اشتراکیت کا فلسفہ کیا ہے؟

   
فروری ۱۹۹۰ء

سوال: اشتراک کا فلسفہ کیا ہے اور یہ سب سے پہلے کس نے پیش کیا؟ (محمد غفران، اسلام آباد)۔

جواب: اشتراک کا فلسفہ یہ ہے کہ چونکہ دنیا میں انسانوں کے درمیان زیادہ تر جھگڑے زمین، مال اور عورت کی وجہ سے ہوتے ہیں اس لیے یہ تینوں چیزیں کسی کی شخصی ملکیت نہیں ہو سکتیں بلکہ یہ تینوں تمام انسانوں کے درمیان کسی تعیین کے بغیر مشترک ملکیت ہیں۔ یہ فلسفہ سب سے پہلے پارسیوں (مجوسیوں) کے ایک راہنما مزدک نے پیش کیا اور کہا کہ ایک شخص جو کچھ کماتا ہے وہ اس کی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ سب لوگوں کی مشترک ہے۔ اسی طرح کوئی عورت کسی مرد کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ ہر مرد ہر عورت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

ظہورِ اسلام کے بعد اسی فلسفہ کو عباسی خلیفہ معتصم باللہ کے دور میں بابک خرمی نے دوبارہ پیش کیا اور زن، زر اور زمین کو مشترک ملکیت قرار دے کر اس کا پرچار شروع کر دیا لیکن خلیفہ معتصم باللہ نے اسے قتل کرا دیا۔ موجودہ دور میں انفرادی ملکیت کی نفی کا یہ فلسفہ منظم شکل میں سب سے پہلے کارل مارکس نے پیش کیا اور اسے ’’کمیونزم‘‘ کا نام دیا۔ روس، چین اور مشرقی یورپ کے اشتراکی انقلاب اسی فلسفہ پر برپا ہوئے لیکن کہیں بھی کارل مارکس کا فلسفہ اصلی شکل میں نافذ نہ کیا جا سکا بلکہ ’’سوشلزم‘‘ کے نام سے اس کے قریب قریب ایک جبری نظام ان ممالک پر مسلط کر دیا گیا مگر وہ بھی اب دم توڑ رہا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter