افغانستان میں تین حکومتیں اور عالمی قوتوں کی حکمتِ عملی

   
ستمبر ۱۹۹۶ء

روزنامہ جنگ لاہور نے ۱۸ اگست ۱۹۹۶ء کی اشاعت میں وائس آف جرمنی کے حوالے سے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ افغانستان میں ربانی حکومت کے احتجاج کو نظرانداز کرتے ہوئے دو امریکی فرموں نے جنرل رشید دوستم کے ساتھ تیل کی تلاش اور ازبکستان سے پاکستان تک تیل کی پائپ لائن تعمیر کرنے کے معاہدے کیے ہیں اور اس پاپ لائن کے تحفظ کے لیے انہوں نے طالبان کے ساتھ بھی معاہدہ طے کر لیا ہے۔

افغانستان کی صورتحال اس وقت یہ ہے کہ وہاں تین الگ الگ حکومتیں قائم ہیں:

  1. کابل میں پروفیسر برہان الدین ربانی اور انجینئر گلبدین حکمت یار کی حکومت ہے جن کے زیراثر سات یا آٹھ صوبے بتائے جاتے ہیں۔
  2. شمال میں مزار شریف پر جنرل رشید دوستم حکمران ہیں اور سات صوبے ان کی تحویل میں ہیں۔
  3. جبکہ جنوب اور مغرب کے پندرہ صوبے طالبان کی تحویل میں ہیں اور قندھار ان کا دارالحکومت ہے۔

امریکہ اور اقوامِ متحدہ نے ربانی حکومت کو باقاعدہ حکومت کے طور پر تسلیم کیا ہوا ہے لیکن اس کے باوجود دوستم اور بعض امور میں طالبان کے ساتھ بھی الگ الگ معاملات طے کرنے کی کوششیں جاری ہیں، اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ بہادر افغانستان کی موجودہ منقسم شدہ صورتحال کو اپنے مفاد میں سمجھتے ہوئے اسے برقرار رکھنے میں دلچسپی رکھتا ہے اور خاص طور پر جنرل رشید دوستم کی حکومت کو مضبوط و مستحکم دیکھنا چاہتا ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ افغانستان میں روسی جارحیت کے موقع پر امریکہ نے روس کو زچ کرنے کے لیے افغانستان کے حریت پسند مجاہدین کی دل کھول کر امداد کی، لیکن روسی فوجوں کی واپسی کے بعد جب کابل پر مجاہدین کی نظریاتی اسلامی حکومت قائم ہونے کے امکانات واضح ہوئے تو امریکہ اور روس دونوں نے مصالحت کر کے اس کا راستہ روکنے کے لیے سازشوں کا آغاز کر دیا۔ دونوں کو یہ خطرہ ہے کہ کابل میں اگر مستحکم اسلامی حکومت قائم ہو گئی تو وہ نہ صرف پاکستان اور جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک پر اثرانداز ہو گی بلکہ وسطی ایشیا کی نو آزاد مسلم ریاستیں بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکیں گی۔ اس لیے امریکہ اور روس دونوں کی مشترکہ کوشش یہ ہے کہ کابل میں مجاہدین کی کوئی مشترکہ اور مضبوط نظریاتی حکومت نہ بن سکے، بلکہ کابل اور طالبان کی کشمکش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جنرل رشید دوستم کو زیادہ سے زیادہ مستحکم کر دیا جائے جو جہادِ افغانستان کے دوران کمیونسٹ جرنیل کے طور پر مجاہدین کے خلاف مسلسل نبرد آزما رہے ہیں اور آخر میں کابل کے قبضہ میں احمد شاہ مسعود کے ساتھ تعاون کر کے وہ مزار شریف سمیت شمال کے بعض اہم علاقوں میں اپنا قبضہ برقرار رکھنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔

جنرل دوستم کو یہ اہمیت حاصل ہے کہ وہ آزاد خیال مسلمان ہونے کی وجہ سے مغربی مفادات کے زیادہ بہتر محافظ بن سکتے ہیں، اور ان کے زیر تسلط علاقہ افغانستان اور وسطی ایشیا کے درمیان واقع ہے جو کسی بھی وقت ’’بفر اسٹیٹ‘‘ کی حیثیت اختیار کر سکتا ہے۔ اس لیے وہ مغربی قوتوں کی امیدوں کا مرکز بن گئے ہیں اور ان کے استحکام و ترقی میں سب سے زیادہ دلچسپی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں وائس آف جرمنی کی مذکورہ رپورٹ کا یہ حصہ بطور خاص قابلِ توجہ ہے کہ

’’دوستم کا علاقہ امریکہ کی نظر میں ایک ایسی مضبوط دیوار ثابت ہو گا جو کہ افغانستان سے اسلامی بنیاد پرستی کو وسطی ایشیا میں داخل ہونے سے روکے گی۔‘‘

ہمارا خیال ہے کہ افغانستان کے بارے میں امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی موجودہ حکمتِ عملی کی تہہ تک پہنچنے کے لیے یہی بات کافی ہے۔ اس پس منظر میں وہ قوتیں جو ربانی حکومت اور طالبان کے درمیان مصالحت کے لیے کسی درجہ میں بھی کوئی کردار ادا کر سکتی ہیں انہیں اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے متحرک ہونا چاہیے، کیونکہ جہادِ افغانستان کے منطقی نتائج حاصل کرنے اور افغانستان کو امریکہ دوستم گٹھ جوڑ کے اثرات سے محفوظ رکھنے کا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter