اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ڈپٹی گورنر جناب سعید احمد نے گزشتہ دنوں جامعۃ الخیر لاہور کے دورہ کے موقع پر ایک نشست سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ سودی بینکاری کے متبادل شرعی بینکاری کا نظام موجود ہے لیکن اسے چلانے کے لیے تربیت یافتہ حضرات کی تیاری کا کام دینی مدارس کو کرنا ہوگا۔ اگر دینی مدارس اس کے لیے تربیت یافتہ حضرات تیار کرنے کا کام سنبھال لیں تو غیر سودی شرعی بینکاری کا نظام رائج کیا جا سکتا ہے۔
جہاں تک غیر سودی بینکاری کے قابل عمل ہونے بلکہ بعض حوالوں سے سودی بینکاری سے زیادہ محفوظ اور نفع بخش ہونے کا تعلق ہے اس میں اب دو رائے نہیں رہیں اور دنیا کے مختلف حصوں میں اس کے کامیاب تجربہ نے غیر سودی بینکاری کے قابل عمل ہونے کی تصدیق کر دی ہے۔ البتہ یہ غیر سودی بینکاری کس حد تک اسلامی ہے یا اسے کس حد تک شرعی بنایا جا سکتا ہے اس کے بارے میں بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان میں غیر سودی اسلامی بینکاری کا جو تجربہ ایک عرصہ سے جاری ہے وہ مسلسل آگے بڑھ رہا ہے اور پرائیویٹ سیکٹر کے ساتھ ساتھ ریاستی بینکوں میں بھی اس کے لیے حوصلہ افزائی کے رجحانات سامنے آرہے ہیں۔ جبکہ علمی حلقوں میں اس کے شرعی یا غیر شرعی ہونے پر بحث بھی موجود ہے۔
چونکہ کم و بیش دو صدیوں تک استعماری قوتوں کی نوآبادیات رہنے والے مسلمان ملکوں کے معاشی نظام مغربی فلسفہ و فکر پر استوار چلے آرہے ہیں اور سودی نظام و مزاج ایک لحاظ سے مستحکم دکھائی دے رہا ہے اس لیے اس سے نکلنے اور اس کی جگہ نیا نظام لانے کے لیے عبوری تجرباتی عمل سے گزرنا بہرحال ضروری امر ہے۔ کیونکہ کسی بھی دلدل سے نکلنے کے لیے واپسی کے سفر میں اسی دلدل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس لیے اس تجربہ کی ضرورت و اہمیت اور اس میں پیش رفت کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن چونکہ یہ تجرباتی عمل ہے اور اس نے ارتقائی مراحل سے گزر کر ہی اپنی اصل منزل تک پہنچنا ہے۔ اس لیے اس کا جائزہ لیتے رہنا، اس کی کمزوریوں اور نقائص کی نشاندہی کرنا اور سنجیدہ علمی و فنی نقد کے ذریعے اسے بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کرنا بھی اس سعی و جہد کا ناگزیر تقاضہ ہے۔ البتہ اس نقد و جرح اور تجزیہ و تبصرہ کو اس کار خیر میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔ بلکہ اسے اس کی بہتری اور ارتقا کے لیے معاون کا کردار ادا کرنا ہوگا۔ مگر ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک جناب سعید احمد کی گفتگو کا دوسرا پہلو ہمارے خیال میں زیادہ توجہ کا مستحق ہے کہ شرعی معاشی نظام کی ترویج کے لیے تربیت یافتہ رجال کار کی فراہمی کہاں سے ہوگی؟ ان کا یہ کہنا ہمارے لیے ایک بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے کہ شرعی بینکاری کو چلانے کے لیے تربیت یافتہ حضرات کی کھیپ دینی مدارس کو تیار کرنی چاہیے، کیونکہ نظام شرعی ہو اور اس کو چلانے والے افراد شرعی تعلیم و تربیت سے بہرہ ور نہ ہوں تو اس کی کامیابی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اور ہم گزشتہ سات عشروں سے اسی مخمصے کا شکار چلے آرہے ہیں۔
دینی مدارس کا موجودہ نظام مجموعی طور پر اب تک اس دائرہ میں مصروف عمل ہے کہ عام مسلمان کی دینی تعلیم، اسلامی تہذیب و ثقافت، مذہبی عقائد و اعمال اور اقدار و روایات کے ساتھ وابستگی قائم رہے۔ اور ہمارے معاشرہ میں مسجد و مدرسہ کے نظام و ماحول کو قائم رکھنے کے لیے امام، خطیب، مدرس، قاری، مفتی اور دینی و روحانی مربی دستیاب ہوتے رہیں۔ الحمدللہ دینی مدارس اپنے ان اہداف اور مقاصد میں پوری طرح کامیابی کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ جبکہ قومی زندگی کے دیگر شعبوں کے لیے باقاعدہ تعلیم و تربیت کے ذریعہ تیار ہونے والے رجال کار کی فراہمی ان مدارس کے اہداف میں شامل نہیں ہے اور نہ ہی یہ ان کے نصاب و نظام کا حصہ ہیں۔
ایک عجیب سی صورت حال اس وقت ہمارے سامنے ہے۔ ملک میں شرعی نظام کا نفاذ صرف ہمارا مطالبہ ہی نہیں بلکہ قومی ضرورت ہے۔ لیکن انتظامیہ، عدلیہ، معیشت اور دیگر شعبوں کے لیے اس کے مطابق رجال کار کی فراہمی کا کوئی نظام کسی سطح پر موجود نہیں ہے۔ نہ ریاستی تعلیمی ادارے اسے اپنے اہداف میں شامل کرنے کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی دینی مدارس کے موجودہ نصاب و نظام میں اس کی کوئی گنجائش دکھائی دے رہی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ یہ ذمہ داری انہی دو اداروں میں سے کوئی قبول کرے گا تو بات آگے بڑھے گی۔ ورنہ اگر ریاستی ادارے اور دینی مدارس میں سے کوئی بھی نفاذ شریعت کے لیے رجال کار کی فراہمی کو اپنے نظام کا حصہ بنانے کے لیے تیار نہیں ہوگا تو قومی زندگی کے کسی بھی شعبہ میں شرعی احکام و قوانین کے نفاذ کی کوشش کامیاب نہیں ہو پائے گی۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ مالاکنڈ ڈویژن میں جب صوفی محمد صاحب نے عوام کا جم غفیر سڑکوں پر لا کر پر جوش احتجاجی تحریک کے ذریعے حکومت کو نفاذ شریعت آرڈیننس نافذ کرنے پر مجبور کر دیا تھا تو ایک ریگولیشن کا صوبائی حکومت کی طرف سے اعلان ہوا تھا، جس میں نفاذ شریعت کا حصہ صرف اتنا ہی تھا کہ سیشن جج کو ضلع قاضی اور سول جج کو تحصیل قاضی کا نام دے دیا گیا تھا۔ اگر خدانخواستہ نفاذ شریعت کی جدوجہد کا ہدف صرف یہی ہے تو یہ شوق بار بار پورا کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر نفاذ شریعت کا مقصد قومی زندگی کے مختلف شعبوں میں شریعت اسلامیہ کے قوانین و احکام کا نفاذ اور ان پر کامیابی کے ساتھ عملدرآمد ہے تو اس کے لیے رجال کار کی فراہمی کا کوئی نہ کوئی نظام قائم کرنا ہوگا۔ اور موجودہ حالات میں اس کی قابل عمل صورت یہی دکھائی دے رہی ہے کہ دینی مدارس اس قومی ضرورت کی تکمیل کو اپنے نظام و نصاب کا حصہ بنا لیں اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ڈپٹی گورنر جناب سعید احمد کی اس فرمائش کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر قومی شعبوں کے لیے رجال کار کی فراہمی کے بارے میں سوچیں۔
جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور میں جب سینٹ آف پاکستان میں مولانا سمیع الحق اور مولانا قاضی عبد اللطیفؒ کے پیش کردہ ’’شریعت بل‘‘ کے لیے ملک بھر میں تحریک چل رہی تھی تو گوجرانوالہ ڈویژن کے کمشنر جناب غلام مرتضیٰ پراچہ نے ایک محفل میں مجھ سے کہا تھا کہ
’’مولوی صاحب! اگر میری سیٹ پر بٹھانے کے لیے آپ کے پاس کوئی متبادل آدمی موجود ہے تو شریعت کے نفاذ کی بات کریں ورنہ اپنا اور لوگوں کا وقت خواہ مخواہ ضائع نہ کریں۔‘‘
لیکن کیا ہم غلام مرتضیٰ پراچہ اور جناب سعید احمد کی اس بات پر توجہ دینے کے لیے کبھی تیار بھی ہوں گے؟