تبلیغی جماعت کا سالانہ عالمی اجتماع جمعرات کی شام کو رائے ونڈ میں شروع ہو گیا ہے۔ اس سال اجتماع کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے، اس لیے ملک کے مختلف حصوں کے حضرات دو الگ الگ پروگراموں کے مطابق اجتماع میں شریک ہوں گے۔ بعض علاقوں کے حضرات آج بھی رائے ونڈ پہنچ رہے ہیں، ان کا اجتماع اتوار کی صبح تک جاری رہے گا اور حسبِ سابق ظہر سے قبل اجتماعی دعا کے بعد دعوت و تبلیغ کے لیے تشکیل پانے والی جماعتیں اپنی اپنی منزلوں کی طرف روانہ ہو جائیں گی، جبکہ ملک کے دوسرے علاقوں کے لوگ ۱۵ نومبر جمعرات کی شام تک رائے ونڈ میں جمع ہوں گے اور ۱۸ نومبر اتوار کو اجتماعی دعا کے بعد رخصت ہو جائیں گے۔ تبلیغی جماعت کے ذمہ دار حضرات کے بقول نظم و نسق کے حوالے سے یہ تقسیم ضروری ہو گئی ہے اور ہر سال اجتماع میں مسلسل ہونے والے اضافے کی وجہ سے اجتماع دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے، البتہ اس بات کا اہتمام کیا گیا ہے کہ اس سے علاقائی تقسیم کا تاثر نہ پیدا ہو، اس لیے اس امر کا التزام کیا جا رہا ہے کہ دونوں اجتماعوں میں ملک کے تمام علاقوں کے حضرات کی موجودگی اور شرکت ہو جائے۔
عام مسلمانوں کو دین کے اعمال پر واپس لانے اور معاشرہ میں دینی ماحول کو ازسرنو زندہ کرنے کا یہ عمل حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی رحمہ اللہ نے میوات سے شروع کیا تھا، جو ان کے خلوص اور محنت کے باعث پھیلتے پھیلتے اب دنیا کے بہت سے حصوں تک وسعت اختیار کر چکا ہے اور ایشیا، یورپ، افریقا، امریکا اور آسٹریلیا میں کوئی ایسا قابلِ ذکر علاقہ دکھائی نہیں دیتا جہاں تبلیغی جماعت کی نقل و حرکت کسی نہ کسی انداز میں نہ جاری ہو یا اس کے اثرات موجود نہ ہوں اور آج بحمد اللہ تعالیٰ دینی خدمت کے شعبوں میں دعوت و تبلیغ کا یہ شعبہ سب سے زیادہ وسیع نیٹ ورک کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔
دعوت و تبلیغ مسلمانوں کے دینی فرائض میں سے ہے اور قرآن و سنت میں اس کے مختلف پہلوؤں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اسلام شخصی، علاقائی یا نسلی دین نہیں ہے، بلکہ عالمگیر دین ہے، جس کی دعوت اور خطاب کا جائزہ/ دائرہ پوری نسل انسانی کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ ہر مسلمان کی یہ ذمہ داری قرار دی گئی ہے کہ وہ نجات و فلاح کے حوالے سے صرف اپنی ذات کی فکر تک محدود نہ رہے، بلکہ اپنے اردگرد کے ماحول اور درجہ بدرجہ پوری نسلِ انسانی کی فکر کرے۔
قرآن کریم نے اس سلسلہ میں سب سے پہلا دائرہ خاندان اور بیوی بچوں کے حوالے سے بتایا ہے اور حکم دیا ہے کہ ”اے ایمان والو! اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچاؤ اور اپنے گھر والوں کو بھی جہنم کی آگ سے بچانے کا اہتمام کرو۔“ پھر یہ حکم دیا کہ خود بھی نماز کی پابندی کرو اور اپنے گھر کے لوگوں کو بھی نماز کی تلقین کرو، جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ ”کنبہ کا سربراہ اپنے کنبہ کے حوالے سے ذمہ دار ہے اور اس سے اس ذمہ داری کے بارے میں قیامت کے دن پوچھا جائے گا۔“
خاندان کے بعد سوسائٹی اور اردگرد کا ماحول ایک مسلمان کی ذمہ داریوں میں شامل ہو جاتا ہے اور قرآن و سنت میں تمام مسلمانوں کو اس امر کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو معروف کی تلقین کریں اور منکر سے باز رکھنے کی کوشش کریں۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا کہ ”جب معاشرے کی یہ کیفیت ہو جائے کہ اس میں گناہوں کا ارتکاب تو ہو رہا ہو مگر روک ٹوک کا کوئی سسٹم باقی نہ رہے تو وہ سوسائٹی مجموعی طور پر عذابِ خداوندی کی مستحق ہو جاتی ہے۔“
مسلمانوں کے فرائض اور باہمی ذمہ داریوں کے بارے میں قرآن کریم نے ایک مسلمان حکومت کے فرائض کا بھی ذکر کیا ہے اور سورۃ الحج کی آیت ۱۴۱ میں یہ فرمایا کہ ”مسلمان حکمرانوں کے فرائض میں سے ہے کہ وہ برسر اقتدار آنے کے بعد نماز اور زکوٰۃ کے نظام کا اہتمام کرتے ہیں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔“
حکومت سے ہٹ کر یہ ذمہ داری عام مسلمانوں پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کا خیال رکھیں اور جس طرح دنیا کے معاملات میں ایک دوسرے کو نقصان سے بچانے اور فائدہ پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے، اسی طرح اس عمل کا دائرہ دینی معاملات تک بھی وسیع کر لیا جائے۔ ظاہر بات ہے کہ جہاں چند افراد اکٹھے رہتے ہوں، وہ ایک دوسرے کے نفع نقصان کا خیال رکھتے ہیں، ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں اور اگر اپنے کسی ساتھی کا کسی وجہ سے نقصان ہوتا دیکھتے ہیں تو اسے آگاہ کرنا اور اسے نقصان سے بچانے کی کوشش کرنا اپنا فرض اور اس کا حق سمجھتے ہیں۔ اسی جذبہ، سوچ اور عمل کے دائرہ کو دینی نفع و نقصان تک وسیع کر لیا جائے اور اپنے کسی دوست، بھائی یا ساتھی کے آخرت کے نفع و نقصان کا خیال کرتے ہوئے اسے نفع پہنچانے اور نقصان سے بچانے کی کوشش کی جائے تو یہی کوشش اسلامی اصطلاح میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی شکل اختیار کر جاتی ہے اور اخلاقی و معاشرتی طور پر بھی باہمی حقوق کا حصہ بن جاتی ہے۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اسے راہ چلتے لوگوں کا بھی حق قرار دیا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے راستے اور گزرگاہ میں بیٹھنے سے لوگوں کو منع فرمایا تو بعض حضرات نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! بسا اوقات ایسا کرنا مجبوری بن جاتا ہے تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کبھی مجبوراً راستے میں بیٹھنا پڑ جائے تو راستے کا حق ضرور ادا کرو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! راستے کا کیا حق ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”نگاہیں نیچی رکھو، سلام کا جواب دو، کوئی چھینک مار کر الحمد للہ کہے تو یرحمک اللہ کے ساتھ اس کا جواب دو، راستے میں کوئی تکلیف دینے والے چیز پڑی ہے تو اسے ہٹا دو، راستہ بھول جانے والوں کو راستہ بتاؤ، بوجھ اٹھانے میں لوگوں کی مدد کرو اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرو، وغیر ذالک۔“
تبلیغی جماعت کی یہ محنت اسی ماحول کو زندہ کرنے کے لیے ہے اور حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی رحمہ اللہ نے اسی جذبۂ صادقہ کے ساتھ اس عملِ خیر کا آغاز کیا تھا، جس کا دائرہ پوری دنیا میں پھیلتا جا رہا ہے اور رائے ونڈ کا یہ عالمی اجتماع اسی جذبۂ صادق اور اس کی وسعت کی نمائندگی کرتا ہے۔
دین کی خدمت، ترویج، فروغ اور اس کی اشاعت کے مختلف شعبے ہیں، جو اپنے اپنے دائرہ میں کام کر رہے ہیں ۔ مساجد و مدارس کا نظام ہے، دینی جماعتیں ہیں، روحانی مراکز اور خانقاہیں ہیں، رفاہ عامہ کے لیے دینی جذبہ سے کام کرنے والی سماجی تنظیمیں ہیں، دین کے بارے میں مختلف اطراف سے پھیلائے جانے والے شکوک و شبہات اور اعتراضات کا جواب دینے والے علمی فورم ہیں اور دین کے غلبہ و نفاذ کے لیے کام کرنے والی جماعتیں ہیں وغیر ذلک۔ یہ سب دین کے کام ہیں، دینی خدمت کے شعبے ہیں، اپنے اپنے شعبہ میں ان کی خدمات اور جدوجہد کی ضرورت و اہمیت مسلم ہے، ان میں کسی کی افادیت و ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور یہ سب لوگ کام کے مختلف دائروں میں تقسیم ہونے کے باوجود ایک ہی مقصد کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ان میں دعوت و تبلیغ کا یہ شعبہ بھی ہے، جو اپنے خلوص و محنت اور ایثار کے باعث دنیا بھر میں مسلسل پھیلتا جا رہا ہے۔ خدا کرے کہ رائے ونڈ کا یہ عالمی اجتماع دعوت و تبلیغ کی اسی پرخلوص محنت میں مزید پیشرفت کا ذریعہ بنے اور اللہ رب العزت اسے دنیا بھر کی ہدایت و اصلاح کا مؤثر سبب بنا دیں، آمین یا رب العالمین۔