(’’ینگ علماء لیڈرشپ پروگرام‘‘ کے تحت مولانا جہانگیر محمود کی صدارت میں ایک سیمینار سے خطاب)
بعد الحمد والصلوٰۃ! جب نوجوانوں میں بیٹھتا ہوں تو خوشی ہوتی ہے کہ نوجوانوں میں بیٹھا ہوا ہوں۔ ایک لطیفے سے گفتگو کا آغاز کروں گا۔ آج کل رواج ہے کہ سٹیج سیکرٹری صاحبان القاب کی لائن لگا دیتے ہیں۔ ایک جلسے میں گفتگو کرنی تھی تو سٹیج سیکرٹری صاحب جو اچھے خاصے نقیب تھے، انہوں نے مجھے بلانے کے لیے آٹھ دس لقب بولے۔ میں مائیک پر آیا تو کہا کہ اللہ کرے آپ کی سب باتیں ٹھیک ہوں مگر ایک بات مجھے پسند آئی ہے، آپ نے القاب میں کہا ہے کہ ’’اس تقریب کے دولہا‘‘، یہ بات یاد رہے گی۔ بہرحال جب نوجوانوں میں بیٹھتا ہوں تو خوشی ہوتی ہے۔ آج میری گفتگو کا عنوان ہے ’’علماء بطور سماجی قائد“ اس پر چند باتیں عرض کروں گا۔
سماج، معاشرہ، سوسائٹی کے حوالے سے اگر آپ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جائیں تو آپ کو بیسیوں دائرے ملیں گے جن میں سے دو تین کی بات کروں گا۔ ایک ہے سماج کی خدمت اور ایک ہے سماج کی قیادت و رہنمائی۔ یہ دونوں الگ الگ ہیں اور الگ الگ نہیں بھی ہیں۔ قیادت خدمت کرنے والا ہی کرتا ہے اور قیادت کا حق بھی اسی کو ہوتا ہے جو خدمت کرتا ہے۔ یہ مشکل ہوتا ہے کہ ڈائریکٹ حوالدار صحیح قیادت کر سکے۔ سماجی خدمت اور رہنمائی لازم و ملزوم ہیں۔ اس پر گفتگو کرنے سے پہلے میں رئیس الفقہاء حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا ایک ارشاد ذکر کروں گا جو پوری امت کے لیے نصیحت ہے اور صاحبِ مشکوٰۃ نے نقل کیا ہے۔ حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں: ’’من کان مستنا فلیسن بمن قد مات‘‘ ۔ کسی کو رول ماڈل اور مقتدیٰ بنانا ہے تو زندوں میں سے کسی کا انتخاب نہ کرو بلکہ جو چلے گئے ہیں ان کا انتخاب کرو۔ ’’فان الحی لا تومن علیہ الفتنۃ‘‘ زندہ کہیں بھی پہنچ جائے پھسلنے کا خطرہ بہرحال رہتا ہے۔
سماجی خدمت اور سماجی قیادت و رہنمائی کے حوالے سے دو تین باتیں آپ سے عرض کرنا چاہوں گا:
پہلی بات تو یہ ہے کہ بطور مُسلم ہمارا تعارف ہی سماجی خدمت ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بطور پیغمبر پہلا تعارف یہ ہے کہ غارِ حرا میں آپ پر وحی آئی تھی، یہاں سے آغاز ہوا تھا۔ وہ وحی سورۃ العلق کی ابتدائی پانچ آیات تھیں جو ہمارا پہلا سبق ہے، اس کا تعلق تعلیم اور مدرسے سے ہے۔ اس کے بعد حضور اکرمؐ کا دوسرا تعارف کیا ہے؟ چونکہ غار حرا کا سارا معاملہ اچانک اور خلافِ توقع ہوا تھا اس لیے آپؐ پر گھبراہٹ طاری تھی جو کہ فطری بات ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھبراہٹ کے عالم میں گھر گئے کہ آدمی پریشان ہوتا ہے تب بھی گھر جاتا ہے اور خوش ہوتا ہے تب بھی گھر جاتا ہے ’’ینقلب الٰی اھلہ مسرورا‘‘۔ آپؐ گھر گئے اور اہلیہ محترمہ کو قصہ سنایا کہ آج میرے ساتھ انوکھا واقعہ ہوا ہے اور یہ بھی فرمایا کہ ’’خشیت علٰی نفسی‘‘ کہ مجھے اپنے بارے میں ڈر لگنے لگا ہے۔ اچانک کوئی واقعہ پیش آ جائے تو ایسے خدشات لاحق ہو جاتے ہیں کہ پتا نہیں میرے ساتھ کیا ہوگا۔ چادر منگوائی کہ لیٹتا ہوں، تھوڑی دیر آرام کرتا ہوں۔ ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبرٰی رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے نبی کریمؐ کو یہ کہہ کر تسلی دی ’’کلا واللہ لا یخزیک اللہ ابدا‘‘ میرے سرتاج! آپ مت گھبرائیں، بخدا! اللہ تعالیٰ آپ کو ضائع نہیں کرے گا، آپ کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔ کیوں کہ ’’انک لتصل الرحم وتحمل الکل وتکسب المعدوم وتقری الضیف وتعین علی نوائب الحق‘‘۔ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، آپ بوجھ تلے دبے لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ آپ محتاجوں، ضرورت مندوں کو کما کر کھلاتے ہیں، آپ مسافروں اور مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور ناگہانی آفات و حادثات میں لوگوں کے مددگار بنتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ آپ کو ضائع نہیں کریں گے۔ بیوی آپؐ کو تسلی دے رہی ہے اور میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا معجزہ یہ گنا کرتا ہوں کہ خاوند کے اوصافِ حمیدہ بیوی بیان کر رہی ہے۔
یہ حضور اکرمؐ کا دوسرا تعارف ہے۔ جناب نبی کریمؐ کا بحیثیت نبی پہلا تعارف وحی ہے اور اس کے کچھ دیر بعد اسی دن کا دوسرا تعارف یہ ہے جو حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کے اوصاف ذکر کیے۔ وہ پانچ آیات ہیں اور یہ پانچ صفات ہیں۔ ان پانچوں جملوں کا خلاصہ یہ نکلے گا کہ ’’اللہ تعالیٰ آپ کو ضائع نہیں کریں گے اس لیے کہ آپ سماجی خدمت گزار ہیں‘‘۔ یہ جناب نبی اکرمؐ کا بطور رسول پہلے دن کا تعارف ہے۔
اللہ تعالیٰ نے نبوت کا مزاج بیان فرمایا ہے کہ نبوت کا مزاج صرف تعلیم نہیں، سماجی خدمت بھی ہے۔ نبوت کا مزاج بھی یہی ہے اور خلافت کا مزاج بھی یہی ہے۔ بخاری شریف کی روایت کے مطابق یہ جملے جو حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ نے حضور اکرمؐ کو تسلی دیتے ہوئے ان کے خدشے کو دور کرنے کے لیے عرض کیے تھے، بعینہٖ یہی جملے ایک کافر سردار نے حضرت صدیق اکبرؓ سے کہے تھے۔ جب مکہ مکرمہ میں مظالم کی انتہا ہو گئی اور بہت سے لوگ حبشہ ہجرت کر کے چلے گئے تو حضرت صدیق اکبرؓ نے بھی مجبور ہو کر ہجرت کا فیصلہ کر لیا اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی کہ میں بھی کہیں جا کر سر چھپا لوں، آپؐ نے اجازت دے دی۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت صدیق اکبرؓ نے سامانِ سفر تیار کیا، تیاری کر کے ہجرت کے قصد سے گھر سے نکل گئے۔ دو دن کا سفر کر لیا تھا کہ راستے میں برک غماد نامی جگہ پر آپؓ کو ایک کافر سردار ابن الدغنہ ملا، اس نے حضرت صدیق اکبرؓ سے پوچھا کہ کہاں جا رہے ہیں؟ آپؓ نے بتایا کہ گھر چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ اس نے پوچھا کیوں؟ تو اسے بتایا کہ مکہ کے لوگ عبادت نہیں کرنے دیتے، قرآن مجید نہیں پڑھنے دیتے، ظلم اور زیادتیاں کرتے ہیں، میں بے بس ہو گیا ہوں اور شہر چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ اس نے پوچھا کہاں جا رہے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ جہاں کہیں جگہ مل گئی چلا جاؤں گا۔ اس پر ابن الدغنہ نے کہا نہیں! میں آپ کو نہیں جانے دوں گا ’’مثلک لا یَخرج و لایُخرج‘‘ آپ جیسے آدمی شہر چھوڑ کر نہیں جایا کرتے اور آپ جیسے آدمیوں کو شہر چھوڑنے پر مجبور بھی نہیں کیا جاتا۔ کیوں کہ ’’انک لتصل الرحم وتحمل الکل وتکسب المعدوم و تقری الضیف وتعین علی نوائب الحق‘‘ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، آپ بوجھ میں دبے لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں ۔آپ محتاجوں، ضرورت مندوں کو کما کر کھلاتے ہیں، آپ مسافروں اور مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور ناگہانی آفات و حادثات میں لوگوں کے مددگار بنتے ہیں۔ جو جملے ام المؤمنین حضرت خدیجہؓ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بولے تھے، وہی جملے ابن الدغنہ نے حضرت صدیق اکبرؓ کے لیے بولے اور کہا کہ میں آپ کو شہر چھوڑ کر نہیں جانے دوں گا، آپ میری ضمانت پر واپس چلیں، مکہ والوں سے میں بات کر لوں گا۔
وہ حضرت صدیق اکبرؓ کو لے کر مکہ واپس آگیا اور حضرت صدیق اکبرؓ سے کہا کہ آپ گھر چلے جائیں، میں سرداروں سے بات کرتا ہوں۔ چنانچہ ابن الدغنہ نے چوہدریوں، وڈیروں سے مل کر انہیں کہا کہ یہ تم کیا کر رہے ہو؟ ابوبکر جیسے آدمی کو شہر چھوڑنے پر مجبور کر رہے ہو تو تمہارے پاس رہ کیا جائے گا؟ وہ تو سماجی خدمت گزار ہے، لوگوں کی خدمت کرتا ہے، مجبوروں کے کام آتا ہے، ان کے لیے محنت کرتا ہے، میں نے اس کو ضمانت دے دی ہے۔ ابوبکر آج کے بعد میری گارنٹی پر مکہ میں رہے گا۔
میں نے یہ واقعہ اس حوالے سے ذکر کیا ہے کہ جو تعارف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت خدیجۃ الکبرٰیؓ نے کرایا تھا وہی تعارف حضرت صدیق اکبرؓ کا ابن الدغنہ نے کرایا۔ میں اس کی تعبیر یوں کرتا ہوں کہ جو مزاج نبوت کا تھا وہی مزاج خلافت کا تھا۔ نبوت کا تعارف بھی یہی تھا اور خلافت کا تعارف بھی یہی تھا۔ نبوت کی سماجی اساس بھی یہی ہے اور خلافت کی اساس بھی یہی ہے۔ ہماری تو بنیاد ہی یہی ہے جسے ہم بھول گئے ہیں۔ ’’انک لتصل الرحم و تحمل الکل وتکسب المعدوم و تقری الضیف و تعین علی نوائب الحق‘‘۔ یہ ہم میں سے ہر ایک کا سبق ہے اور یہ سبق ہمیں یاد رکھنا چاہیے۔ اس سے آپ کے ذہن میں خاکہ آگیا ہوگا کہ سماجی خدمت گزار کسے کہتے ہیں؟ جناب نبی کریمؐ اور افضل البشر بعد الانبیاء حضرت ابوبکر صدیقؓ سے بڑا آئیڈیل کون ہوگا؟ اور یہ سماجی خدمت کے سب سے بڑے رول ماڈل ہیں۔
ایک دائرہ اور عرض کر دیتا ہوں۔ بڑی حساس اور نازک سی بات کرنے لگا ہوں۔ آپ جب کہیں جاتے ہیں تو جی چاہتا ہے کہ لوگ مجھے چودھری مانیں، حلقے میں میرا اقتدار قائم ہو، اور لوگ مجھے بڑا مانیں۔ اگر صلاحیت ہو تو یہ کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ حضرت یوسفؑ نے بادشاہ سے مانگا تھا ’’رب اجعلنی علٰی خزائن الارض‘‘ کہ مجھے وزیر خزانہ بنا دیں۔ اور حضرت سلیمانؑ نے اللہ تعالیٰ سے مانگا تھا ’’رب ھب لی ملکا لا ینبغی لاحد من بعدی‘‘۔ لیکن ایک ہے قیادت لینا اور ایک ہے اہل لوگوں کو قیادت دلوانا۔ ایک ہے بادشاہ بننا اور ایک ہے بادشاہ گر بننا۔ بادشاہ بننے سے بادشاہ گر بننا زیادہ بہتر ہے لیکن یہ صبر اور حوصلے کا کام ہے کہ بادشاہت چھوڑ کر بادشاہ گر بنا جائے۔ جبکہ اصل بندہ وہی ہوتا ہے جو بادشاہ گر بنے، اس پر ایک واقعہ عرض کرتا ہوں۔
بخاری شریف کی روایت میں ہے جب حضرت عمر فاروقؓ زخمی ہوئے اور طبیب نے بتا دیا کہ آپ کا زندہ رہنا بظاہر مشکل ہے، کوئی وصیت وغیرہ کرنی ہے تو کر لیں۔ حضرت عمرؓ نے جو وصیت فرمائی اس میں چھ بندوں کی فہرست دی کہ ان میں سے خلیفہ منتخب کیا جائے۔ چھ نہیں بلکہ ساڑھے چھ آدمی تھے۔ حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت زبیر بن العوام، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہم۔ جبکہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے بارے میں حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ میرا بیٹا مشورے میں شریک ہوگا لیکن اس کا ووٹ نہیں ہو گا۔ آج کی اصطلاح میں اسے آبزرور کہتے ہیں۔ یہ بزرگ آپس میں بیٹھے، اس موضوع پر گفتگو چلی کہ امیر المومنین کون ہونا چاہیے؟ ان میں سے تین دوسرے تین کے حق میں دستبردار ہو گئے۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیر بن العوامؓ۔ ایک حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے حق میں، ایک حضرت عثمانؓ اور ایک حضرت علیؓ کے حق میں دستبردار ہوگئے۔ تین باقی رہ گئے حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ۔ اب ان تینوں میں سے انتخاب ہونا ہے اور ان تین نے ہی کرنا ہے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے کمال کی بات فرمائی۔ دونوں سے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ مسئلہ پیچیدہ نہ ہو جائے اس لیے اگر آپ مجھے فیصلے کا اختیار دیں تو میں بھی دستبردار ہوتا ہوں۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے آپ جس کے حق میں چاہیں فیصلہ کر دیں۔ اب امیدوار دو رہ گئے اور منتخب کرنے والا ایک۔ یوں حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ بادشاہ گر بن گئے اور انہوں نے یہ پوزیشن حاصل کی کہ مجھے خلیفہ بنانے کا اختیار دے دیں۔
سماجی رہنمائی کے حوالے سے یہ بات آپ کے لیے بطور خاص ذکر کرتا ہوں کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو اختیار مل گیا کہ ان میں سے جس کو مرضی ہے خلیفہ بنا دیں، لیکن انہوں نے صرف اپنا اختیار استعمال نہیں کیا کہ مجھے اختیار ہے تو جو میری مرضی۔ ہم میں سے کسی کو کوئی اختیار حاصل ہو جائے تو کسی کو معاف نہیں کرتے۔ جبکہ سماجی قیادت اس کو کہتے ہیں کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے اختیار ملنے پر ازخود فیصلہ نہیں کیا، بلکہ فرماتے ہیں کہ حج کے بعد کا موقع تھا، تمام امراء اور کور کمانڈر مدینہ میں آئے ہوئے تھے، قوموں کے سردار موجود تھے۔ تین دن اور تین راتیں ایسے گزریں کہ مدینہ منورہ کا کوئی گھر نہیں تھا جس کا دروازہ میں نے نہیں کھٹکھٹایا اور کوئی صاحبِ حیثیت نہیں تھا جس سے میں نے مشورہ نہیں کیا۔ تین دن اور تین راتیں میں نے آنکھ میں نیند کا سرمہ نہیں لگایا، سب سے مشورہ کیا، تمام متعلقین کو اعتماد میں لیا۔
اختیار استعمال کرنا اپنی جگہ ہوتا ہے لیکن قیادت یہ ہے کہ اختیار کو صرف استعمال نہ کیا جائے بلکہ تمام متعلقہ لوگوں کو اعتماد میں لیا جائے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ پہلے دن ہی فیصلہ کر دیتے تو کسی نے انکار نہیں کرنا تھا، لیکن انہوں نے تمام متعلقہ طبقوں کو اور لوگوں کو اعتماد میں لیا۔ جب پوری قوم کو اعتماد میں لے لیا تو تیسرے دن صبح سب کو مسجد میں بلا لیا۔ اب چیف الیکشن کمشنر فیصلے کا اعلان کرنے لگا ہے۔ پہلے دونوں حضرات سے عہد لیا، پھر حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے کہا کہ ہر ممکن حد تک میں نے کوئی بندہ اور کوئی طبقہ نہیں چھوڑا جس سے مشورہ نہ کیا ہو اور جس کو اعتماد میں نہ لیا ہو۔ مگر ’’اے علیؓ! لوگوں کی رائے عثمانؓ کے حق میں زیادہ ہے، آپ اٹھیں اور عثمانؓ کی بیعت کریں‘‘۔ یہ نہیں کہا کہ یہ میرا فیصلہ ہے، بلکہ کہا کہ میں تین دن سے لگا ہوا ہوں، لوگوں کی رائے عثمانؓ کے حق میں ہے۔ چنانچہ حضرت علیؓ نے حضرت عثمانؓ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اس کو کہتے ہیں سماجی رہنمائی۔ میں نے سماجی خدمت کا دائرہ عرض کیا ہے کہ سماجی رہنمائی اور سماج کو اعتماد میں لے کر فیصلہ کرنا کیا ہوتا ہے۔ اس لیے علماء کرام سے گزارش ہے کہ ہر جگہ بادشاہ بننے کی کوشش نہ کریں بلکہ بادشاہ گر بننے کی کوشش کریں، کیونکہ ہر آدمی خود بادشاہ بننا چاہے گا تو بیڑہ غرق ہو جائے گا۔
تیسری بات یہ کہ میں نے گزارش کی تھی ’’فلیستن بمن قدمات‘‘ کسی کو رول ماڈل، آئیڈیل اور مقتدیٰ بنانا ہے تو زندوں میں سے کسی کا انتخاب نہ کرو بلکہ جو چلے گئے ہیں ان کا انتخاب کرو۔ ان میں سے ایک بزرگ کا حوالہ دینا چاہوں گا کہ سماجی خدمت کسے کہتے ہیں؟ بہت سی شخصیات ذہن میں ہیں، لیکن میں رول ماڈل کے طور پر ایک شخصیت کا ذکر کرنا چاہوں گا اور چاہوں گا کہ آپ ان کی سوانح عمری بطور خاص پڑھیں اس حوالے سے کہ سماجی خدمت گزار کیا ہوتا ہے؟ جس شخصیت کا ذکر کرنے لگا ہوں وہ ہیں حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ۔ آپؒ ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی میں ہمارے قائدین میں سے تھے۔ شاملی کے محاذ پر ہمارے جو اکابرین جنگِ آزادی میں شریک تھے ان میں حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی، حضرت مولانا حافظ محمد ضامن شہید، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی اور حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی رحمہم اللہ شامل ہیں۔
جب جنگ ختم ہو اور شکست ہو جائے، دشمن کا غلبہ ہو جائے تو پھر لوگ گھروں میں بیٹھ جاتے ہیں۔ اس موقع پر کچھ بزرگوں نے گھروں میں بیٹھے رہنے کی بجائے دو چار سال میں فیصلہ کیا کہ اب ہم زیرو پوائنٹ پر آگئے ہیں، تو یہیں سے ازسرنو کام شروع کرتے ہیں۔ چنانچہ دارالعلوم دیوبند، مظاہر العلوم سہارنپور، ہاٹ ہزاری اور مراد آباد کا مدرسہ زیرو پوائنٹ سے دوبارہ کام شروع کرنے کے لیے قائم ہوئے۔ جبکہ کچھ لوگوں نے فیصلہ کیا کہ ہمیں یہاں سے نکل جانا چاہیے اور کسی پُر امن جگہ بیٹھ کر مستقبل کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ چنانچہ ہمارے دو بزرگ حجاز مقدس جانے میں کامیاب ہوئے۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ اور حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ حجازِ مقدس چلے گئے کہ یہاں اب کچھ بھی نہیں رہا، سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔
مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کا ایک محاذ جہادِ آزادی کا تھا اور دوسرا محاذ علمی فکری جہاد کا تھا۔ انہوں نے مسیحی پادریوں کی یلغار کا سامنا کیا تھا۔ جب ۱۷۵۷ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی یہاں آئی تو اس نے سو سال میں یہاں کے ماحول، تہذیب و ثقافت اور عقیدے کو بدلنے کی پوری کوشش کی، لیکن وہ اس کوشش میں کامیاب نہیں ہوئے۔ ان کے ذہن میں اندلس تھا کہ ہندوستان کا حال بھی اندلس جیسا ہو جائے گا۔ اندلس میں مسلمانوں نے آٹھ سو سال حکومت کی، بادشاہ فرڈیننڈ اور ملکہ ازابیلا نے اس کو فتح کیا تو اس کے بعد اب وہاں کوئی مسلمان باقی نہیں ہے۔ سو سال کا عرصہ بھی نہیں لگا تھا، انہوں نے اندلس فتح کر کے حکم دے دیا تھا کہ یا ملک چھوڑ دو یا عیسائیت قبول کر لو، ورنہ قتل ہونے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ ہزاروں لوگ قتل ہو گئے اور ہزاروں لوگ ملک چھوڑ گئے۔ امریکہ (اور اس کے اردگرد ممالک) میں جو اسپینش نسل آباد ہے وہ اکثر یہی لوگ ہیں۔ یہ وہاں کی دوسری بڑی قوم سمجھی جاتی ہے اور امریکہ میں دوسری قومی زبان اسپینش ہے۔ لوگ اندلس سے بھاگ کر چلے گئے۔ کچھ سمندر میں ڈوب گئے، کچھ کنارے پہنچ گئے۔ جو بچ گئے ان کی اگلی نسل کی لمبی داستان ہے۔ صرف ایک جھلکی عرض کروں گا۔
میں ۱۹۹۰ء میں نیویارک گیا، وہاں گوجرانوالہ کے ہمارے دوست ڈاکٹر زاہد بٹ کا کلینک ہے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ لوگ یہاں چیک اپ کے لیے آتے ہیں، آپ آئے ہوئے ہیں تو میں آپ کا چیک اپ کر دیتا ہوں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ میں کلینک میں بیٹھا ہوا تھا۔ وہاں ایک اسپینش لڑکی تھی، اس نے خون چیک کرنے کے لیے خون نکالنے کے لیے سوئی چبھوئی تو میں نے کوئی دعا پڑھی۔ اس نے خون لے لیا اور چیک اپ ہوگیا۔ دوسرے دن ڈاکٹر زاہد نے مجھے کہا کہ آپ نے اس لڑکی کو کیا کہا تھا؟ میں نے کہا میں نے تو کچھ نہیں کہا۔ انہوں نے کہا کہ وہ کہتی ہے کہ مولوی صاحب نے کچھ پڑھا تھا، میری دادی مجھے گود میں لے کر وہ پڑھا کرتی تھی، اس کا مطلب ہے کہ اس کی دادی مسلمان تھی۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کا یہی پروگرام یہاں بھی تھا۔ اس نے سو سال زور لگایا، یہاں پادریوں کی یلغار تھی، علماء کرام نے ان پادریوں کا سامنا کیا۔ پادریوں کا سامنا کرنے والے علماء میں ایک مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ تھے۔ ڈاکٹر فنڈر بہت بڑا پادری، بڑا مناظر، منطقی اور معقولی تھا، علماء کو بہت تنگ کر رکھا تھا۔ یہاں اس کا مناظرہ مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ سے ہوا، اس نے شکست کھائی اور ترکی چلا گیا۔ ترکی کے سادہ مزاج لوگ تھے، اس نے ترکی کے علماء کو چیلنج کیا۔ خلافتِ عثمانیہ قائم تھی، خلیفہ عبد المجید حکمران تھے، وہ حج پر گئے اور وہاں کہا کہ ہمارے علاقے میں ایک پادری آیا ہوا ہے، اس نے بہت تنگ کر رکھا ہے، کوئی اس کے مقابلے کا مولوی ہو تو میرے ساتھ چلے۔ انہیں مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کے بارے میں بتایا گیا کہ ہندوستان سے ایک مولانا آئے ہوئے ہیں وہ اس پادری کو جانتے ہیں، انہیں لے جائیں۔ بہرحال سلطان عبدالمجید ان کو ساتھ لے گئے، فنڈر استنبول پہنچا ہوا تھا، مولاناؒ نے اس کا چیلنج قبول کیا، لیکن جب مناظرے کے لیے مولانا سامنے آئے تو مولانا کو دیکھ کر اس نے کہا کہ میں نے ہندوستانی مولوی سے مناظرہ نہیں کرنا، میں نے ترکی مولویوں کو چیلنج کیا تھا، اور پھر مناظرے سے بھاگ گیا۔ اس وقت سلطان عبد المجید کو پتہ چلا کہ میں کون سی شخصیت لایا ہوں۔ سلطان عبدالمجید نے مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ سے کتاب ’’اظہارالحق‘‘ لکھوائی۔ اظہار الحق کا ترجمہ دارالعلوم کراچی کے مولانا اکبر علی صاحبؒ نے ’’بائبل سے قرآن تک‘‘ کے نام سے کیا ہے، مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے اس کا مقدمہ لکھا ہے۔ مولانا رحمت اللہؒ کا ایک محاذ جہاد اور دوسرا محاذ مناظرہ کا تھا۔
مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کا اگلا اور تیسرا محاذ کیا تھا؟ غور کیجیے گا، میں مولوی کے کام کا دائرہ بتا رہا ہوں۔ وہ خلافتِ عثمانیہ کے زوال کا دور تھا۔ افراد، طبقات اور نسلوں میں یہ ہوتا ہے کہ ریورس گیئر کسی بندے کو لگ جائے تو وہ کسی کام کا نہیں رہتا اور کسی قوم کو لگ جائے تو وہ کسی کام کی نہیں رہتی ’’من نعمرہ ننکسہ فی الخلق‘‘۔ جب اللہ تعالیٰ کسی کو لمبی عمر دیتے ہیں تو ریورس گیئر لگا دیتے ہیں۔ سوانح نگار لکھتے ہیں، مولانا رحمت اللہؒ کی سوانح کا حصہ ہے کہ آپؒ نے ہندوستان سے جا کر مکہ مکرمہ میں رہتے ہوئے وہاں اس زوال کے دور میں چار کام کیے جو پہلے وہاں نہیں ہوتے تھے اور مکہ مکرمہ کے ماحول میں چار اصلاحات کیں:
پہلا کام یہ کیا کہ مکہ مکرمہ میں پوسٹ آفس کا نظام نہیں تھا، لوگوں کو خط ایک دوسرے تک پہنچانے میں دقت ہوتی تھی، اس وقت رواج تھا کہ لوگ آکر حرم کے دروازے پر خط رکھ دیتے تھے اور لوگ دیکھ کر اپنا خط لے لیتے تھے۔ ڈاکخانہ کا باقاعدہ سسٹم نہیں تھا۔ مکہ مکرمہ میں سب سے پہلے پوسٹ آفس کا نظام مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ نے بنایا۔ سعودی عرب کی تاریخ یہ بات تسلیم کرتی ہے کہ یہاں پوسٹ آفس کا نظام مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ نے جاری کیا ہے۔ آپؒ نے پوسٹ آفس کا نظام بنایا اور لوگوں کو اس کا عادی بنایا۔
دوسرا کام یہ کیا کہ مکہ مکرمہ میں زم زم کے علاوہ پینے کا پانی نہیں تھا۔ خلیفہ ہارون الرشید کی اہلیہ محترمہ زبیدہؒ نے اپنے دور میں مکہ مکرمہ تک آب رسانی کے لیے ایک نہر کھدوائی تھی جو نہر زبیدہ کہلاتی ہے، یہ اس لیے کھدوائی تھی کہ مکہ مکرمہ کے لوگوں کو پینے کا پانی ملے۔ مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کے دور میں وہ نہر خشک ہو چکی تھی، مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ نے اس کی کھدائی کرائی اور یوں صدیوں بعد مکہ مکرمہ تک واٹر سپلائی کا نظام بحال کیا، یہ بھی مولوی کا دائرہ کار ہے۔
مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ نے تیسرا کام یہ کیا کہ مکہ مکرمہ میں صنعت و حرفت اور صنعتکاری کے سکول نہیں تھے۔ وہاں سب سے پہلا سکول مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ نے قائم کیا جس میں بچوں کو مختلف صنعت و حرفت کے کام سکھائے جاتے تھے۔
آپؒ کا چوتھا کام جس کا ہم ذکر کیا کرتے ہیں مگر پہلے تین کاموں کا ذکر نہیں کرتے، وہ مدرسہ صولتیہ قائم کرنا ہے۔ مولانا رحمت اللہؒ مدرسہ صولتیہ کے بانی ہیں۔ صولت بیگم بھوپال کی والیہ اور ملکہ تھی، اس نے اپنے خرچ پر یہ مدرسہ بنوایا تھا۔ اس مدرسے میں وہی تعلیم دی جاتی تھی جو یہاں مدارس میں دی جاتی ہے۔ ہندوستان میں مولانا محمد قاسم نانوتویؒؒ اور دیگر حضرات نے مدارس بنائے اور مکہ مکرمہ میں مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ نے مدرسہ بنایا۔ اگرچہ اب مدرسہ صولتیہ کی وہ شکل نہیں ہے، مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کے فرزند مولانا محمد سلیم ان کے جانشین تھے، جبکہ میں ان کے فرزند مولانا شمیمؒ کے دور میں وہاں کئی دفعہ گیا ہوں۔
میں نے مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کے چار کام ذکر کیے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی دیکھیے کہ سعودی عرب میں قرآن مجید حفظ کا نظام نہیں تھا، تراویح میں صرف مسجد حرام اور مسجد نبوی میں قرآن پاک سنایا جاتا تھا، باقی پورے سعودیہ میں ’’الم تر کیف ‘‘ چلتی تھی۔ سعودی عرب میں سب سے پہلا حفظ کا مدرسہ ہمارے گکھڑ راہوالی کے سیٹھی محمد یوسفؒ نے بنوایا۔ آپؒ نو مسلم کے بیٹے تھے جو ہندو سے مسلمان ہوئے تھے۔ میں ان کی فیکٹری میں دو سال خطیب رہا ہوں۔ ان کا یہ خاص کام تھا کہ کراچی سے لے کر مانسہرہ تک پورے پاکستان میں مدرسے بنواتے تھے، مدرسین کو تنخواہیں دیتے تھے۔ ایک دفعہ میں نے ان کے سیکرٹری ابراہیم خان سے پوچھا کہ آپ کے ماتحت کتنے مدرسے ہیں؟ اس نے بتایا کہ گیارہ سو مدرسے ہیں جن کو ہم چلا رہے ہیں۔ کہیں پوری اور کہیں آدھی تنخواہ ہم دیتے ہیں۔ حرم مکہ میں حفظ کا سب سے پہلا مدرسہ سیٹھی محمد یوسف مرحوم نے اپنے خرچے پر بنوایا، جس میں پہلے شاگرد امامِ حرم شیخ السبیلؒ تھے۔ سیٹھی محمد یوسفؒ یہاں سے مدرسہ کا خرچہ بھیجتے تھے، میں اس کا عینی گواہ ہوں۔ جب بہت سے مدرسے ہوگئے تو سعودی گورنمنٹ کو خیال آیا کہ یہ باہر سے آکر کر کام کر رہے ہیں، حالانکہ یہ کام ہمارا ہے تو پھر انہوں نے یہ کام سنبھال لیا۔
گکھڑ کا مدرسہ بھی سیٹھی محمد یوسفؒ نے بنوایا۔ ملک کے بڑے مالدار لوگوں میں سے تھے۔ گکھڑ میں مدرسہ نہیں تھا، یہ مدرسہ کیسے بنا اور مدارس بنانے میں سیٹھی محمد یوسفؒ کا طریقہ کار کیا تھا، اس کا ذکر کر دیتا ہوں ۔ غالباً ۱۹۵۷ء کی بات ہے مجھے وہ منظر ابھی تک یاد ہے کہ سیٹھی محمد یوسفؒ گکھڑ تشریف لائے۔ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ سے کہا کہ جمعہ کے خطبہ سے پہلے دس منٹ مجھے دیں۔ انہوں نے فرمایا کہ ٹھیک ہے۔ خطبہ سے پہلے سیٹھی محمد یوسفؒ کھڑے ہوئے اور اعلان کیا کہ مولانا کے علاوہ آپ نمازیوں میں سے کوئی بھی صحیح تلفظ کے ساتھ قرآن مجید کی ایک سورت سنا دے تو پچاس روپیہ انعام دوں گا۔ اس دور کے پچاس روپے آج کے ہزاروں سے کم نہیں ہوں گے۔ یہ انعام مقرر کیا، لیکن کوئی مقامی آدمی صحیح تلفظ کے ساتھ نہیں سنا سکا تو انہوں نے کہا کہ قرآن مجید کو صحیح تلفظ کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے، اس لیے یہاں مدرسہ بناؤ، قاری صاحب کی تنخواہ میں دوں گا۔ یہ ان کا طریقہ کار تھا۔ یوں گکھڑ میں مدرسہ بنا اور پہلے قاری اعزاز الحق صاحبؒ ہمارے استاد ہیں۔ مجھے والد محترمؒ نے چوتھی جماعت سے اٹھایا اور ان کے پاس حفظ کے لیے مدرسہ میں بٹھا دیا اور ابھی تک الحمد للہ وہیں بیٹھا ہوں۔
بحمد اللہ خاندان کا پہلا حافظ میں ہوں۔ ۱۹۶۰ء میں میرا حفظ مکمل ہوا تھا۔ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ حافظ نہیں تھے، آپؒ سے کوئی پوچھتا کہ آپ حافظ ہیں؟ تو وہ فرماتے کہ میں حافظوں کا باپ ہوں۔ کافی عرصہ پہلے ایک دن ہم نے گننا چاہا کہ والد محترمؒ کے خاندان میں کتنے حافظ ہیں تو اس وقت تینتالیس حافظ تھے۔ ابھی دو ہفتے پہلے میرے چھوٹے بھائی مولانا عبد القدوس خان قارن کے پوتے عکرمہ نے حفظ مکمل کیا، میں نے اس کے والد حافظ نصر الدین خان عمر سے پوچھا کہ بیٹا! شمار کیا ہے کہ اس کا کتنا نمبر ہے؟ تو اس نے بتایا کہ ہمارے خاندان میں حافظ ساٹھ سے بڑھ گئے ہیں۔ اس لیے والد محترمؒ کو حق تھا کہ کہتے ’’میں حافظوں کا باپ ہوں‘‘۔ میں نے عکرمہ کے آخری سبق کی تقریب میں تحدیث نعمت کے طور پر کہا کہ مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی اولاد میں پہلا حافظ میں ہوں اور ساٹھواں حافظ یہ ہے۔
میں نے آپ کے سامنے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا ارشاد نقل کیا کہ رول ماڈل، آئیڈیل، مقتدیٰ ان کو بناؤ جو ایمان پر چلے گئے ہیں، زندہ میں سے کسی کو آئیڈیل نہ بناؤ۔ اور میں نے اس پر بطور مقتدیٰ ایک شخصیت کا ذکر کیا ہے کہ اگر کفر کے مقابلے، سماجی خدمت اور سماجی رہنمائی کے حوالے سے اور خدمت کے میدانوں کے حوالے سے کسی کو فالو کرنا ہے تو مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کی سوانح کا مطالعہ کریں۔ میں نے عرض کیا ہے کہ علماء کام صرف نمازیں پڑھانا اور تدریس کرنا نہیں ہے بلکہ سماج کی خدمت اور سماج کی ضروریات کے کاموں میں حسبِ موقع شریک ہونا بھی علماء کام ہے۔ علماء کا کام مناظرہ اور جہاد کرنا بھی ہے، لیکن ڈاکخانہ قائم کرنا، نہریں کھدوانا، واٹر سپلائی، صنعت و حرفت سکھلانا اور مدرسہ و سکول بنانا بھی علماء کے کرنے کے کام ہیں۔ سماج کی رہنمائی بھی اور سماج کی خدمت بھی علماء کرام کے بنیادی کاموں میں سے ہے۔ اللہ رب العزت مجھے اور آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین!