صحابہؓ میں سے جو بڑے قاری ہیں، ان میں سے دو قاریوں کا ذکر کروں گا۔ حضور ﷺ نے خود چار پانچ حضرات کو بڑا قاری کہا ہے۔ ابی بن کعبؓ کے بارے میں کہا کہ یہ سب سے بڑا قاری ہے۔ معاذ بن جبلؓ کے بارے میں فرمایا، ابو موسٰی اشعریؓ کے بارے میں فرمایا، سالم مولٰی ابی حذیفہؓ کے بارے میں فرمایا، عبد اللہ بن مسعودؓ کے بارے میں فرمایا، رضی اللہ عنہم اجمعین۔ یہ وہ چار پانچ بزرگ ہیں جن کو حضورؐ نے قاری کہا ہے کہ یہ میری امت کے بڑے قاری ہیں۔
حضرت ابو موسٰی اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ، بہت اچھا لہجہ، بہت اچھی سُر، بہت اچھی آواز تھی، خوبصورت انداز میں قرآن کریم پڑھتے تھے۔ ان سے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا، ابو موسٰی تیرے گلے میں تو داؤد علیہ السلام کے خاندان کا گلہ فٹ ہو گیا ہے۔ بہت اچھے لہجے میں قرآن کریم پڑھتے تھے۔ ایک واقعہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو موسٰی اشعریؓ سے کہا، ابو موسٰی! رات میں اور عائشہؓ (ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا) ہم دونوں میاں بیوی تمہارے محلے میں کسی کام سے گئے تھے، واپس آتے ہوئے آدھی رات کا وقت تھا، تمہارے گھر کے سامنے سے گزرے، تم گھر میں قرآن کریم کی تلاوت کر رہے تھے، باہر آواز آ رہی تھی، ہم دونوں وہیں کھڑے ہو گئے۔ کیا عجیب منظر ہو گا، کیا عجیب تلاوت ہو گی جس نے قدم روک لیے۔ کس کے؟ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے۔ فرمایا، تم قرآن کریم پڑھ رہے تھے گھر میں، گلی میں آواز آ رہی تھی، ہم دونوں میاں بیوی وہیں رک گئے اور کافی دیر گلی میں کھڑے کھڑے تمہارا قرآن سنتے رہے۔ ابو موسٰیؓ حسرت سے کہتے ہیں یا رسول اللہ! مجھے پتہ نہیں چلا، پتہ چل جاتا تو اور زیادہ لَے میں پڑھتا۔ اور زیادہ مزے سے پڑھتا اگر پتہ چل جاتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سن رہے ہیں، ام المومنین سن رہی ہیں، تو اور زیادہ مزے سے پڑھتا۔
ایک دفعہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ، بڑے قاری تھے، اور یہ وہ قاری ہیں جن کے بارے میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ جو آدمی قرآن کریم تازہ تازہ، ایسا تازہ پڑھنا چاہتا ہے جیسے نازل ہو رہا ہو، تو عبد اللہ بن مسعودؓ کے طریقے سے پڑھے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا ایک دن، فرمایا، عبد اللہ! مجھے قرآن کریم سناؤ۔ یا رسول اللہ! میں سناؤں آپ کو؟ آپ پر تو نازل ہوتا ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ہاں، تم مجھے قرآن کریم سناؤ، اس لیے کہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) جس طرح قرآن کریم پڑھنے کا ثواب حاصل کرتا ہوں، سننے کا ثواب بھی حاصل کرتا ہوں۔