گزشتہ چودہ پندرہ برس سے یہ معمول سا بن گیا ہے کہ سال کے ایک دو ماہ برطانیہ میں گزرتے ہیں۔ پہلے گرمیوں کے موسم میں آتا تھا، تین ماہ کے لگ بھگ رہتا تھا اور جولائی اگست میں مختلف دینی جماعتوں کی طرف سے منعقد ہونے والی کانفرنسوں کے علاوہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی سالانہ بین الاقوامی ختم نبوت کانفرنس میں بھی شرکت ہو جاتی تھی۔ اب مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں تدریسی مصروفیات کے باعث موسم اور دورانیہ دونوں میں فرق پڑ گیا ہے۔ اس سال رجب اور شعبان کی تعطیلات میں برطانیہ آیا ہوں جو موسم سرما میں ہیں اور تین چار ماہ کی بجائے بمشکل ڈیڑھ دو ماہ کا عرصہ گزار سکوں گا کیونکہ رمضان المبارک سے قبل گوجرانوالہ واپس پہنچنا ضروری ہے، ان شاء اللہ۔
برطانیہ حاضری ہوتی ہے تو ایک ویک اینڈ گلاسگو میں گزرتا ہے جو اسکاٹ لینڈ کا صدر مقام ہے، اور اب تو اسکاٹ لینڈ کی الگ پارلیمنٹ بھی بن گئی ہے جو ایک محدود دائرہ میں اس خطہ کے لیے قانون سازی کا کام کرتی ہے اور یہاں کے باشندے بہت خوش نظر آتے ہیں کہ کم و بیش تین سو سال کے بعد ان کی الگ اسمبلی قائم ہوئی ہے۔
گلاسگو میں یورپ کی سب سے بڑی اور خوبصورت مسجد ہے جسے دیکھنے کے لیے دور دور سے سیاح آتے ہیں اور مسلمانوں میں وہ اب گلاسگو کا تعارف اور پہچان بن گئی ہے۔ اس مسجد کی تعمیر میں پاکستانی مسلمانوں نے بڑا حصہ لیا ہے جو یہاں کثیر تعداد میں آباد ہیں، بالخصوص مولانا مفتی مقبول احمد نے اس میں سرگرم کردار ادا کیا جو ساہیوال سے تعلق رکھتے ہیں، ایک عرصہ سے برطانیہ میں قیام پذیر ہیں اور گزشتہ سال تک مرکزی جامع مسجد میں خطابت کے فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں، اب وہ فالج کی وجہ سے معذور ہو گئے ہیں اور ان کی جگہ ایک نوجوان عالم دین مولانا حبیب الرحمان نے خطابت و امامت کے فرائض سنبھال لیے ہیں۔ مولانا حبیب الرحمان جہلم سے تعلق رکھنے والے ہمارے بزرگ دوست مولانا عبد الرؤف صاحب کے فرزند ہیں، ان کی تعلیم و تربیت اور نشوونما برطانیہ میں ہوئی ہے، دارالعلوم مری کے فاضل ہیں، خوبصورت انگلش بولتے ہیں، ملت اسلامیہ کے اجتماعی مسائل پر نظر رکھتے ہیں اور اچھے تعلیمی ذوق کے حامل ہیں۔ جبکہ جناب محمد طفیل شاہین کی سربراہی میں جمعیۃ اتحاد المسلمین جامع مسجد کے انتظامات کو چلانے کے ساتھ ساتھ گلاسگو کے مسلمانوں کے دینی و سماجی مسائل کے حل کے لیے بھی کوشاں رہتی ہے، ان کے رفقاء میں مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے حاجی محمد صادق اور پیر محل سے تعلق رکھنے والے جناب صابر علی ان معاملات میں مسلسل متحرک رہتے ہیں۔
میں گزشتہ تین روز سے گلاسگو میں ہوں اور مرکزی جامع مسجد اور مسجد نور میں اجتماعات سے خطاب کرنے کے علاوہ اسلامک اکیڈمی میں حاضری اور مرکزی جامع مسجد میں فلسطین کے مسئلہ پر منعقد ہونے والی ایک میٹنگ میں شرکت کا موقع بھی ملا ہے۔ یہ میٹنگ مسجد کے وسیع لائبریری ہال میں ہوئی جس کی صدارت جناب محمد طفیل شاہین نے کی اور اس میں مختلف مساجد کے ائمہ کے علاوہ جمعیۃ اتحاد المسلمین کے عہدہ دار اور متعدد عرب اور فلسطینی راہنما شریک ہوئے۔ اجلاس کی کاروائی انگلش میں تھی اس لیے اس میں عملی طور پر حصہ لینا میرے بس میں نہیں تھا البتہ ثواب کی نیت سے بیٹھا رہا اور الفاظ کی بجائے چہروں کے تاثرات اور جذبات سے ہی کاروائی کا انداز اور رخ سمجھنے کی کوشش کرتا رہا۔
اس اجلاس میں مسئلہ فلسطین پر رائے عامہ سے رابطہ قائم کرنے، مغربی میڈیا کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کے ازالہ، نیز فلسطینی بھائیوں کی سیاسی، اخلاقی اور مالی امداد کے لیے ’’القدس کمیٹی‘‘ قائم کی گئی اور عملی پروگرام وضع کیا گیا۔ اجلاس میں شریک ہو کر ثواب کے ساتھ ساتھ مجھے یہ دیکھ کر خوشی حاصل ہوئی کہ برطانیہ میں مساجد و مراکز اور مسلمانوں کی تنظیمیں امت اسلامیہ کے اجتماعی مسائل میں پہلے سے زیادہ سنجیدگی کے ساتھ دلچسپی لینے لگی ہیں اور نوجوان علماء میں اس سلسلہ میں متحرک کردار ادا کرنے کا ذوق بیدار ہو رہا ہے۔ دوسرے نمبر پر میرے لیے خوشی کی بات یہ ہوئی کہ مسلمانوں میں دینی تعلیم کا ذوق بھی بڑھ رہا ہے اور مساجد و مراکز اس سلسلہ میں رفتہ رفتہ اچھے پروگرام منظم کر رہے ہیں۔
گلاسگو کی مرکزی جامع مسجد میں ’’عالم کورس،‘ کے نام سے ایک پارٹ ٹائم تعلیمی سلسلہ شروع کیا گیا ہے جس کے تحت نوجوانوں کو شام کے اوقات میں قرآن کریم، حدیث، فقہ اور عربی زبان کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ اسی طرح پولک شیلڈ کے علاقہ میں کیئر روڈ پر ’’اسلامک اکیڈمی آف اسکاٹ لینڈ‘‘ کے نام سے ایک تعلیمی ادارہ مولانا قاری محمد ابراہیم کی سربراہی میں کئی سالوں سے کام کر رہا ہے۔ مولانا موصوف کا تعلق انڈیا سے ہے، فاضل اور باذوق نوجوان ہیں، دارالعلوم بری کے فاضل ہیں اور تعلیمی کام کی اچھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کی قائم کردہ اس اکیڈمی میں دو سو سے زائد بچے اور بچیاں قرآن کریم کے علاوہ عربی زبان، حدیث نبویؐ، فقہ اور دیگر دینی علوم کی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور اپنے تعلیمی معیار اور کارکردگی کے لحاظ سے یہ ادارہ گلاسگو کے مسلمانوں کی توجہ حاصل کرتا جا رہا ہے۔ گزشتہ شب قاری محمد ابراہیم کی دعوت پر اس اکیڈمی میں حاضری اور ایک نشست میں کچھ معروضات پیش کرنے کا موقع ملا۔ اس گفتگو میں تعلیم و تربیت کی اہمیت پر دور نبویؐ کا ایک سبق آموز واقعہ سنایا جو قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
طبرانیؒ کی روایت ہے اور محدث الاستاذ ابو غدہؒ نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے، حضرت عبد الرحمان بن ابزیؓ روایت کرتے ہیں کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار جمعۃ المبارک کے خطبہ کے دوران ارشاد فرمایا کہ ان لوگوں کا کیا حال ہو گا جو خود تو علم رکھتے ہیں مگر اپنے گردوپیش کے لوگوں کو تعلیم نہیں دیتے اور خود تو دین کی سمجھ رکھتے ہیں مگر گردوپیش کے افراد کو دین نہیں سمجھاتے۔ پھر فرمایا کہ ان لوگوں کا کیا حال ہو گا جو دین کا علم اور سمجھ نہیں رکھتے مگر اپنے درمیان رہنے والے اہل علم اور اہل دانش سے دین کا علم اور فہم حاصل نہیں کرتے۔ پھر فرمایا کہ یہ دونوں طبقے اپنے طرزعمل سے باز آجائیں ورنہ میں اس دنیا میں ان کے لیے سزا مقرر کروں گا۔
اس پر مدینہ منورہ میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں کہ جناب نبی اکرمؐ نے اس ارشاد مقدس میں کن لوگوں کی طرف اشارہ کیا ہے؟ بعض لوگوں نے کہا کہ یہ اشارہ اشعریوں کے خاندان کی طرف ہے جو قاریوں اور عالموں کا خاندان ہے اور ان کے اردگرد اعرابی اور دیہاتی لوگ رہتے ہیں جو علم اور دین کی سمجھ نہیں رکھتے۔ حضرت ابو موسٰی اشعریؓ کا خاندان یمن سے آ کر مدینہ منورہ میں آباد ہو گیا تھا اور اس خاندان کے زیادہ تر لوگ پڑھے لکھے اور علماء تھے۔ یہ بات جب عام ہوئی تو اشعریوں کا ایک وفد جناب رسول اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور دریافت کیا کہ کیا آپؐ نے یہ بات ہمارے بارے میں فرمائی ہے؟ آنحضرتؐ نے ہاں میں جواب دیا اور اپنی بات پھر دہرا دی، جس پر اشعریوں نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ! کیا ان لوگوں کی جہالت اور بے علمی کی سزا ہمیں ملے گی؟ آپؐ نے فرمایا کہ ہاں۔
اس کے بعد اشعریوں نے نبی کریمؐ سے اپنی اس کوتاہی کی تلافی کے لیے ایک سال کی مہلت مانگی، آپؐ نے یہ درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں ایک سال کی مہلت دی اور ہدایت فرمائی کہ تمہیں اللہ تعالٰی نے جو علم اور دین کی سمجھ دی ہے اس میں اپنے بھائیوں، پڑوسیوں اور اردگرد کے لوگوں کو بھی شریک کرو اور انہیں دین علم اور دانش کی تعلیم دو۔ اور اس کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ المائدہ کی دو آیتیں ۷۸ و ۷۹ تلاوت فرمائیں جن کا مفہوم یہ ہے کہ بنی اسرائیل میں سے جو لوگ کافر ہو گئے ان پر اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ذریعے لعنت فرمائی ہے اس لیے کہ وہ نافرمان ہو گئے تھے اور حد سے گزر گئے تھے، وہ ایک دوسرے کو اس گناہ اور برائی سے نہیں روکتے تھے جس کا وہ ارتکاب کرتے تھے اور یہ بہت برا عمل ہے جو وہ کرتے تھے۔