غصے میں آنا فطری بات ہے۔
ایک دفعہ کسی صاحب نے کہا کہ غصہ بہت آتا ہے۔ میں نے کہا کہ یار، غصہ ضرورت سے زیادہ آنا بھی بیماری ہے، اور کسی بھی بات پر غصہ نہ آنا بھی بیماری ہے۔ غصہ اور اپنے جذبات کا اظہار انسان کی فطری ضرورت ہے۔ جس طرح بے وقت، بے جگہ اور ضرورت سے زیادہ غصہ آنا نفسیاتی بیماری ہے، اسی طرح آنا کسی بھی بات پر غصہ نہ آنا بھی نفسیاتی بیماری ہے اور یہ انسان کے مزاج اور فطرت کے خلاف ہے۔
آج ہم مسلمانوں کے غصے میں جو اضافہ ہو رہا ہے، یہ دراصل ری ایکشن ہے۔ گذشتہ تین صدیوں سے مسلمانوں کے ساتھ، قرآن پاک کے ساتھ، سنتِ رسول کے ساتھ، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کے ساتھ، اسلامی عقائد کے ساتھ ، اور اسلامی تہذیب اور کلچر کے ساتھ جو طرزِ عمل اختیار کیا گیا ہے، اس پر ظاہری بات ہے کہ غصہ آئے گا۔ اس کا حل یہ نہیں ہے کہ مسلمانوں کو کوس کوس کر کہو کہ تمہیں غصہ بہت آتا ہے۔ نہیں، جذباتی تو ہر قوم ہے، کون سی قوم جذباتی نہیں ہے۔ کیا امریکی جذباتی نہیں ہیں؟ کیا یورپین جذباتی نہیں ہیں؟ البتہ جذبات میں آنے کے اسباب مختلف ہیں۔ مسلمان عقیدے کے نام سے آتا ہے اور مغرب والے کلچر کے نام سے غصے آتے ہیں۔ جہاں ان کی سولائزیشن کو خطرہ ہو تو کیا وہ برداشت کرتے ہیں؟ غصے میں تو سارے آتے ہیں، ایسٹ والے بھی آتے ہیں، ویسٹ والے بھی آتے ہیں، افریقی بھی آتے ہیں، ایشیائی بھی آتے ہیں۔ البتہ اسباب مختلف ہیں، کسی کو سولائزیشن کے نام پر غصہ آتا ہے، کسی کو حقوقِ انسانی پہ غصہ آتا ہے، اور کسی کو حقوق اللہ پر غصہ آتا ہے۔
چنانچہ غصہ فطرت ہے اور اس حوالے سے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ حضورؐ نے بدلہ بھی لیا ہے لیکن اکثر برداشت کیا ہے۔ ایک ہے جواز اور حق، اس کی اجازت اپنی جگہ ہے۔ اور ایک ہے برداشت اور اس کے ثمرات۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس حوصلے اور برداشت سے کافر قوموں کے ساتھ معاملہ کیا ہے اور ان کے اعتراضات اور اشکالات کا سامنا کیا ہے۔ آپؐ نے تحمل کے ساتھ اپنی امت کی رہنمائی بھی کی ہے اور ان کو بھی سبق دیا ہے کہ اسلام برداشت کا اور صبر کا دین ہے۔ لیکن برداشت اور صبر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مسلمان اپنی عقیدت و محبت اور اپنے تعلق و کمٹمنٹ سے دستبردار ہو جائے۔
چنانچہ ان پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ہم جذبات کا اظہار کرتے ہیں، لیکن پہلی بات میں نے یہ کہی ہے کہ جذبات کا جائز حد تک اور بروقت اظہار نیچرل ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہماری جذباتیت اگر ضرورت سے زیادہ نظر آتی ہے تو اس کے اسباب ہیں، یہ ان زیادتیوں کا ردعمل ہے جو مسلسل کی جا رہی ہیں اور ان میں کمی کا کوئی رجحان نظر نہیں آ رہا۔ اور عمل کو کنٹرول کیے بغیر ردعمل کو کنٹرول کرنا آج تک کسی کے بس میں نہیں ہوا اور نہ آئندہ ہو گا۔ اگر مغربی دنیا برداشت کے دائرے میں لانا چاہتی ہے تو زیادتیوں کی تلافی کرے اور مسلمانوں کے خلاف جو کچھ کیا جا رہا ہے اور جو کچھ کہا جا رہا ہے اس پر نظرثانی کی جائے۔ اگر غصہ نہ دلایا جائے تو غصہ نہیں آئے گا، غصہ دلایا جائے گا تو غصہ آئے گا، غصہ فطرت ہے، اس کی حدود قرآن پاک اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہیں۔ قرآن و سنت کی ان حدود اور اخلاقیات کو بیان کرنے اور لوگوں کے سامنے واضح کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مسلمان اپنے جذبات کا اظہار شریعت اور اخلاقیات کے دائرے میں کریں، اللھم صل علیٰ سیدنا محمدن النبی الامی وعلیٰ آلہ واصحابہ و بارک وسلم۔