صدر جنرل پرویز مشرف کے بھارت کے دورہ کے نتائج پر دنیا بھر میں بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے اور اس کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ ان کے اس دورہ کے اختتام پر کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں ہو سکا اور بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ مذاکرات کی کئی نشستوں کے باوجود مشترکہ اعلامیہ پر اتفاقِ رائے نہیں ہوا۔ البتہ مذاکرات جاری رکھنے پر دونوں لیڈر متفق ہیں اور بھارتی وزیراعظم نے صدر پرویز مشرف کی طرف سے دی گئی دورۂ پاکستان کی دعوت قبول کر لی ہے جبکہ ستمبر میں نیویارک میں بھی دونوں لیڈروں کی ملاقات متوقع ہے۔
- مشترکہ اعلامیہ پر اتفاقِ رائے نہ ہونے کی وجہ پاکستانی لیڈروں کے نزدیک یہ ہے کہ بھارتی وزیراعظم مسئلہ کشمیر کو ایک تنازعہ کے طور پر تسلیم کرنے اور اعلامیہ میں اس کا ذکر کرنے پر تیار نہیں ہوئے۔
- جبکہ بھارتی لیڈروں کا کہنا ہے کہ صدر پرویز مشرف مقبوضہ کشمیر میں مجاہدین کی طرف سے جاری عسکری کاروائیوں کو کشمیریوں کی جنگِ آزادی قرار دینے پر مصر تھے اور اسے دہشت گردی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، اس لیے مشترکہ اعلامیہ جاری نہ ہو سکا۔
ان دونوں میں سے کوئی وجہ بھی ہو، یہ بات بہرحال دونوں حکومتوں نے تسلیم کر لی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اصل تنازعہ کشمیر کے مسئلہ پر ہی ہے، اور اسے حل کیے بغیر نہ جنوبی ایشیا میں امن کی ضمانت دی جا سکتی ہے، اور نہ ہی پاکستان اور بھارت کے درمیان دیگر تنازعات پر مفاہمت کی طرف کوئی پیشرفت ممکن ہے۔
ہمارے خیال میں صدر پرویز مشرف کے بھارت جانے کی بنیادی غرض بھی یہی تھی کہ مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کیا جائے اور جنوبی ایشیا کے امن کے حوالے سے اس کی اہمیت کو واضح کیا جائے۔ اس لیے مشترکہ اعلامیہ جاری نہ ہونے کے باوجود اس مشن میں وہ کامیاب رہے ہیں، اور اب حالات اس رخ کی طرف بڑھتے نظر آ رہے ہیں کہ بھارت کو بالآخر ضد اور ہٹ دھرمی کا رویہ ترک کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کی اہمیت کو تسلیم کرنا ہو گا، اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کو ان کی آزادانہ مرضی سے اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا موقع فراہم کرنا ہو گا، اس کے سوا اس مسئلہ کا کوئی حل نہیں ہے۔
اس لیے امید ہے کہ آئندہ مذاکرات میں اس سلسلہ میں مزید پیشرفت ہو گی اور کشمیری عوام اپنی طویل جدوجہد اور قربانیوں کے منطقی نتائج حاصل کرنے میں آخرکار کامیاب ہوں گے۔ البتہ پاکستان کو اس سلسلہ میں عالمی میڈیا اور سفارتکاری کے محاذ پر نئے سرے سے صف بندی کرنا ہو گی اور مسئلہ کشمیر کی اہمیت سے عالمی رائے عامہ کو آگاہ کرنے کے لیے تدبر اور منصوبہ بندی کے ساتھ کام کو منظم کرنا ہو گا۔