امریکہ میں چند دینی اور سیاحتی سرگرمیاں

   
۱۶ ستمبر ۲۰۰۷ء

ورجینیا کے علاقے اسپرنگ فیلڈ میں، جو واشنگٹن ڈی سی کا (ملحقہ) حصہ تصور ہوتا ہے، دارالہدٰی کے نام سے ایک دینی مرکز کام کر رہا ہے جس کے بانی اور سربراہ مولانا عبد الحمید اصغر ہیں۔ میری سالانہ حاضری پر وہ حدیثِ نبویؐ کے کسی نہ کسی عنوان پر پانچ سات روز کے مسلسل لیکچرز کا اہتمام کرتے ہیں جن میں بہت سے احباب ذوق و شوق کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔ اس سال جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبۂ حجۃ الوداع پر پانچ روز کا پروگرام طے ہوا اور روزانہ مغرب کی نماز کے بعد یہ لیکچر ہوتے رہے۔

سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ خطبہ جو عرفات اور منٰی میں آپؐ کے ارشادات پر مشتمل ہے، بہت سے صحابہ کرامؓ نے روایت کیا ہے اور حدیث کی بیسیوں کتابوں میں اس کی تفصیلات موجود ہیں۔ حال ہی میں ہمارے ایک محترم اور فاضل دوست ڈاکٹر نثار احمد نے بڑی محنت اور تگ و دو کے ساتھ ان کا ایک مجموعہ مرتب کیا ہے جو اس سلسلے میں اب تک میری نظر سے گزرنے والے تمام مجموعوں سے زیادہ جامع اور مستند ہے اور اسے السیرۃ اکیڈمی کراچی نے شائع کیا ہے۔ اسے سامنے رکھ کر میں نے اس پروگرام کے شرکاء کے سامنے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور ان کے بارے میں اپنی گزارشات پیش کیں، جن کا چند نکات میں خلاصہ یوں ہے:

  1. نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خطبے میں رنگ، نسل، وطن، زبان کے حوالے سے انسانی معاشرے میں باہمی تفاخر اور امتیازات کو مسترد کرنے کا اعلان کیا اور فرمایا کہ آدم علیہ السلام کی ساری اولاد انسانی حوالے سے آپس میں برابر ہے، تقوٰی اور کردار کے سوا کسی اور حوالے سے کسی کو برتری حاصل نہیں ہے۔
  2. نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف حجۃ الوداع کے خطبے میں، بلکہ اس سے دو عشرے قبل صفا پہاڑی پر کھڑے ہو کر اپنے پہلے اعلان میں بھی عربوں، قریشیوں اور اہلِ مکہ سے خطاب کرنے کی بجائے پوری نسلِ انسانی کو اپنا مخاطب بنایا اور انسان کی اجتماعی تاریخ میں پہلی بار گلوبلائزیشن کی دعوت دی۔
  3. نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک، بت پرستی، زنا، شراب، سود، جوا، نسلی و لسانی امتیاز، نجوم پرستی، باہمی قتل و قتال، ہم جنس پرستی، فحاشی، عریانی اور خواہش پرستی وغیرہ کو جاہلی اقدار قرار دیتے ہوئے انہیں پاؤں تلے روندنے کا اعلان کیا اور امت کو خبردار کیا کہ کہیں وہ اس جاہلیت کی طرف واپس نہ لوٹ جائے۔
  4. نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت، غلام اور یتیم کو معاشرے کے مظلوم طبقات قرار دیتے ہوئے ان کے حقوق کی طرف توجہ دلائی اور بطورِ خاص ان کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین فرمائی۔
  5. نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو آنے والے فتنوں، خاص طور پر دجالی فتنے سے خبردار کیا اور فرمایا کہ قرآن پاک اور سنتِ رسولؐ کو مضبوطی کے ساتھ تھام کر ہی مسلمان گمراہی سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
  6. نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منہ بولے رشتوں کی جاہلی رسم کے خاتمے کا اعلان کیا اور فرمایا کہ زبان کے ساتھ کہہ دینے سے نہ کوئی باپ بنتا ہے نہ ماں بنتی ہے اور نہ ہی بھائی بنتا ہے۔ اس لیے کسی کو نسب تبدیل کرنے کی اجازت نہیں ہے اور جو شخص جان بوجھ کر اپنا نسب تبدیل کرتا ہے وہ ملعون ہے۔
  7. جاہلیت کے دور میں قریش خود کو دوسروں سے برتر قرار دیتے تھے اور حج کے لیے حرم کی حدود سے باہر نہیں جاتے تھے۔ جبکہ ان کے سوا باقی سب لوگ عرفات میں وقوف کرتے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رسم کے خاتمے کا اعلان کیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضری میں سب برابر ہیں۔
  8. نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سودی کاروبار کو جاہلی قدر قرار دیتے ہوئے اسے ختم کیا اور اپنے چچا حضرت عباسؓ کے سودی کاروبار کو ختم کرنے کا اعلان کر کے اس کا عملی آغاز فرمایا۔
  9. نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شیطان تمہیں تمہارے ایمان اور توحید سے نہیں ہٹا سکے گا، لیکن تمہارے درمیان نفرتیں کھڑی کر کے، تمہیں آپس میں لڑا کر اور ایسے گناہوں میں پھنسا کر جنہیں تم حقیر سمجھتے ہو گے، اپنا مقصد حاصل کرنے کی کوشش کرے گا، اس لیے اس سے پوری طرح خبردار رہنا۔

اس سے قبل مولانا عبد الحمید اصغر کے ساتھ دو روز کے لیے بوسٹن جانے کا موقع ملا۔ مولانا موصوف نقشبندی سلسلے سے تعلق رکھتے ہیں اور بوسٹن میں ان کا حلقۂ ارادت ہے جہاں وہ کبھی کبھی جایا کرتے ہیں۔ گزشتہ ویک اینڈ کو ان کے ہاں جانے کا پروگرام پہلے سے طے شدہ تھا، مجھ سے پوچھا تو میں بھی ساتھ ہو لیا۔

بوسٹن یونیورسٹیوں کا علاقہ کہلاتا ہے اور ہارورڈ یونیورسٹی کے ساتھ ساتھ میساچیوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) بھی اسی علاقے میں ہے، جنہیں نہ صرف امریکہ میں بلکہ عالمی سطح پر بھی تعلیمی میدان میں برتری حاصل ہے۔ بوسٹن اور کیمبرج ساتھ ساتھ ہیں۔ برطانیہ کا کیمبرج تو میں نے دیکھ رکھا تھا، امریکہ کا کیمبرج پہلی بار دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس علاقے میں ڈگری سطح کے تین سو کے لگ بھگ کالج اور یونیورسٹیاں ہیں اور اسے امریکہ میں ’’سٹی آف ایجوکیشن‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

چند سال قبل ہارورڈ یونیورسٹی کے پاس سے گزرنے کا اتفاق ہوا تھا، اب ارادہ تھا کہ اسے قدرے تفصیل سے دیکھوں گا اور ممکن ہوا تو کچھ اساتذہ اور طلبہ سے بات چیت کا موقع بھی نکالوں گا، مگر وہاں پہنچ کرپتہ چلا کہ ابھی تعطیلات چل رہی ہیں ۔اس لیے ہارورڈ یونیورسٹی، ایم آئی ٹی اور دیگر بعض اداروں کے درمیان گھوم گھام کر ’’ونڈو شاپنگ‘‘ پر ہی گزارا کرنا پڑا۔ یہ معلوم کر کے اشتیاق میں اضافہ ہوا کہ نوم چومسکی اور ڈاکٹر کمال یوسف تومی انہی اداروں میں لیکچر دیتے ہیں۔ ان سے ملنے کو بہت جی چاہا مگر وقت کی کمی اور تعطیلات کے باعث اس چاہت کا گلا بھی گھونٹنا پڑا۔

نوم چومسکی عالمی شہرت کے حامل امریکی دانشور ہیں جو امریکہ کے استعماری کردار کے سب سے بڑے نقاد ہیں، اور مظلوم اقوام کے خلاف امریکی پالیسیوں کو بے نقاب کرتے ہوئے ان پر کھلم کھلا تنقید کرتے ہیں۔ میں نے ان کے بعض مقالات کے اردو تراجم پڑھے ہیں اور ان کی جرأت اور صاف گوئی کا معترف ہوں۔

ڈاکٹر کمال یوسف تومی الجزائر سے تعلق رکھتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے والد محترم فرانسیسی استعمار کے خلاف الجزائر کی جنگِ آزادی میں شہید ہوئے تھے اور ڈاکٹر تومی کی ولادت اپنے والد کی شہادت کے بعد ہوئی تھی۔ ڈاکٹر تومی کو ٹیکنالوجی کے کسی شعبے میں عالمی سطح پر سند سمجھا جاتا ہے، ذاتی طور پر دیندار ہیں، دوست بتاتے ہیں کہ انہیں قرآن کریم کا کچھ حصہ یاد ہے اور مسلسل تلاوت کرتے رہتے ہیں، مستحق لوگوں کی امداد میں پیش پیش رہتے ہیں، اور انہیں اس تعلیمی ماحول کے ہر حلقے میں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

روڈ آئی لینڈ امریکہ کی سب سے چھوٹی ریاست کہلاتی ہے۔ وہاں کچھ دوستوں نے، جن میں ڈاکٹر محمد عارف صاحب سرفہرست ہیں، مسجد الاسلام کے نام سے ایک مرکز قائم کر رکھا ہے جہاں ہمارے ایک فاضل عزیز مفتی اکرام الحق جوہری خطابت و امامت کے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ مفتی اکرام الحق جوہری جوہر آباد کے ہمارے پرانے جماعتی بزرگ حکیم علی احمد خان کے پوتے اور ہمارے دوست محمد اشرف خان کے فرزند ہیں۔ دارالعلوم کراچی سے افتاء کا کورس کیا ہے اور اس کے بعد سے اس مرکز میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کے ساتھ کوٹلی آزاد کشمیر کے ایک نوجوان حافظ شہباز احمد ان کی معاونت کرتے ہیں۔ اس مسجد میں دونوں رات میرا قیام رہا، بعض نمازوں کے بعد مختلف دینی حوالوں سے بیانات بھی ہوئے، جبکہ مولانا عبد الحمید اصغر کے حلقۂ ارادت کے حضرات مجتمع تھے، جنہوں نے اپنے سلسلے کے معمولات پورے کیے۔

بوسٹن میں ایک بڑی مسجد کی تعمیر دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے پہلو میں ایک مکان خرید کر مسجد بنائی گئی ہے ،جس میں مغرب کے بعد بیان ہوا۔ لیکن بوسٹن کی ایک بڑی سڑک، جسے سیاہ فام نو مسلم رہنما میلکم شہباز شہیدؒ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے، اس کے ایک چوک میں دو ایکڑ رقبے پر اسلامک مرکز زیرِ تعمیر ہے جس کے ایک ایکڑ رقبے کو محیط جامع مسجد مکمل ہو چکی ہے، جو امید ہے کہ رمضان المبارک میں نمازوں کے لیے کھول دی جائے گی۔ یہ اس علاقے کی سب سے بڑی مسجد ہے جسے بڑے خوبصورت ڈیزائن کے ساتھ تعمیر کیا گیا ہے۔ خوشنما گنبد کے ساتھ بیس فٹ بلندی کے دو مینار بھی منظور ہو چکے ہیں جن کی تعمیر کے بعد یہ بلڈنگ علاقے کی سب سے نمایاں اور خوبصورت بلڈنگ ہو گی۔ اس کی تعمیر رکوانے کے لیے کچھ لابیاں چند سال قبل حرکت میں آئی تھیں، جن کے خیال میں اتنی بڑی اور خوبصورت مسجد کی تعمیر سے بوسٹن کا تہذیبی ماحول اور منظر متاثر ہو سکتا ہے، مگر ان کی بات نہیں سنی گئی اور مسجد کے تعمیری پروگرام کی منظوری دے دی گئی۔

ہم رات کو بارہ بجے کے لگ بھگ جامع مسجد کے مین گیٹ پر پہنچے، اس وقت اندر جانے کا کوئی موقع نہیں تھا، اردگرد سے جائزہ لیا، البتہ اس کی تعمیر مکمل کرنے والے انجینئر مجیب الدین بھائی سے ملاقات ہوئی جو رو ڈ آئی لینڈ کی مسجد الاسلام کے نمازی ہیں، وہ اگلے دن کا بیشتر حصہ ہمارے ساتھ رہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس مسجد پر اب تک سولہ ملین ڈالر سے زیادہ رقم خرچ ہو چکی ہے اور اب اس کے ساتھ ایک سکول کی تعمیر کا پروگرام شروع ہونے والا ہے۔ مجیب بھائی حیدر آباد دکن سے تعلق رکھتے ہیں اور مجیب کنسٹرکشن کے نام سے ایک تعمیراتی فرم کے سربراہ ہیں۔

مجیب بھائی نے ہمیں بتایا کہ بوسٹن سے پچاس میل کے فاصلے پر ایک پرانے گاؤں کو پرانے طرزِ زندگی کی نشانی کے طور پر محفوظ رکھا گیا ہے جو دیکھنے کی چیز ہے۔ وہ ہمیں وہاں لے گئے۔ میرے ساتھ مفتی اکرام الحق جوہری اور حافظ شہباز احمد بھی تھے۔ ’’سٹور برج‘‘ نام کے اس پرانے گاؤں کو اصلی حالت میں محفوظ رکھ کر اسے میوزیم بنا دیا گیا ہے۔ بیس ڈالر فی کس داخلہ فیس ہے۔ ہم نے تقریباً ایک گھنٹہ وہاں گزارا۔ گھوڑوں کا اصطبل، لوہار کی دکان، کھیتی باڑی کے پرانے آلات، مرغیوں کا ڈربہ، پرانی گھوڑا گاڑی، دستی نلکا، ایک زمیندار کا مکان، اور چند دوسرے مناظر دیکھے۔ چند عورتیں پرانے لباس میں کام کاج میں مصروف تھیں، پورا جسم لباس میں ڈھکا ہوا اور سر پر بھی بڑا سا ہیٹ پہن رکھا تھا۔ ایک جگہ چند عورتیں سوت رنگ رہی تھیں۔ ایک صاحب لوہے کے چھوٹے ڈبے بنا رہے تھے۔ غرضیکہ صرف پرانی اشیا کو ہی محفوظ نہیں کیا گیا بلکہ پرانے لباس اور انداز کے ساتھ کام کرنے کا ماحول بھی بنایا ہوا ہے۔ بتایا گیا کہ یہ ماحول ایک صدی قبل کا تھا، اس دور کا ایک پرنٹنگ پریس بھی اپنی بلڈنگ اور متعلقہ سامان کے ساتھ موجود ہے، اور سڑکیں اور راستے بھی اسی کیفیت میں ہیں۔

روڈ آئی لینڈ اور میساچیوسٹس کی ان ریاستوں میں دو دن کا قیام خاصا مفید رہا اور بہت سی معلومات حاصل ہوئیں۔ مگر میرے لیے سب سے زیادہ دلچسپی کی بات یہ تھی کہ بوسٹن کو برطانوی استعمار کے خلاف امریکہ کی جنگِ آزادی کا نقطۂ آغاز ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ چائے کے کاروبار کا مرکز تھا، اس بندرگاہ پر چائے آتی تھی اور چائے کے کاروبار پر ٹیکس لگائے جانے پر احتجاج شروع ہوا تھا جس نے آگے چل کر تحریکِ آزادی کی شکل اختیار کر لی۔ اس حوالے سے یہاں ’’بوسٹن ٹی پارٹی‘‘ کا نام لیا جاتا ہے جس نے اس تحریک کو منظم کیا اور اسے آزادی کی جدوجہد بنا دیا۔

مجھے بسا اوقات بہت تعجب ہوتا ہے کہ دنیا کی بہت سی مسلح تحریکاتِ آزادی کو دہشت گردی قرار دینے والے امریکی رہنماؤں کو برطانوی استعمار کے خلاف امریکہ کی مسلح جنگِ آزادی کے وہ مراحل آخر کیسے بھول جاتے ہیں جن میں امریکہ کے فریڈم فائٹرز وہی کچھ کرتے رہے جو ان کے بقول آج کے دہشت گرد کر رہے ہیں۔ اگر اس زمانے میں ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف کوئی جنگ عالمی سطح پر ہوتی تو اس کا سب سے بڑا ہدف وہی قرار پاتے۔

   
2016ء سے
Flag Counter