بعد الحمد و الصلوٰۃ! میرے اور آپ سب کے لیے یہ سعادت کی بات ہے کہ جن بچوں نے قرآن پاک حفظ مکمل کیا ہے، انہوں نے آخری سبق سنایا ہے اور ان کی دستار بندی ہوئی ہے، اور ان بچوں، ان کے والدین اور استاد محترم کی خوشی میں ہم شریک ہو رہے ہیں۔ اصل خوشی تو ان کی ہے۔ اللہ پاک ان کو یہ خوشیاں مبارک کریں اور ان کا قرآن کریم حفظ کرنا ہم سب کے لیے دنیا و آخرت کی برکات، سعادتوں اور خوشیوں کا ذریعہ بنے۔ قرآن کریم کے حوالے سے مختصر گفتگو کروں گا۔
پہلی بات یہ کہ ابھی پڑھتے ہوئے کچھ بچے ٹھٹھک گئے تھے۔ جب پڑھتے ہوئے کوئی بچہ ٹھٹھک جاتا ہے تو مجھے اپنے بھولنے کا واقعہ یاد آ جاتا ہے۔ میں آخری سبق سناتے ہوئے بھول گیا تھا۔ ۱۹۶۰ء میں میرا حفظ مکمل ہوا۔ میں نے آخری سبق حافظ الحدیث حضرت مولانا عبداللہ درخواستیؒ کو گکھڑ میں ایک جلسہ میں سنایا تھا، جبکہ اسٹیج پر حضرت مولانا قاری فضل کریم صاحبؒ، استاذ القراء حضرت مولانا سید حسن شاہ صاحبؒ اور والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر صاحبؒ موجود تھے۔ میرے استاد محترم استاذ الحفاظ و القراء حضرت قاری محمد انور صاحبؒ جو مدینہ منورہ جنۃ البقیع میں مدفون ہیں میرے حفظ کے استاد تھے۔ آخری سبق سورۃ المرسلات کا دوسرا رکوع تھا۔ میں سبق سنانے آیا تو سامنے پورا مجمع تھا، مسجد بھری ہوئی تھی اور پیچھے یہ بزرگ موجود تھے۔ اس وقت میری عمر بارہ سال تھی تو میں سناتے ہوئے لڑکھڑا رہا تھا، ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ اتنے بڑے بزرگوں کے سامنے اور اتنے بڑے اجتماع میں پڑھنا آسان بات نہیں تھی۔ میں آیت ’’واذا قیل لھم ارکعوا لا یرکعون‘‘ بھول گیا۔ خیر استاد محترم نے لقمہ دیا اور میں نے پڑھ لیا، بات گزر گئی۔
اس کے ڈیڑھ دو سال بعد حضرت مولانا محمد عبداللہ درخواستیؒ کسی پروگرام میں گوجرانوالہ تشریف لائے۔ مجلس تحفظ ختم نبوت کے دفتر میں تشریف فرما تھے۔ شہر کے علماء حضرت کے پاس جمع تھے۔ میں بھی زیارت کے لیے چلا گیا۔ مجھے تصور بھی نہیں تھا کہ حضرت مجھے پہچان لیں گے۔ ایک جلسے میں ایک بچے کا سبق سنا ہے تو ہر ایک بچے کو پہچاننا تو مشکل ہوتا ہے۔ میں جا کر ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ حضرت نے نظر ڈالی اور فرمایا اب چھپتے بھی ہو ’’واذا قیل لھم ارکعوا‘‘ ادھر آؤ۔ میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی کہ حضرت کو یاد ہے کہ اس بچے نے مجھے آخری سبق سنایا تھا، یہ بھی یاد ہے کہ یہ بھول گیا تھا اور یہ بھی یاد ہے کہ آیت کونسی بھولا تھا۔ انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ پھر سبق سناؤ تو میں نے اس موقع پر دوبارہ آخری سبق سنایا۔ جب بھی کوئی بچہ ٹھٹھکتا ہے تو مجھے یہ واقعہ یاد آ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان حضرات کے درجات بلند فرمائیں۔
محترم قاری وسیم اللہ امین ہمارے ساتھی اور رفیقِ تدریس بھی ہیں۔ جامعہ نصرۃ العلوم کے مدرس ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیا بھر میں قرآن کریم سنانے کے مواقع فراہم کیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ عزت و مواقع اور توفیق میں مزید برکات نصیب فرمائیں۔ انہوں نے ابتدا میں ایک آیت پڑھی ’’ان ھذا القرآن یہدی‘‘ یہ قرآن ہدایت دیتا ہے ’’للتی ھی اقوم‘‘ قرآن جس راستے کی رہنمائی کرتا ہے وہ دنیا میں سب سے مضبوط، سب سے اچھا اور دنیا کے تمام راستوں میں سب سے سیدھا راستہ ہے۔ قرآن مجید کے ان دو جملوں پر آج کے دور کی چند شہادتیں ذکر کرنا چاہوں گا۔
ہمارے ایک نومسلم دوست ہیں یحییٰ برٹ جو کہ آکسفورڈ میں ہوتے ہیں، نسلاً انگریز ہیں۔ ان کے والد جان برٹ بی بی سی کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ یحییٰ برٹ مسلمان ہو گئے، پہلے کوئی اور نام تھا پھر یحییٰ نام رکھ لیا۔ اس کے بعد انہوں نے تبلیغی جماعت کے ساتھ بھی وقت لگایا، دینی تعلیم حاصل کی اور آکسفورڈ سے پی ایچ ڈی کی۔ انہوں نے اس موضوع پر پی ایچ ڈی کی ہے کہ سانحہ گیارہ ستمبر کے بعد یورپ میں یورپین نسلوں کے لوگ کیوں مسلمان ہو رہے ہیں؟ ۲۰۰۱ء سے ۲۰۱۱ء تک کے دس سال کو فوکس کیا اور ریسرچ کی کہ یورپ میں باہر سے آنے والے نہیں بلکہ یورپین نسلوں کے لوگ کیوں مسلمان ہو رہے ہیں؟ نائن الیون کے دس سال بعد یورپ کے کتنے لوگ مسلمان ہوئے اور ان کے قبول اسلام کی وجہ کیا ہے؟ یحیٰی برٹ کا مقالہ نیٹ پر موجود ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ گزشتہ دس سال میں یورپ میں یورپین نسلوں کے جو لوگ مسلمان ہوئے ہیں ان میں سے تیرہ ہزار تک میں نے معلومات حاصل کی ہیں۔ ان مسلمان ہونے والوں میں کوئی ڈچ، کوئی انگریز، کوئی سکاچ، کوئی جرمن ہے۔ ان کے قبول اسلام کی وجہ کیا ہے؟ انہوں نے تجزیہ کیا کہ ان میں سے ۸۰ فیصد لوگ وہ ہیں جن کی کسی طریقے سے قرآن مجید تک رسائی ہوئی، انہوں نے قرآن پاک کو اسٹڈی کیا اور مسلمان ہوگئے ہیں۔ یعنی قرآن پاک ان کے مسلمان ہونے کا سبب بنا۔ ’’ان ھذا القرآن یھدی‘‘۔ قرآن کریم آج بھی رہنمائی کرتا ہے، آج بھی سیدھا راستہ دکھاتا اور ہدایت دیتا ہے۔ دنیا میں آج جو لوگ مسلمان ہو رہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی قرآن پاک تک براہ راست رسائی ہو گئی، انہوں نے قرآن پاک اسٹڈی کیا اور قرآن پاک نے اُنہیں مسلمان کر دیا۔
اس پر ایک اور شہادت دوں گا۔ امریکن نو مسلم خاتون ڈاکٹر ایم کے ہرمینسن جو اس وقت شکاگو یونیورسٹی میں شاہ ولی اللہ کی چیئرپرسن ہیں، وہ مسلمان ہوئیں، دین پڑھا، اردو، عربی اور فارسی پڑھی۔ ۱۹۸۹ء کے دوران گوجرانوالہ بھی تشریف لائی تھیں۔ میں نے ان سے طویل انٹرویو کیا ۔ وہ اصل کینیڈین ہیں، امریکہ میں رہتی ہیں، سین ڈیاگو یونیورسٹی سے پڑھا ہے۔ میں نے انٹرویو میں ان سے سوال کیا کہ آپ کیوں مسلمان ہوئی ہیں؟ مسلمان ہونے کی وجہ بتائیں تو انہوں نے جو جواب دیا اس سے اندازہ کریں کہ قرآن پاک کیسے مسلمان کرتا ہے۔ آج کے دور کے ہزاروں واقعات میں سے ایک واقعہ مثال کے طور پر عرض کرتا ہوں۔ ہرمینسن بتاتی ہیں کہ میں نے سین ڈیاگو یونیورسٹی میں ماسٹر کی ڈگری کی، اس کے بعد دنیا کی مختلف یونیورسٹیوں میں مختلف کورسز کیے۔ جب اسپین کی یونیورسٹی میں کورس کر رہی تھی، اسپین اور مراکش آمنے سامنے ہیں، درمیان میں اٹھارہ بیس میل سمندر کی پٹی ہے، ایک دن میں نے صبح ریڈیو آن کیا تو عجیب سی اور بڑی مانوس سی آواز آ رہی تھی جو دل کو جا کر لگی، دل میں اس کے لیے کشش پیدا ہوئی۔ میں نے وہ آواز سنی تو مجھے ایسے لگا کہ میرے دل میں اس آواز کی تلاش تھی۔ مجھے نہیں پتا تھا کہ یہ کس کی آواز ہے۔ اس آواز سے مجھے بہت سکون حاصل ہوا، کئی دن تک سنتی رہی، آواز بہت اچھی تھی، دل میں سکون پیدا کرتی تھی۔ لیکن یہ کس چیز کی آواز ہے؟ میں نے لوگوں سے پوچھا تو لوگوں نے بتایا یہ مراکو ریڈیو ہے اور یہ آواز مسلمانوں کی ہولی بک قرآن مجید کی تلاوت ہے۔ اب میں نے اسے باقاعدگی سے سننا شروع کر دیا۔ مہینہ دو مہینے تک سنتی رہی۔ اس کے بعد مجھے خیال آیا کہ اسے اسٹڈی کرنا چاہیے۔ آواز اتنی اچھی ہے تو مضمون کتنا دلکش ہوگا۔ میں نے قرآن پاک کا انگلش ترجمہ تلاش کیا۔ مجھے پکھتال کا ترجمہ مل گیا۔ مہینہ دو مہینے میں نے قرآن پاک اسٹڈی کیا ہوگا، اس کے بعد میرے دل میں خیال آیا کہ یہ ترجمہ تو سیکنڈلی سورس ہے۔ قرآن پاک کو اوریجنل سورس سے اسٹڈی کرنا چاہیے۔ اس غرض سے میں نے عربی کا کورس کیا، اور قرآن کریم کو براہ راست عربی زبان میں اسٹڈی کیا تو قرآن نے مجھے مسلمان کر دیا۔
یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ کیا ہمیں بھی کبھی خیال آیا ہے کہ قرآن مجید کو اصل ماخذ سے اسٹڈی کرنا چاہیے؟ ہم تو درس سن کے خوش ہیں کہ بس کافی ہے۔ قرآن پاک آج بھی ہدایت دیتا ہے۔ بہت سے واقعات کی ایک قطار میرے ذہن میں ہے۔ ایک دو واقعات بطور مثال ذکر کیے ہیں۔ دوسرا جملہ ’’للتی ھی اقوم‘‘ کہ قرآن مجید جس راستے کی رہنمائی کرتا ہے وہ سب سے سیدھا راستہ ہے۔ آج بھی قرآن کا راستہ ہی سب سے سیدھا راستہ ہے۔ اس پر دو تین واقعات ذکر کروں گا۔
اس وقت دنیا میں معیشت، معاشیات اور معاشی بحران کے حوالے سے افراتفری ایک اہم موضوع ہے۔ آج کی معاشی صورتحال یہی ہے کہ دنیا کے کمزور ممالک پھنسے ہوئے ہیں اور طاقتور ملکوں نے پھنسایا ہوا ہے۔ ہم بھی پھنسے ہوئے ہیں۔ اس پر پاپائے روم جو عیسائی دنیا کے سب سے بڑے مذہبی پیشوا ہیں، گزشتہ پوپ، پوپ بینی ڈکٹ نے اپنے دور میں معاشی ماہرین کی ایک کمیٹی بنائی جس کے ذمے یہ کام لگایا کہ دنیا کا معاشی نظام جیسے چل رہا ہے کہ طاقتوروں نے پھنسایا ہوا ہے اور کمزور پھنسے ہوئے ہیں، عجیب افراتفری ہے، اس میں ہمیں ویٹی کن سٹی کو کیا رائے قائم کرنی چاہیے؟ اٹلی کے معاشی ماہرین نے ریسرچ کی اور رپورٹ دی جو کہ ریکارڈ پر ہے، ویٹی کن سٹی کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ اس کا ایک جملہ نقل کرتا ہوں۔ معاشی ماہرین نے کہا کہ اس وقت جو دنیا کا معاشی بحران ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں توازن نہیں ہے، غیر متوازن سسٹم اس کی بنیاد ہے۔ اس لیے دنیا کی معیشت کو بیلنس اور توازن کے ٹریک پر لانے کے لیے ہمیں معیشت کے وہ اصول اختیار کرنا ہوں گے جو قرآن مجید بیان کرتا ہے۔
دوسری شہادت شاہ چارلس کی ہے۔ جس زمانے میں وہ شہزادہ چارلس تھے، بہت تقریریں کیا کرتے تھے۔ دنیا کے بڑے دانشوروں میں شمار ہوتا ہے۔ ان کی ایک تقریر مجھے یاد ہے، نیویارک میں ماحولیات کے مسئلے پر کانفرنس ہوئی تھی۔ کیمیائی اثرات اور موسمی تغیرات آج کا کرنٹ ایشو ہے۔ ہوا، پانی اور مٹی کا آلودہ ہونا بہت بڑا مسئلہ ہے جس پر امریکہ اور فرانس کی کشمکش بھی ہے۔ میں ان دنوں امریکہ میں تھا۔ وہاں کے اخبارات میں اس کی تقریر کے کچھ حصے شائع ہوئے۔ شہزادہ چارلس نے اس کانفرنس میں کہا کہ اگر پولوشن اور ماحولیات کے مسئلے سے نجات حاصل کرنی ہے اور موسمی تغیرات کو سمیٹنا ہے تو ہمیں معاشرت اور سماج کے وہ اصول اختیار کرنا ہوں گے جو قرآن پاک ہمیں دیتا ہے۔
ایک اور شہادت ذکر کرتا ہوں کہ ’’ان ھذا القرآن یھدی للتی ھی اقوم‘‘ قرآن پاک سیدھے راستے کی رہنمائی آج بھی کرتا ہے۔ غیر مسلم رہنمائی لینا چاہے تو قرآن اس کی بھی رہنمائی کرتا ہے۔ ہم عموماً ثواب لینا چاہتے ہیں تو ثواب مل جاتا ہے، اور اگر ہم بھی اس سے رہنمائی لینا چاہیں گے تو وہ بھی ملے گی، لیکن فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ رہنمائی لینی ہے یا نہیں۔ ہم نہ لینا چاہیں تو ہماری مرضی۔
ربع صدی پہلے کی بات ہے امریکہ میں نیویارک پولیس کے ڈپٹی چیف مائیکل مسلمان ہوئے۔ وہاں پر مسلمانوں کی بڑی آبادی بروکلین کے علاقے میں ہے جہاں مکی مسجد کے نام سے ایک معروف مسجد ہے۔ میں نے مکی مسجد میں بہت دفعہ حاضری دی ہے۔ وہاں کے مسلمانوں نے مائیکل موصوف کے استقبالیہ میں رمضان میں افطار پارٹی کی۔ مائیکل سے کسی نے پوچھا کہ جناب! آپ کیوں مسلمان ہوئے ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ میں نے قرآن پاک اسٹڈی کیا اور میں نے دیکھا کہ زندگی کے عملی مسائل، سوسائٹی کے پریکٹیکل ایشوز کو جتنا نیچرلی قرآن ٹچ کرتا ہے اور کوئی نہیں کرتا۔ یعنی زندگی کے عملی مسائل کو جس طرح فطری طور پر قرآن پاک بیان کرتا ہے۔ مثال کے طور پر قرآن پاک کھانے پینے، رہن سہن کے آداب سکھاتا ہے، پڑوسیوں اور رشتہ داروں کے ساتھ معاملات کیسے کرنے ہیں، اللہ کے حقوق کیا ہیں، بندوں کے حقوق کیا ہیں، حلال حرام کیا ہے، تجارت اور کاروبار کیسے کرنا ہے، ملازمت کیسے کرنی ہے، فیصلے کیسے کرنے ہیں؟ ان کی قرآن رہنمائی کرتا ہے۔ مائیکل صاحب کا کہنا ہے کہ زندگی کے عملی مسائل کو جتنا فطری انداز میں قرآن کریم بیان کرتا ہے اور کوئی نہیں کرتا، اس بات نے مجھے متاثر کیا تو میں مسلمان ہوگیا۔
بہرحال آج بھی قرآن پاک ان کی رہنمائی کر رہا ہے جو اس سے رہنمائی لینا چاہتے ہیں۔ ’’للتی ھی اقوم‘‘ قرآن جس راستے کی رہنمائی کرتا ہے وہ آج بھی دنیا کا سب سے بہترین اور سب سے سیدھا راستہ ہے۔
ان گزارشات کے ساتھ میں بچوں، ان کے والدین، اساتذہ اور تمام متعلقین کو مبارکباد دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان بچوں کا پڑھنا ان سب کے لیے دنیا اور آخرت کی برکات، کامیابیوں خوشیوں اور سعادتوں کا ذریعہ بنائیں۔ آمین!