اظہارِ رائے کی آزادی کا مغربی معیار

   
نومبر ۲۰۰۱ء

مغرب کو رائے کی آزادی اور اس کے اظہار کے حق پر بڑا ناز ہے اور دوسری اقوام و ممالک پر اس کا سب سے بڑا اعتراض یہی ہوتا ہے کہ وہ اظہارِ رائے کے اس معیار کو پورا نہیں کرتے جو مغرب کے نزدیک ضروری ہے۔ لیکن مغرب کا اس سلسلہ میں اپنا طرزِ عمل کیا ہے، اس کا اندازہ روزنامہ جنگ لندن ۲۶ ستمبر ۲۰۰۱ء کی اس خبر سے کیا جا سکتا ہے کہ

’’امریکی وزارتِ خارجہ نے عالمی نشریاتی ادارے وائس آف امریکہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ افغانستان کے حکمران ملا محمد عمر اور دوسرے طالبان راہنماؤں کے انٹرویو نشر نہ کرے۔ وزارتِ خارجہ کے ترجمان رچرڈ باؤچر نے کہا ہے کہ امریکی حکومت کے خیال میں یہ درست نہیں ہے کہ طالبان راہنماؤں کے انٹرویو امریکی ریڈیو اسٹیشن سےنشر کیے جائیں، اور امریکہ میں ٹیکس ادا کرنے والے عوام بھی طالبان راہنماؤں کے انٹرویو نشر ہونے کو پسند نہیں کریں گے۔ وائس آف امریکہ کے صحافیوں نے وزارتِ خارجہ کی اس ہدایت پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اس اقدام کو صحافتی اصولوں کے منافی اور آزادئ اظہار پر قدغن قرار دیا ہے۔‘‘

اسی طرح امریکی وزیر خارجہ کولن پاول نے گزشتہ روز دولتِ قطر کے حکمران سے فون پر بات کرتے ہوئے ان سے تقاضہ کیا ہے کہ الجزیرۃ ٹی وی کو لگام دی جائے اور اس کی نشریات پر پابندی لگائی جائے۔

الجزیرۃ ٹی وی کی نشریات عربی زبان میں ہوتی ہیں، اس کا ہیڈکوارٹر قطر میں ہے، اس نے خبروں کے معیار اور وسعت میں ورلڈ میڈیا میں یہ مقام حاصل کر لیا ہے کہ بہت سے مغربی ٹی وی اسٹیشن الجزیرۃ سے خبریں حاصل کر کے اس کے حوالے سے نقل کرتے ہیں۔ اور اس نے مغربی ذرائع ابلاغ کی اجارہ داری کو توڑتے ہوئے الشیخ اسامہ بن لادن اور طالبان حکومت کے موقف کو تفصیل کے ساتھ عالمی رائے عامہ کے سامنے پیش کیا ہے، جس سے دنیا کے ایک بڑےحصے تک افغانستان کے بارے میں صحیح خبریں پہنچ رہی ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ امیرِ قطر نے امریکی وزارتِ خارجہ کا دباؤ قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ الجزیرۃ ایک پرائیویٹ ادارہ ہے جو اپنی پالیسیوں میں آزاد ہے اور اس پر کوئی پابندی اظہارِ رائے کی آزادی کے منافی ہو گی۔ ہم دولتِ قطر کے اس موقف کا خیرمقدم کرتے ہوئے امریکی حکمرانوں سے عرض کریں گے کہ خود اپنے پڑھائے ہوئے سبق کو دہرائے جانے پر وہ ناراض کیوں ہوتے ہیں؟

   
2016ء سے
Flag Counter