تحریکِ ختم نبوت کے حوالہ سے تین سوالات کا جائزہ

   
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، ملکوال، ضلع منڈی بہاؤ الدین
۸ ستمبر ۲۰۲۳ء

(۸ ستمبر بروز جمعۃ المبارک بعد نمازِ مغرب ختمِ نبوت کانفرنس ملکوال ضلع منڈی بہاء الدین سے خطاب)

عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ملکوال ضلع منڈی بہاؤ الدین ،حضرت مولانا عبد الواحد، حضرت مولانا عبد الماجد شہیدی اور ان کے رفقاء کا شکر گزار ہوں کہ آج کی اس مبارک محفل میں حاضری کا، آپ حضرات کے ساتھ ملاقات و زیارت اور کچھ عرض کرنے کا موقع فراہم کیا۔ اللہ تعالیٰ ہمارا مل بیٹھنا قبول فرمائیں اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس اور عقیدۂ ختمِ نبوت کے حوالے سے اپنے فرائض کو پہچاننے اور ان کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آج میں قادیانیت کے حوالے سے تین سوالوں کا جائزہ لینا چاہوں گا۔

ایک سوال عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ قادیانی کلمہ پڑھتے ہیں، بلکہ ہمارے روکنے کے باوجود پڑھتے ہیں، قرآن کریم بھی پڑھتے ہیں، جناب نبی کریمؐ کا نام بھی لیتے ہیں، بیت اللہ کی بات بھی کرتے ہیں، تو وہ مسلمان کیوں نہیں ہیں؟ آج کی یونیورسٹیوں، جدید تعلیمی اداروں اور عالمی ماحول میں یہ سوال اکثر پڑھے لکھے دوستوں سے کیا جاتا ہے۔ بالخصوص ان حضرات سے جو دینی ماحول سے فاصلے پر ہیں، جن کا مسجد، مدرسے، کسی دینی جماعت یا دعوت و تبلیغ کے ساتھ براہ راست تعلق نہیں ہے، ان سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ قادیانی کلمہ پڑھنے کے باوجود مسلمان کیوں نہیں ہیں؟

یہ سوال سب سے پہلے علامہ محمد اقبال مرحوم سے ہوا تھا۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے علامہ اقبالؒ سے یہ سوال کیا تھا جب انہوں نے انگریز حکومت سے مطالبہ کیا کہ قادیانیوں کو ہمارے کھاتے میں نہ لکھا جائے بلکہ ہم سے الگ غیر مسلموں میں لکھا جائے، یہ ہمارے مذہب و ملت کا حصہ نہیں ہے۔ پنڈت جواہر لال نہرو جو اس وقت بڑے قومی لیڈر تھے، انہوں نے علامہ اقبال سے سوال کیا کہ جب قادیانی کلمہ پڑھتے ہیں، محمد رسول اللہ کو مانتے ہیں، قرآن پاک کی بات کرتے ہیں، تو یہ مسلمان کیوں نہیں ہیں؟ ہمارے تعلیم یافتہ طبقے سے قادیانی اسی سوال سے بات کا آغاز کرتے ہیں۔ اس لیے تعلیم یافتہ طبقے، وکلاء، تاجر برادری اور طلباء سے میری گزارش یہ ہوتی ہے کہ علامہ اقبالؒ اور پنڈت جواہرلال نہرو کی خط و کتابت پڑھیں۔ اصل انگریزی میں ہے جبکہ اس کا اردو ترجمہ بھی چھپا ہوا کتابی شکل میں موجود ہے، جس میں علامہ اقبال ؒنے اس سوال کی وضاحت کی تھی کہ قادیانی کلمہ پڑھنے کے باوجود، جناب نبی کریمؐ کو اللہ کا رسول کہنے کے باوجود اور قرآن پاک پڑھنے کے باوجود مسلمان کیوں نہیں ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے نہرو کو یہ جواب دیا کہ پیغمبر وہ ہوتا ہے جو خود اتھارٹی ہو، جس کو کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ ہر ایک کو دلیل کی ضرورت پڑتی ہے، چاہے کوئی امام، خلیفہ، مجتہد یا فقیہ ہو، وہ قرآن یا حدیث کا حوالہ دینے کا پابند ہوتا ہے۔ پیغمبر واحد شخصیت ہوتی ہے جس کو کسی حوالے کی ضرورت نہیں ہوتی وہ خود حوالہ اور اتھارٹی ہوتا ہے۔ اس لیے جب کسی امت میں پیغمبر بدل جاتا ہے تو مذہب بدل جاتا ہے، کیونکہ نبی کے بدلنے سے اتھارٹی تبدیل ہو جاتی ہے۔ تعلیم یافتہ حضرات اس خط و کتابت کا ضرور مطالعہ کریں جس سے آپ کو یہ بات سمجھ آئے گی کہ قرآن پڑھنے کے باوجود، جناب رسول اللہ کو نبی ماننے، اور کلمہ پڑھنے کے باوجود قادیانی مسلمان کیوں نہیں ہیں، یا ان کے نزدیک ہم مسلمان کیوں نہیں ہیں۔

دوسرے موقع پر یہ مسئلہ سر ظفر اللہ خان نے واضح کیا تھا جو کہ قادیانی جماعت کے بڑے قائدین میں سے تھے، پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ تھے۔ قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم پاکستان کے گورنر جنرل تھے اور ان کی کابینہ میں لیاقت علی خان وزیراعظم اور ظفر اللہ خان وزیر خارجہ تھے۔ جب قائد اعظمؒ کا انتقال ہوا تو ان کا جنازہ کراچی میں شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ نے پڑھایا۔ جنازے میں ہزاروں لوگ موجود تھے۔ دوسرے ملکوں کے سفیر بھی آئے ہوئے تھے، ان میں سے غیر مسلم سفیر جنازے میں شریک نہیں ہوئے بلکہ احتراماً‌ ایک صف میں الگ قطار بنا کر کھڑے ہوئے۔ جب ظفر اللہ خان آئے تو وہ جنازے میں شامل ہونے کی بجائے غیر ملکی سفیروں کی صف میں جا کر کھڑے ہو گئے اور قائد اعظمؒ کا جنازہ نہیں پڑھا۔ جب جنازہ ہو گیا تو صحافیوں نے ظفر اللہ خان سے سوال کیا کہ قائد اعظمؒ آپ کے گورنر جنرل ہیں، آپ ان کے وزیر خارجہ ہیں، تو آپ ان کے جنازے میں کیوں شریک نہیں ہوئے اور غیر مسلم سفیروں کی قطار میں کیوں کھڑے رہے؟ تو ظفر اللہ خان نے دوٹوک بات کی جو تاریخ کے ریکارڈ پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے ایک مسلمان حکومت کا کافر، یا کافر حکومت کا مسلمان وزیر خارجہ سمجھ لیں۔ یعنی یا قائد اعظمؒ مسلمان نہیں ہیں یا میں مسلمان نہیں ہوں۔ مسلمان کا جنازہ غیر مسلم نے نہیں پڑھا یا غیر مسلم کا جنازہ مسلمان نے نہیں پڑھا۔ مطلب یہ کہ قائد اعظمؒ میرے عقائد کے مطابق مسلمان نہ تھے، لہٰذا میں ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھ سکتا تھا۔ یہ بات کہ قادیانی اور مسلمان ایک نہیں ہیں، تاریخ میں یہ شہادت ظفر اللہ خان نے دی۔

تیسری بات یہ کہ ۱۹۸۷ء میں مجھے پہلی بار امریکہ جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک یہودی جرنلسٹ سے نیویارک میں میری ملاقات ہوئی۔ انہیں کسی نے بتایا تھا کہ پاکستان سے ایک مولوی صاحب آئے ہوئے ہیں اور ختم نبوت کی تحریک سے ان کا تعلق ہے۔ وہ میرے پاس تشریف لائے، انٹرویو کے دوران انہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ جب قادیانی قرآن کو مانتے ہیں، اللہ کو، محمد رسول اللہ کو اور بیت اللہ کو مانتے ہیں تو آپ کے نزدیک وہ مسلمان کیوں نہیں ہیں؟ میں نے کہا کہ مسلمان ہونے کے لیے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کو ماننا ضروری تو ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے، بلکہ مسلمان ہونے کے لیے اس کے بعد کسی اور کو نہ ماننا بھی ضروری ہے۔

میں نے اس سے مثال کے طور پر بات کی کہ آپ اس لیے یہودی ہیں کہ آپ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اور تورات کو مانتے ہیں۔ میں نے کہا کہ میں بھی حضرت موسٰیؑ اور تورات کو مانتا ہوں، تو کیا آپ مجھے یہودی تسلیم کریں گے؟ اس نے کہا کہ نہیں۔ میں نے پوچھا کیوں؟ تو اس نے کہا کیونکہ آپ اس کے بعد ایک اور نبی اور کتاب مانتے ہیں اس لیے آپ کو یہودی تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ پھر میں نے سوال کیا کہ مسیحی کیوں عیسائی کہلاتے ہیں؟ اس نے کہا کہ وہ حضرت عیسٰی علیہ السلام اور انجیل کو مانتے ہیں اس لیے عیسائی ہیں۔ میں نے کہا میں بھی انجیل اور حضرت عیسٰیؑ کو مانتا ہوں بلکہ ہم مسلمان عیسائیوں سے بڑھ کر انہیں مانتے ہیں، تو اگر خدانخواستہ دنیا کے کسی فورم پر میں دعویٰ کروں کہ مجھے عیسائی تسلیم کیا جائے تو کیا تسلیم کرو گے؟ اس نے کہا نہیں۔ میں نے کہا کیوں؟ تو اس نے کہا کہ آپ حضرت عیسٰیؑ اور انجیل کو تو مانتے ہیں لیکن چونکہ ان کے بعد حضرت محمدؐ کو اور قرآن مجید کو بھی مانتے ہیں اس لیے آپ عیسائی کہلانے کے حقدار نہیں ہیں۔

میں نے کہا کہ یقیناً‌ ہمیں تورات اور حضرت موسٰیؑ کو ماننے، انجیل اور حضرت عیسٰیؑ کو ماننے کے باوجود یہودی یا عیسائی کہلانے کا حق نہیں، کیونکہ ہم اس کے بعد نیا نبی اور نئی وحی تسلیم کرتے ہیں۔ اسی بنیاد پر چونکہ قرآن مجید کے بعد اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قادیانی نئی وحی اور نیا نبی مانتے ہیں اس لیے وہ بھی مسلمان کہلانے کے حقدار نہیں ہیں۔ جس دلیل پر میں عیسائی نہیں ہوں، اسی دلیل پر قادیانی مسلمان نہیں ہیں۔ جس دلیل پر میں یہودی کہلانے کا حقدار نہیں ہوں، اسی دلیل پر قادیانی مسلمان کہلانے کے حقدار نہیں ہیں۔ یہی بات علامہ اقبالؒ نے پنڈت جواہر لال نہرو سے اپنے انداز میں کہی تھی۔

ایک دفعہ مجھ سے امریکہ کے شہر ہیوسٹن میں سوال ہوا جہاں خلائی مرکز ناسا ہے۔ ہمارے بہت اچھے دوست حافظ محمد اقبال صاحب ہیوسٹن میں رہتے ہیں۔ منچن آباد کے علاقے سے تعلق ہے، بہت مضبوط آدمی ہیں اور ختم نبوت کا بہت کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے ریڈیو پر مذاکرہ رکھا ہوا تھا۔ گفتگو کے دوران میں نے یہی بات کی تو ایک ٹیلی فون آیا کہ میں مسیحی پادری ہوں، میرا انڈیا سے تعلق ہے، میرا آپ سے ایک سوال ہے کہ ہم اس آدمی کو مسلمان سمجھتے ہیں جو قرآن پاک کو اور حضرت محمد کو مانتا ہو۔ قادیانی قرآن پاک اور حضرت محمد کو مانتے ہیں تو آپ ان کو کیوں مسلمان شمار نہیں کرتے؟ میں نے ان سے سوال کیا کہ آپ مورمنز کو جانتے ہیں؟

مورمنز امریکہ میں ایک کمیونٹی ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی کے دور کی بات ہے جب مورمنز کے بانی نے نبوت کا دعوی کیا تھا اور نئی بائبل لکھی تھی۔ یہ کمیونٹی امریکہ میں اچھی خاصی ہے۔ گزشتہ الیکشن میں نائب صدر کا الیکشن مٹ رومنے نے لڑا تھا، وہ مورمنز کا لیڈر ہے۔ مورمنز ایک نیا نبی اور نئی بائبل مانتے ہیں۔ انہوں نے بائبل میں ایک نئی کتاب کا اضافہ کیا ہے۔

پادری صاحب نے جواب میں مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ مورمنز کو جانتے ہیں؟ میں نے کہا کہ آپ سے زیادہ جانتا ہوں۔ میں نے ان سے کہا کہ کیا کیتھولک، پروٹسٹنٹ یا آرتھوڈکس فرقہ کے لوگ مورمنز کو کسی مسیحی چرچ کا حصہ تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں؟ کیتھولک، پروٹسٹنٹ اور آرتھوڈکس عیسائیوں کے تین بڑے فرقے ہیں۔ ان تین فرقوں میں سے کوئی فرقہ مورمنز کو اپنے چرچ کی ممبرشپ دینے کے لیے تیار ہے؟ اس نے کہا نہیں۔ تو میں نے کہا کیوں؟ اس نے کہا اس لیے کہ مورمنز نیا نبی اور نئی کتاب مانتے ہیں۔ میں نے کہا تمہارے ہاں مورمنز نئی کتاب اور نئی وحی ماننے کی وجہ سے تم سے الگ ہو گئے ہیں اور ہمارے ہاں قادیانی نئی وحی اور نیا نبی ماننے کی وجہ سے ہم سے الگ کیوں نہیں ہوئے؟ اس لیے میں نے پہلی بات یہ کی ہے کہ قادیانی جتنا مرضی دعوٰی کر لیں جب تک نئی نبوت سے دستبردار نہیں ہوں گے اور نئی وحی سے براءت کا اعلان نہیں کریں گے اس وقت تک انہیں قطعاً‌ مسلمان تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔

دوسری بات یہ ہے کہ عام طور پر ہمارے تعلیم یافتہ طبقے سے یہ سوال ہوتا ہے آپ سے بھی سوال ہوگا کہ قادیانی مسلمان نہ سہی، لیکن پاکستان کے شہری تو ہیں، ان کے شہری حقوق ہیں۔ آپ بطور شہری اور بطور ملکی باشندے کے ان کے جو حقوق ہیں وہ کیوں نہیں دیتے؟ آج ہمیں اس سوال کا بہت سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور کرنا پڑے گا۔ آج کی دنیا کا سوال یہی ہے۔ اس پر میں دو باتیں ذکر کروں گا۔

میں نے نیویارک میں یہودی سے بھی یہ بات کی تھی کہ بات حقوق کی نہیں بلکہ ٹائٹل کی ہے۔ قادیانی اپنا ٹائٹل تسلیم کریں، اس ٹائٹل کے تحت جو حق ان کا بنتا ہے وہ ہم مانیں گے اور دینے کے لیے تیار ہیں۔ وہ ہمارے ٹائٹل کے ساتھ حق مانگنے والے کون ہوتے ہیں؟ وہ اپنا ٹائٹل اور اپنا اسٹیٹس تسلیم کریں اور اس کے تحت حقوق کا مطالبہ کریں۔ میں نے اس سلسلہ میں ایک مثال دی کہ مثلاً‌ سو سال سے ایک پرانی کمپنی چلی آ رہی ہے جس کی ساکھ اور مارکیٹ ہے، اس کا تعارف اور ایک بھرم ہے، اس کا مونوگرام اور سٹیمپ ہے۔ اس سو سال پرانی فرم میں سے چند آدمی نکل کر نئی فرم بنانا چاہیں تو بنا لیں، اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن اس نئی فرم کو پرانی فرم کا نام استعمال کرنے کا حق نہیں ہے، اس کا ٹائٹل، مونوگرام، اسٹیمپ اور لیٹر ہیڈ استعمال کرنے کا حق نہیں ہے ۔ اگر نئی فرم پرانی فرم کی شناخت استعمال کرے گی تو اس کو قانون کی زبان میں فراڈ کہتے ہیں۔ قادیانی ہمارے نام پر حقوق کا مطالبہ کیوں کرتے ہیں؟ جب ان کی کمپنی نئی ہے تو اپنی کمپنی کو نیا نام دیں اور اس کے تحت حقوق کا مطالبہ کریں۔ مارکیٹ دیکھ لے گی کہ کس کا مال لینا ہے اور کس کا نہیں لینا۔ ہمارا سیدھا سا مطالبہ ہے کہ اپنا سودا اپنے نام سے بیچو، ہمارے نام سے بیچنے کی تمہیں اجازت نہیں دی جا سکتی۔

دوسری بات یہ ہے کہ قادیانی پاکستان میں شہری حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں تو کسی قاعدے قانون کے مطابق حقوق مانگ رہے ہیں یا ویسے ہی مانگ رہے ہیں؟ حقوق مانگنے اور حقوق لینے کا کوئی قاعدہ، قانون اور طریقہ بھی ہوتا ہے یا نہیں؟ یہ تو نہیں کہ جس کا جو جی چاہے وہ اپنا حق سمجھ کر مانگنے لگ جائے۔ امریکہ میں کسی نے اپنے حقوق لینے ہیں تو اس کا معیار وہاں کا دستور ہے۔ اگر ایک آدمی امریکہ کے دستور کو نہیں مانتا اور شہری حقوق مانگتا ہے تو کیا امریکہ اس کو وہ حق دے گا؟ یا ایک آدمی برطانیہ میں رہتا ہے اور وہاں کے دستور، قانون اور اس کے سسٹم کو تو نہیں مانتا لیکن حقوق مانگتا ہے، تو کیا برطانیہ اس کو وہ حقوق دے گا؟ دستور تسلیم نہ کرنے والوں کو غیر قانونی شہری کہا جاتا ہے۔ میرا قادیانیوں سے یہ سوال ہوتا ہے کہ حقوق کا مطالبہ درست ہے لیکن کون سے دستور کے تحت حقوق مانگتے ہو؟ پاکستان میں حقوق کے لیے تو پاکستان کا دستور چلے گا۔ اور تم نصف صدی سے پاکستان کے دستور کے ساتھ ساری دنیا میں پھڈا لگائے بیٹھے ہو کہ ہم اس کو نہیں مانتے۔

اگر امریکہ میں کوئی آدمی غیر قانونی طور پر رہ رہا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ مجھے ووٹ کا حق دو تو کیا امریکہ اس کو ووٹ کا حق دے گا؟ اگر برطانیہ میں کوئی غیر قانونی طور پر رہ رہا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ مجھے ووٹ کا حق دو تو کیا برطانیہ اس کا ووٹ کا حق تسلیم کرے گا؟ قادیانی یہ بات یاد رکھیں کہ ان کے لیے دو ہی راستے ہیں یا نئی نبوت اور وحی سے براءت کا اعلان کر کے پرانے کیمپ میں واپس آ جاؤ، ہم تمہیں قبول کر لیں گے، یا اپنا ٹائٹل الگ کرو، یہ جعل سازی نہیں چلے گی۔

تیسرا سوال میرا ہے۔ یہ سوال کس سے ہے؟ یہ فیصلہ آپ کریں گے۔ کسی بھی ملک میں جو لوگ دستور کو مانے بغیر غیر قانونی طور پر رہتے ہیں ایسے لوگ غیر قانونی کہلاتے ہیں۔ ان کو ملک کا شہری بننے کے لیے درخواست دینی پڑتی ہے اور شرائط پوری کرنی پڑتی ہے، اس کے بغیر انہیں ملک کا شہری تسلیم نہیں کیا جاتا۔ قادیانی شرائط پوری نہیں کر رہے حتیٰ کہ پاکستان کے دستور کو بھی نہیں مان رہے تو میرا سوال یہ ہے کہ وہ ملک کے شہری کیسے کہلاتے ہیں؟ دستور کو نہ صرف یہ کہ تسلیم نہیں کرتے بلکہ دستور کو چیلنج کر رہے ہیں اور پوری دنیا میں دستور کے خلاف مورچہ بندی کیے ہوئے ہیں ان سے نمٹنا کس کی ذمہ داری ہے؟

یہ بڑا نازک سوال ہے کہ ایک آبادی ملک کا دستور نہیں مان رہی تو ان پر دستور اور پارلیمنٹ کے فیصلے کی رٹ قائم کرنا اور ان سے عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ منوانا آخر کسی کی ذمہ داری ہے؟ یہ ان اداروں کی ذمہ داری ہے جو ریاست اور قانون کی رٹ کو چیلنج کرنے پر آپریشن اور کریک ڈاؤن کرتے ہیں۔ جو اداروں کی بالادستی سے انکار کرنے والوں کے خلاف آپریشن کرتے ہیں۔ پاکستان میں کئی آپریشن ہو چکے ہیں۔ جب بھی آپریشن ہوئے تو ہم نے ساتھ دیا۔ آج بھی ساتھ دے رہے ہیں۔ یہ آپریشن اسی بنیاد پر ہوئے ہیں کہ جو لوگ ریاست کی رٹ تسلیم نہیں کرتے، ان سے ریاست کی رٹ منوانے کے لیے آپریشنز اور کریک ڈاؤن ہوئے۔ بہت سی پارٹیاں ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے پر خلاف قانون قرار دی گئی ہیں۔ اگر بیسیوں جماعتیں قانون اور ریاست کی رٹ کو تسلیم نہ کرنے پر خلافِ قانون ہو سکتی ہیں، اگر بہت سے حلقوں کے خلاف ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے پر آپریشن ہو سکتے ہیں، تو قادیانی بھی دستور کی رٹ کو تسلیم نہیں کرتے، ان کو خلافِ قانون کیوں نہیں قرار دیا جاتا؟ ان کے خلاف آپریشن اور کریک ڈاؤن کیوں نہیں ہوتا؟ یہ کام کس نے کرنا ہے اور کس کی ذمہ داری ہے۔

میرا یہ سوال اور مطالبہ ان سے ہے جو رٹ قائم کیا کرتے ہیں اور ہم بھی ان کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ سیدھی سیدھی بات ہے یا قادیانیوں سے رٹ تسلیم کرواؤ، ورنہ انہیں خلافِ قانون قرار دے کر کریک ڈاؤن کرو۔ ہمارے ساتھ یہ گول مول معاملہ نہ کرو کہ قومی اسمبلی میں کبھی کوئی بل لے آئے اور کبھی کوئی بل لے آئے اور دھوکے سے منظور کروا لیا۔ پچھلی حکومت نے ایک بل منظور کروایا تھا جس کو تبدیل کرنا پڑا تھا۔ اب کچھ عرصہ پہلے ایک بل منظور ہوتے ہوتے رہ گیا تھا۔ ہم تو تمہارے ساتھ ایسا نہیں کرتے، تم جہاں پکارتے ہو ہم تمہارے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ملک کے دفاع کے لیے، ریاست کی رٹ، قانون کی حکمرانی اور دستور کی بالادستی قائم کرنے کے لیے تم جہاں آواز دو گے ہم ساتھ کھڑے ہوں گے، لیکن خدا کے لیے یہ بھی ملک کے مفاد کا تقاضہ ہے، قوم کے فیصلے اور دستور کی رٹ کا تقاضہ ہے، اس لیے کچھ مہربانی آپ بھی فرما دیں، وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

(ماہنامہ نصرۃ العلوم، گوجرانوالہ ۔ اکتوبر ۲۰۲۳ء)
2016ء سے
Flag Counter