امریکی نائب وزیرخارجہ کو ’’طالبانائزیشن‘‘ کا خطرہ

   
اکتوبر ۲۰۰۰ء

روزنامہ نوائے وقت لاہور ۳ ستمبر ۲۰۰۰ء کے مطابق امریکہ کے نائب وزیرخارجہ مسٹر کارل انڈرفرتھ نے کہا ہے کہ وہ طالبان کی حکومت کو صرف امریکہ اور دوسرے ممالک کے لیے ہی خطرہ نہیں سمجھتے بلکہ پاکستان کے لیے بھی خطرہ قرار دیتے ہیں کیونکہ انہیں تشویش ہے کہ پاکستان بھی طالبانائزیشن کا شکار ہو کر ایک زیادہ بنیاد پرست ملک بن سکتا ہے۔

امریکی حکمرانوں کے اس خدشے اور خطرہ کا اصل پس منظر یہ ہے کہ

  • طالبان حکومت کے اکثر اہلکار چونکہ پاکستان کے دینی مدارس کے تعلیم یافتہ ہیں، اور ان کے پاکستان کے دینی حلقوں اور عوام کے ساتھ نہ صرف خوشگوار تعلقات ہیں بلکہ باہمی محبت و احترام اور تعاون و استفادہ کا رشتہ بھی موجود ہے،
  • اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی امریکی حکمرانوں کے لیے مسلسل پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے کہ پاکستان سے جو لوگ افغانستان جاتے ہیں اور وہاں کے حالات کا مشاہدہ اپنی آنکھوں سے کرتے ہیں وہ طالبان کی دینداری، سادگی، قناعت، عوام دوستی اور کفایت شعاری کے ساتھ ساتھ ان کی انتظامی صلاحیتوں اور وہاں کے ماحول میں شرعی قوانین کے نفاذ کی برکات دیکھ کر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے۔
  • حتٰی کہ جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب جیسے حضرات جو ناقدانہ نظر سے وہاں کے حالات کا مشاہدہ کرنے جاتے ہیں، واپس آ کر ان کے لیے بھی طالبان کے طرزِ حکومت کو سراہے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتا۔

اس لیے امریکی حکمران یہ محسوس کر رہے ہیں کہ پاکستان کے عوام میں طالبان حکومت کے بارے میں جو مثبت جذبات دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں، ان کا نتیجہ یہ بھی نکل سکتا ہے کہ پاکستان کے عوام اپنے ملک میں حکمرانی اور نظم و نسق کے حوالے سے اسی قسم کی قیادت کو سامنے لانے کے بارے میں سوچنے لگیں، جو طالبان کی پیروی کر کے ملک کو بداَمنی اور عالمی طاقتوں کی ذہنی غلامی سے نجات دلا سکتی ہو۔ مسٹر کارل انڈرفرتھ کے مذکورہ بیان میں یہی خوف جھلک رہا ہے اور امریکی حکمران پاکستان کے حکمران طبقات اور اداروں کے ذہنوں پر بھی یہی خوف مسلط کر کے انہیں پاکستان میں طالبان کے اثرات کو کم اور محدود کرنے کے لیے سخت اقدامات پر آمادہ کرنے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن ہمارے خیال میں اب ایسا کرنا ممکن نہیں رہا کیونکہ پاکستان کے دینی حلقوں میں طالبانائزیشن کا شعور دن بدن بڑھ رہا ہے اور عوام بھی جاگیرداروں، سرمایہ داروں، جرنیلوں اور بیوروکریٹس پر مشتمل اسٹیبلشمنٹ کے طرزِ حکومت اور طالبان کے اندازِ حکمرانی میں زمین و آسمان کے فرق کو کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اس لیے اگر ملک کے عوام نے طالبانائزیشن کو اپنے دکھوں کا مداوا سمجھتے ہوئے اسے خوش آمدید کہنے کا فیصلہ کر لیا تو ان شاء اللہ امریکی حکمرانوں کا یہ واویلا ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکے گا۔

   
2016ء سے
Flag Counter