پاکستان کا مروجہ عدالتی نظام

   
۱۶ جولائی ۱۹۹۹ء

لاہور ہائیکورٹ کے محترم جج جسٹس خلیل الرحمان رمدے نے روزنامہ جنگ لندن ۱۴ جون ۱۹۹۹ء کی رپورٹ کے مطابق وکلاء کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارا عدالتی نظام مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے اور اگر اس نظام کے ساتھ جج صاحبان اور وکلاء کی روزی وابستہ نہ ہوتی تو یہ کبھی کا ختم ہو چکا ہوتا۔ جسٹس موصوف کا کہنا ہے کہ اس نظام سے عام آدمی کو ریلیف اور انصاف نہیں ملتا اور لوگوں کا اس سسٹم پر سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔

مروجہ عدالتی نظام برصغیر میں مغل اقتدار کے خاتمے کے بعد برطانوی حکمرانوں نے نوآبادیاتی مقاصد کے لیے رائج کیا تھا اور جب تک اسے نافذ کرنے والے حکمران خود موجود رہے یہ نظام ان کے مقاصد پورے کرنے کے ساتھ ساتھ اس لحاظ سے امن عامہ کے قیام و اہتمام میں بھی ایک حد تک مفید رہا کہ اسے نافذ کرنے اور چلانے والے اس کے ساتھ مخلص تھے اور یہ سسٹم ان کے فلسفہ اور ترجیحات کے ساتھ ہم آہنگ تھا۔ مگر قیام پاکستان کے بعد اس نظام کی افادیت ختم ہو کر رہ گئی کیونکہ جن عوام پر یہ نظام نافذ تھا ان کی تو اس کے ساتھ پہلے ہی کوئی دلچسپی نہیں تھی، اب اس سسٹم کو چلانے والے عناصر کی بھی اس نظام کے ساتھ صرف اس حد تک کمٹمنٹ باقی رہی کہ یہ ان کے مفادات کی حفاظت کرتا رہے اور مراعات کے حصول کا ذریعہ بنا رہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ نوآبادیاتی عدالتی نظام معاشرہ میں جرائم کے خاتمہ اور امن و امان کے قیام کا ذریعہ بننے کی بجائے بدعنوانی، نا انصافی، رشوت ستانی اور نا اہلی کی آماجگاہ بن کر رہ گیا ہے جس سے لاقانونیت اور جرائم میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔

اس عدالتی نظام کی ناکامی پر ایک عرصہ سے بہت کچھ کہا اور لکھا جا رہا ہے جسے جسٹس رمدے نے ذرا صاف لہجے میں دہرا دیا ہے ورنہ یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں اور ہر باشعور شہری اس سے اچھی طرح باخبر ہے۔ مگر اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ نظام کی ناکامی کا ورد کرتے رہنے کی بجائے اس کی تبدیلی کے لیے ٹھوس پیش رفت کی جائے اور جس مقصد کے لیے آزادی کی جنگ لڑی گئی تھی اور پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا تھا اس کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے اسلام کا عادلانہ نظام نافذ کرنے کا اہتمام کیا جائے کیونکہ اس کے بغیر نہ معاشرہ جرائم اور لاقانونیت سے نجات حاصل کر سکے گا اور نہ ہی پاکستان صحیح معنوں میں پاکستان بن پائے گا۔

   
2016ء سے
Flag Counter