کوالالمپور کانفرنس کا اعلامیہ اور اسلامی تعاون تنظیم کا متوقع اجلاس

   
۵ جنوری ۲۰۲۰ء

آج کے کالم میں ہم گزشتہ دنوں کوالالمپور میں منعقد ہونے والی بیس سے زیادہ مسلم ممالک کی سربراہی کانفرنس کے اعلامیہ کا اردو ترجمہ پیش کر رہے ہیں جو کانفرنس کے داعی ڈاکٹر مہاتیر محمد کی طرف سے جاری کیا گیا ہے ،اور اسے عالم اسلام کے مسائل و مشکلات کی طرف امت مسلمہ کو توجہ دلانے کی ایک سنجیدہ کوشش قرار دیتے ہوئے ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی کانفرنس میں شریک نہ ہونے کے حوالہ سے حکومت پاکستان کے فیصلے اور اس کی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی حکومتوں کی طرف سے سامنے آنے والی تحسین کی بحث میں پڑے بغیر مستقبل قریب میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا سربراہی اجلاس بلائے جانے کے اعلان کا بھی خیرمقدم کرتے ہیں اور اسے اس سمت مزید پیشرفت کا آئینہ دار سمجھتے ہوئے چند گزارشات پیش کرنا چاہتے ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ عالم اسلام کو اس وقت ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو:

  • امت مسلمہ کے اجتماعی مسائل، مسلم اقوام و ممالک کی مشکلات کے سنجیدہ حل، اور دنیا میں ہر طرف جابر و ظالم قوتوں کے حصار میں بے بس ہو کر رہ جانے والے مسلمانوں کو جبر و تشدد کے ماحول سے نجات دلانے کے لیے عالمی سطح پر محنت کر سکے۔
  • مسلم دنیا کو عالمی استعماری قوتوں کی کشمکش سے الگ کرتے ہوئے اس کی خودمختار اور باوقار حیثیت بحال کرنے کے لیے کردار ادا کر سکے۔
  • ہم نے پہلی عالمی جنگ میں جرمنی اور یورپی متحدہ محاذ کی باہمی جنگ میں فریق بن کر اور اس کے بعد امریکہ اور روس کی عالمی کشمکش میں دونوں طرف تقسیم ہو کر جو نقصانات اٹھائے ہیں، ان کا شعور بیدار کرتے ہوئے موجودہ تناظر میں امریکی کیمپ اور ایجنڈے کے جال سے امت مسلمہ کو نکالنے کی کوئی صورت نکال سکے۔
  • سائنسی، عسکری، معاشی اور اقتصادی شعبوں میں مسلم ممالک کی حقیقی پیشرفت میں حائل رکاوٹوں کی نشاندہی کر کے ان سے صحیح طور پر نمٹنے کے لیے مسلم اقوام و ممالک کی عملی راہنمائی کر سکے۔
  • مغربی، چینی، اور ہندو تہذیبوں کی سہ طرفہ یلغار سے اسلامی تہذیب و ثقافت اور دین و شریعت کو محفوظ کرنے، اور امت مسلمہ کو اپنی دینی و تہذیبی روایات و اقدار پر قائم رکھنے کی مؤثر حکمت عملی اختیار کر سکے۔
  • اور مسلم معاشروں میں قرآن و سنت کے احکام و قوانین کی عملداری کا ماحول پیدا کر سکے۔

ہمیں عرب اور عجم سے بحث نہیں، ہم نے اموی اور عباسی خلافتوں کی عرب قیادت میں بھی صدیاں گزاری ہیں اور عثمانی خلافت اور مغل سلطنت کی عجمی قوتوں نے بھی صدیوں ہماری قیادت کی ہے۔ اصل بات امت مسلمہ کی اجتماعی ضروریات و تحفظات اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے بقا اور تسلسل کی ہے، جو بھی ان میں سنجیدہ ہوگا اور اس کے منطقی تقاضے پورے کرے گا وہی عالم اسلام کی قیادت کرے گا۔ بلکہ ہمیں اس کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے کہ عرب اور عجم کی قیادتوں کے دو الگ الگ کیمپ سامنے آجائیں، جیسا کہ خلافت عثمانیہ اور مغل سلطنت بیک وقت اپنے اپنے دائرہ اثر میں کام کرتی رہیں۔ مگر اس شرط کے ساتھ کہ یہ ایک دوسرے کے سامنے نہ ہوں بلکہ حسب ضرورت دونوں مل کر عالمی کفر و استعمار کے سامنے ہوں اور اس کے چنگل سے اپنے آپ کو بچائیں کہ یہی وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔

البتہ یہ بات ہم دونوں کیمپوں کو یاد دلانا چاہیں گے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت کے قریش کے ساتھ مخصوص ہونے کی پیشگوئی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا کہ خلافت قریش میں رہے گی ’’ما اقاموا الدین‘‘ جب تک وہ دین کو قائم رکھیں گے۔ اس لیے عرب اور عجم کی موجودہ قیادتیں ملت اسلامیہ کی اجتماعی ضروریات و مشکلات کے حل، عالم اسلام کی حقیقی خودمختاری اور غیر جانبداری کی بحالی، دین کی اقامت اور اسلامی تہذیب و ثقافت کی بقا و تسلسل کے لیے باہمی محاذ آرائی سے گریز کرتے ہوئے اپنی صلاحیتیں اور توانائیاں مسلم امہ کے لیے مثبت طور پر خرچ کریں گی، تو ہمارے جیسے شعوری اور نظریاتی کارکن اپنے اپنے دائرہ کار میں ان میں سے ہر ایک کی خدمت کو اپنے لیے سعادت کا باعث سمجھیں گے۔

اس تناظر میں ہم کوالالمپور کانفرنس کے اعلامیہ کو اپنے کالم کا حصہ بنا رہے ہیں جو ہمیں نظریاتی اور فکری حوالہ سے مناسب لگا ہے، خدا کرے کہ یہ کسی عملی پیشرفت کا باعث بھی بن جائے، آمین یا رب العالمین۔


کوالالمپور سمٹ کا اعلامیہ ۲۰۱۹ء ۔ قومی مختاری کے حصول میں ترقی کا کردار

ہر گاہ کہ

  • ہم اس پیش قدمی کی تحسین کرتے ہیں جو ڈاکٹر مہاتیر محمد نے کوالالمپور سمٹ کی گزشتہ کانفرنسوں کی سربراہی کے ذریعے کی ہے، جس کا مقصد باہمی گفت و شنید کے لیے متعدد الجہات بین الاقوامی پلیٹ فارم مہیا کرنا اور امت مسلمہ کو محیط مصائب و آلام میں کمی لانے کے لیے ممکنہ ذرائع فراہم کرنا تھا۔
  • ہم سمٹ کے ساتھ مرکزی اور باہم مربوط و منسلک اہداف کے ذریعے سے امت کی سربلندی کی اجتماعی ذمہ داری اٹھاتے ہیں جو حسب ذیل ہیں:

    (۱) مسلسل ترقی

    (۲) صاف و شفاف طرز حکمرانی

    (۳) ثقافت اور شناخت

    (۴) امن اور عدل و حریت

    (۵) خود مختاری اور امن و دفاع

    (۶) تجارت اور سرمایہ کاری

    (۷) ٹیکنالوجی اور گورننس

  • ہم اقتصادی میدان میں باہمی تعاون، نیز اہم میدانوں میں ٹیکنالوجی کے فوائد کو بروئے کار لانے کی اہمیت پر زور دیتے ہیں تاکہ امت مسلمہ کو درپیش مشکلات پر قابو پایا جا سکے۔
  • ہم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ سمٹ کی نوعیت تزویراتی تعاون کی ہے، جو ان کوششوں کی تقویت کے لیے کام کرے گا جو اسلامی ممالک کے مابین قائم مختلف اتحاد انجام دے رہے ہیں، جیسا کہ او آئی سی اور ڈی ایٹ برائے اقتصادی تعاون۔ اس لیے ہم تمام مسلمانوں کو، چاہے وہ حکومتیں ہوں یا دیگر موثر ادارے، دعوت دیتے ہیں کہ وہ کوالالمپور سمٹ کی آئندہ سرگرمیوں کا حصہ بنیں۔ نیز واضح رہے کہ سمٹ ۲۰۲۰ء سے ایک نئے نام سے کام کرے گا یعنی ’’پردانا فاؤنڈیشن برائے تہذیبی مکالمہ‘‘ (Perdana Foundation of Civilisational Dialogue)

پس

  1. ہم ان تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کا عہد کرتے ہیں جو سمٹ نے اسلامی تہذیب کے احیا کے حوالے سے، جسے دنیا کی قوموں میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے، نیز امت کے موجودہ حالات کی بہتری اور اقتصادی ترقی، سائنسی اور ٹیکنالوجی اور ایجاد و اختراع کا دائرہ وسیع کرنے کے ضمن میں طے کی ہیں، تاکہ آنے والی نسلوں کا مستقبل بہتر بنایا جا سکے۔
  2. ہم مکرر عہد کرتے ہیں کہ ایسی امت کی تشکیل کے لیے جدوجہد کریں گے جو بالفعل آزادی کی زندگی بسر کرے، عزت اور خوشحالی سے سرفراز ہو، بہتر اجتماعی اور اقتصادی مواقع کے حصول کے لیے تعلیم اور ہنر کے اعلٰی درجے پر فائز ہو، امن اور عدل کی نصرت کرے، اور بین الاقوامی برادری کی خدمت میں اپنا حصہ ڈالے۔
  3. ہم اسلامی تہذیب کے احیا کا ہدف حاصل کرنے اور امت کے بلند مفادات کے حصول کو ممکن بنانے کے لیے، فرق اور تنوع کے باوجود، امت کے ہر رکن کے کردار کی قدر کرتے ہیں۔
  4. ہم اپنے اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ بحیثیت مسلمان باہمی یکجہتی کو مضبوط بنائیں گے۔ اور ترقی اور جدت کی سمت میں امت کے ارادوں اور عزائم کو تازہ کرنے اور انہیں مہمیز دینے کے لیے اور امت کو درپیش مشکلات کے حل کی نئی تدابیر اختیار کرنے کے لیے اپنی تمام قوتیں اور وسائل بروئے کار لائیں گے، جن کی بنیاد اسلام کی اعتقادی اساسات پر اور اس راہنمائی پر ہوگی جو ہمیں قرآن کریم نے عطا کی ہے۔
  5. ہم اسلامی ممالک کی ترقیاتی ضروریات کی نشاندہی، معیشت و تجارت اور سرمایہ کاری، صنعت، سائنسی تحقیق اور اسلامی مالیات کی مصنوعات کے میدان میں مواقع پیدا کرنے، مختلف بنیادی شعبوں میں تکنیکی ترقی کو بڑھانے، بدعنوانی سے نمٹنے، دانشمندانہ طرز حکمرانی کے قیام، شناخت کے بحران، اور اسلاموفوبیا جیسے خطرات سے نمٹنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔
  6. ہم عہد کرتے ہیں کہ مختلف میدانوں میں تبادلۂ خیالات و خطابات، اور پالیسی سازی اور سفارشات کی حوصلہ افزائی کرنے والی جامع تدابیر پر کاربند رہیں گے۔ اس سلسلہ میں ہم عالم اسلام کے تمام موثر اور ذمہ دار اداروں کو، جن میں مسلمان علماء، سرکاری و غیر سرکاری تنظیمیں، کاروباری ادارے، رفاہی کام کرنے والی تنظیمیں اور افراد، ترقیاتی ایجنسیاں، تھنک ٹینکس، یونیورسٹیاں، اور سول سوسائٹی بحیثیت مجموعی سب شامل ہیں، دعوت دیتے ہیں کہ وہ سمٹ کے دوران پیش کیے جانے والے افکار میں شریک ہوں اور اس کی مستقبل کی سرگرمیوں اور بحثوں میں بھی اپنا حصہ ڈالیں۔
  7. ہم کوالالمپور سمٹ کے اہداف اور مقاصد کو پورا کرنے کا عہد کرتے ہیں، اور امت کی موجودہ اور آئندہ نسلوں کے لیے اسلامی تہذیب کے احیا کا مشترک عزم ہمیں متحد رکھے گا۔
   
2016ء سے
Flag Counter