بعد الحمد والصلوٰۃ۔ یتیم وہ ہے جس کے ماں باپ دونوں، یا باپ اس کے بالغ ہونے سے پہلے فوت ہو جائیں۔ اب ظاہر بات ہے کہ ماں باپ نہیں ہیں تو کون سنبھالے گا؟ اس لیے رشتہ داروں کو تلقین کی گئی ہے کہ ان کے ساتھ زیادتی نہ کرو، ان کے مال کی حفاظت کرو، ان کی پرورش کرو۔ جیسے چچا ہے، دادا ہے، بڑا بھائی ہے۔ قرآن کریم نے جہاں یتیم کے حقوق کے بیان کرتے ہوئے مختلف مسائل بیان کیے ہیں، وہاں ایک بات یہ بیان کی ہے کہ ان کے اموال ان کی ملکیت ہیں، لیکن بالغ ہونے سے پہلے ان کے حوالے نہیں کرو کیونکہ بچے ہیں، کھا پی جائیں گے، ختم کر دیں گے۔
سرپرست کی ذمہ داری ہے کہ ’’ولا تؤتوا السفہاء اموالکم التی جعل اللہ لکم قیاماً وارزقوہم فیھا واکسوہم وقولوا لہم قولا معروفا‘‘ (النساء ۵) اموال بے وقوفوں کے حوالے نہیں کرو، اس مال کے ذریعے تمہاری زندگی کا نظام چلتا ہے، خرچہ دیتے رہو، ان کو روٹی، کپڑا، مکان دو، اگر مانگیں تو انکار نہیں کرو بس اچھے طریقے سے ٹال دو۔ یعنی جس کے بارے میں سرپرست کو محسوس ہو کہ یہ رقم ضائع کر دے گا، بیچ دے گا، کھا جائے گا، تو اس اس کا مال اس کے حوالے نہ کرے۔
اور پھر بالغ ہونے کے بعد بھی تسلی کرو ’’فان اٰنستم منھم رشدًا فادفعوا الیھم اموالھم‘‘ (النساء ۶) بچہ بالغ ہو گیا ہے تو اس کی جائیداد ہے، اس کی زمین ہے، اس کا کاروبار ہے، اگر یہ سمجھتے ہو کہ وہ سنبھال لے گا تو اس کے حوالے کرو، ورنہ نہیں کرو۔ یہ عام ضابطہ بیان کیا ہے۔
یہ قرآن کریم نے تین آداب بیان کیے ہیں سرپرست کے لیے کہ (۱) مال اس کے حوالے نہ کرو (۲) خرچہ پورا دیتے رہو (۳) مانگنے پر انکار نہیں کرو، اچھے طریقے سے ٹال دو۔ یہاں بعض فقہاء نے بڑی نفیس بحث کی ہے کہ یہ جو گھر کے سربراہ سے کہا گیا ہے اگر ضائع ہونے کا خطرہ ہو تو مال ان کی ملکیت ہونے کے باوجود ان کے حوالے نہ کرو، تو کیا ریاست کو یہ حق حاصل ہے کہ جو لوگ پیسے ضائع کر رہے ہوں، ان کے اموال کنٹرول کر لے، ان کے حوالے نہ کرے، اور خرچہ خود دے؟
گھر کا سربراہ باپ ہے، اس کے لیے تو قرآن پاک کا یہ حکم ہے۔ قوم کا سربراہ کون ہے؟ کیا ریاست کے سربراہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ کون لوگ مال کو ضائع کر رہے ہیں، فضول خرچی کر رہے ہیں، معاملہ سنبھالنے کے قابل نہیں، تو ان کے مال کو کنٹرول کر کے ان کا خرچہ وغیرہ دیتے رہیں اور مال ان کے حوالے نہ کیا جائے۔ کیا ریاست کو یہ حق حاصل ہے؟
فقہاء فرماتے ہیں کہ خاندان میں اگر باپ کو یہ حق حاصل ہے تو ریاست میں حکومت کو یہ حق حاصل ہے۔ یہ معیشت کی تفصیلی بحث ہے۔ اسلامی ریاست ہو تو اس کا یہ حق ہے کہ (حسبِ حالات) لوگوں کے مال ضبط کر لے اور حساب سے تقسیم کرے۔ یہ جتنے بھی عیاش لوگ ہیں یہ سب ’’سفہاء‘‘ ہیں۔ یعنی ایک طرف غریب بھوکے مر رہے ہیں اور دوسری طرف یہ لوگ عیاشیاں کر رہے ہیں، یہ بے وقوف ہیں جو مال ضائع کر رہے ہیں۔ آج کے ماحول میں یہ بھی مسائل کے حل کا ایک طریقہ ہے کہ قرآن کریم کے اس حکم پر عمل کیا جائے، لیکن شرط یہ ہے کہ ریاست ناانصافی نہ کرے، ریاست شریف ہو۔ ایسی ریاست کو یہ حق حاصل ہے کہ عیاشی کرنے والوں کے مال ضبط کرے، ضرورت کا خرچہ ان کو دے، باقی مال قوم پر خرچ کرے، اور ’’وقولوا لھم قولاً معروفا‘‘ مانگنے پر انکار بھی نہ کرے، تسلی نہ ہونے تک ٹالتی رہے۔ اللھم صل علیٰ سیدنا محمد۔