سیاسی اخلاقیات کی چند خوشگوار جھلکیاں

   
۲ مئی ۲۰۲۲ء

ان دنوں سیاسی رسہ کشی نے جو شکل اختیار کی ہوئی ہے وہ بہت پریشان کن ہے کیونکہ ایک دوسرے کے خلاف جو زبان اختیار کی جا رہی ہے اور باہمی الزام تراشی اور طعنہ زنی کے ساتھ ساتھ قومی اداروں بالخصوص عدلیہ کے فیصلوں کو جس طرح بے وقار کیا جا رہا ہے اور فوج کے خلاف نفرت کی فضا بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اس نے سیاسی اخلاقیات کو سوالیہ نشان بنا کر رکھ دیا ہے اور اس خلفشار کو ’’نو ٹرن پوائنٹ‘‘ کی طرف بڑھتے دیکھ کر بسا اوقات قلبی اضطراب انتہائی حدوں کو چھونے لگتا ہے، اس ماحول میں کچھ واقعاتی جھلکیاں پیش کرنے کو جی چاہتا ہے جو ماضی قریب میں ہی قومی سطح پر ہماری قیادتوں کی اخلاقی اقدار کی طرف توجہ دلاتی ہیں اور یہ احساس دلاتی ہیں کہ ہم کہاں سے کہاں لڑھکتے چلے جا رہے ہیں۔

وطن عزیز دولخت ہو چکا تھا، ہماری فوج کا ایک بڑا حصہ انڈیا کی قید میں تھا اور مشرقی پاکستان نے بنگلہ دیش کی صورت اختیار کر لی تھی۔ مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی، جمعیۃ علماء اسلام، مسلم لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی کی باہمی سیاسی کشیدگی عروج پر تھی۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو ملک کے حکمران تھے اور خان عبد الولی خان، مولانا مفتی محمود اور میاں ممتاز دولتانہ اپوزیشن کی قیادت کر رہے تھے۔ بھٹو صاحب کو نازک ترین مسائل پر بھارتی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی سے مذاکرات کے لیے انڈیا جانا تھا اور سیاسی ماحول میں اس بات کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ ان مذاکرات میں ملک کی اپوزیشن بھی ان کی پشت پر کھڑی دکھائی دے۔ مولانا مفتی محمودؒ نے جمعیۃ علماء اسلام کے ایک اجلاس میں بتایا کہ ہم نے آپس میں مشورہ کیا کہ بھارت کے ساتھ مذاکرات کے لیے بھٹو صاحب کو ہمارے اعتماد کی ضرورت ہے چنانچہ ہم نے قومی اسمبلی میں بھٹو صاحب پر اعتماد کی قرارداد منظور کر کے اس ضرورت کو پورا کیا اور بھٹو صاحب نے پورے اعتماد کے ساتھ بھارتی وزیراعظم سے مذاکرات کیے جن کے نتیجے میں شملہ معاہدہ وجود میں آیا۔

اسی دوران جمعیۃ علماء اسلام پاکستان دو حصوں میں بٹ گئی اور حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ نے مولانا مفتی محمودؒ کی بعض پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے ’’ہزاروی گروپ‘‘ کے نام سے جمعیۃ علماء اسلام کی تشکیل نو کر لی جس سے مولانا مفتی محمودؒ اور مولانا غلام غوث ہزارویؒ جماعتی پالیسیوں اور گروہ بندی میں آمنے سامنے آ گئے۔ اسی تسلسل میں ۱۹۷۷ء کی ’’تحریک نظام مصطفٰیؐ ‘‘کے دوران جبکہ مولانا مفتی محمودؒ نو سیاسی جماعتوں کے مشترکہ فورم ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ کے سربراہ کے طور پر تحریک کی قیادت کر رہے تھے کہ مولانا غلام غوث ہزارویؒ کا ایک تند و تیز بیان مفتی صاحبؒ کے خلاف اخبارات کی زینت بنا، میں ان دنوں جمعیۃ علماء اسلام کا مرکزی سیکرٹری اطلاعات اور پاکستان قومی اتحاد پنجاب کا صوبائی سیکرٹری جنرل تھا، ہم کچھ دوست جامعہ اسلامیہ راولپنڈی صدر میں حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے ساتھ بیٹھے تھے کہ روزنامہ نوائے وقت کے رپورٹر اکرام الحق شیخ ان سے ملنے کے لیے آئے اور مولانا ہزارویؒ کے اس بیان کے بارے میں سوال کیا۔ مفتی صاحبؒ نے فرمایا کہ وہ مولانا کی رائے ہے جو انہوں نے بیان کی ہے۔ شیخ صاحب نے کہا کہ انہوں نے آپ کے بارے میں بھی کچھ کہا ہے۔ مفتی صاحبؒ نے فرمایا کہ وہ بھی ان کی رائے ہے۔ اکرام الحق نے ایک دو بار پھر سوال دہرایا تو مفتی صاحبؒ نے یہ کہہ کر بات ختم کر دی کہ ’’اکرام! جو تم کہلوانا چاہتے ہو وہ میں نہیں کہوں گا، وہ ہمارے بزرگ ہیں۔‘‘

دارالعلوم دیوبند کے صد سالہ اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستان سے جانے والے علماء کرام کے بھرپور وفد کی قیادت مولانا مفتی محمودؒ کر رہے تھے اور اس میں والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور عم مکرم حضرت مولانا مفتی عبد الحمید سواتیؒ کے ساتھ میں بھی شامل تھا۔ یہ وہ دور تھا جب ملک میں صدر جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم اور مولانا مفتی محمودؒ کے درمیان سیاسی مخاصمت عروج پر تھی، پبلک جلسوں میں مفتی صاحبؒ کی تند و تیز فقروں پر بسا اوقات ہم بھی دھیمے لہجے میں مفتی صاحب سے کچھ عرض کر دیا کرتے تھے۔ حتٰی کہ رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل الشیخ محمد علی الحرکان مرحوم بھی تشریف لا کر ان دونوں کے درمیان کشیدگی کو کم کرانے میں کامیاب نہیں ہوئے تھے۔ بظاہر کشیدگی کی سطح کم کرانے کی کوئی شکل نظر نہیں آ رہی تھی اور مفتی صاحبؒ جنرل محمد ضیاء الحق کے خلاف تمام سیاسی جماعتوں کا متحدہ محاذ بنانے کے لیے سرگرم عمل ہو گئے تھے۔

اس فضا میں مولانا مفتی محمودؒ دہلی گئے تو بھارتی وزیر اعظم اندراگاندھی سے ان کی ملاقات ہوئی جس کے بعد بھارتی صحافیوں نے ملاقات میں مفتی صاحبؒ سے پاکستان کی سیاسی صورتحال کے بارے میں سوالات شروع کر دیا۔ بالخصوص جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے ساتھ ان کے سیاسی اختلاف کی شدت کے بارے میں سوالات ہوئے، مفتی صاحبؒ پہلے تو طرح دیتے رہے مگر جب بار بار سوال ہوا تو مفتی صاحبؒ نے دوٹوک لہجے میں یہ فرما کر سوالات کو روک دیا کہ ضیاء الحق کے ساتھ میرا اختلاف ملک کی سرحدوں کے اندر ہے اور یہاں میں پاکستان کا نمائندہ ہوں اس لیے اس حوالہ سے کسی سوال کا جواب نہیں دوں گا۔ جبکہ اسی ماحول میں مولانا مفتی محمودؒ کا انتقال ہو گیا تو جنرل ضیاء الحق مرحوم نے ڈیرہ اسماعیل خان جا کر جنازہ میں ذاتی طور پر شرکت کی اور مفتی صاحبؒ کو شاندار الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا۔

تحدیثِ نعمت کے طور پر یہاں ذکر کرنا چاہوں گا کہ ہم نے بحمد اللہ اس ماحول میں سیاسی تربیت پائی ہے اور صد شکر کہ یہ روایات ان کے بعد بھی ہمارے ماحول میں قائم و موجود ہیں جن کے بعض واقعات میں اپنے کالموں میں ذکر کر چکا ہوں کہ مولانا مفتی محمودؒ کی وفات پر بھی جمعیۃ علماء اسلام پاکستان (۱) درخواستی گروپ اور (۲) فضل الرحمٰن گروپ کے نام سے دو گروہوں میں تقسیم ہو گئی تھی اور ہمارے درمیان بیان بازی اور ایک دوسرے کی مخالفت انتہا کو پہنچی تھی مگر یہ اللہ تعالیٰ کا کرم اور بزرگوں کی صحبت و تربیت کا اثر تھا کہ اخلاقیات کا دامن ہمیشہ ہاتھ میں رہا ہے اور کسی اختلاف کو ذاتی مخاصمت اور دشمنی کا رنگ اختیار کرنے کا حوصلہ نہیں ہوا۔ باہمی ملاقاتیں بھی ہوتی تھیں، گپ شپ بھی ہوتی تھی، نوک جھونک بھی ہوتی تھی اور سیاسی میدان میں باہمی محاذ آرائی بھی تھی۔

اس لیے آج کی سیاسی مخاصمت اور اس کے اظہار میں شدت، سنگینی اور اخلاقیات سے عاری لب و لہجہ دیکھنے میں آتا ہے تو الجھن ہونے لگتی ہے اور دل افسردہ ہو جاتا ہے۔ گزشتہ روز ایک محفل میں اس صورتحال کا تذکرہ ہوا تو میں نے عرض کیا کہ الزام تو ہم مذہبی حلقوں پر تھا کہ ان میں قوتِ برداشت کم ہوتی ہے اور یہ دوسروں کو اختلاف کا حق دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور کسی مخالف کے لیے کفر سے کم کا فتوٰی ان کے پاس نہیں ہوتا۔ مگر عملی صورتحال یہ ہے کہ مذہبی قیادتیں تو آج بھی قومی اور ملی مفاد میں اکٹھے بیٹھنے کا اہتمام کر لیتی ہیں اور مشترکہ موقف طے کر لیتی ہیں۔ یہ سیاسی حلقوں کو کیا ہو گیا ہے کہ ایک دوسرے کی بات سننے کے روادار بھی نہیں رہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter