گزشتہ دنوں پاکستان کی قومی اسمبلی نے انسدادِ دہشت گردی کا قانون منظور کر لیا ہے جس کے تحت حکومت کو یہ حق حاصل ہو گیا ہے کہ وہ کسی بھی علاقہ کو دہشت گردی سے متاثرہ قرار دے کر خصوصی اقدامات کر سکتی ہے، جن میں پولیس کا بلا وارنٹ گھروں میں داخل ہونا، تلاشی لینا اور بعض مواقع پر گولی مار دینے کا اختیار بھی شامل ہے۔ جبکہ فرقہ واریت پھیلانے اور دہشت گردی کی ترغیب دینے پر سات سال سے سزائے موت تک کی سزا مقرر کر دی گئی ہے۔
ملک کی مختلف دینی و سیاسی جماعتوں نے اس قانون کو ’’کالا قانون‘‘ قرار دے کر اس کی مخالفت کی ہے اور اس خدشہ کا اظہار کیا ہے کہ
- اس قانون کو سیاسی انتقام کے لیے استعمال کیا جائے گا،
- اس سے پولیس کی من مانی اور جبر و تشدد میں اضافہ ہو گا،
- اور عام شہری کے لیے خوف و ہراس کی فضا اور زیادہ ابرآلوود ہو جائے گی۔
انسدادِ دہشت گردی کے اس قانون کے نفاذ کا جواز یہ پیش کیا جا رہا ہے کہ ملک میں فرقہ وارانہ تشدد اور قتل و غارت میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس پر قابو پانے کے لیے یہ سخت قانون ناگزیر ہو گیا ہے۔ لیکن اس فرقہ وارانہ تصادم اور دہشت گردی کے فروغ میں بیرونی قوتوں اور ایجنسیوں کے دخیل ہونے کے بارے میں خود حکومتی حلقوں کے اب تک اعلانات کو سامنے رکھا جائے تو یہ سمجھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے کہ ایک منظم سازش کے تحت فرقہ وارانہ مسلم تصادم کی فضا پیدا کی گئی ہے، اور فرقہ وارانہ قتل و غارت کا دائرہ بتدریج وسیع کیا جاتا رہا ہے، تاکہ اس قانون کے نفاذ کی راہ ہموار کی جا سکے۔
چنانچہ اس کے نتیجے میں یہ قانون نافذ ہو چکا ہے اور باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ اس قانون کو مذہبی حلقوں کی سرگرمیوں کو کنٹرول کرنے، اور انہیں ایک متعین دائرے میں محدود رکھنے کے اس پروگرام پر عملدرآمد کے لیے ایک کارآمد ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے گا، جس پروگرام کا کچھ عرصہ سے عالمی سطح پر مسلسل اظہار کیا جا رہا ہے۔
ہم یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ حکومت کے ذمہ دار افراد فرقہ وارانہ تشدد اور دہشت گردی کے بارے میں تسلسل کے ساتھ یہ کہہ رہے ہیں کہ اس میں بیرونی طاقتیں اور ایجنسیاں ملوث ہیں، لیکن حکومت ان کا راستہ روکنے کی بجائے ملک کے مذہبی حلقوں کو خوف و ہراس میں رکھنے کے قوانین بنا رہی ہے۔ اور ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں جن کا مقصد دینی مراکز کی خودمختاری اور مذہبی حلقوں کی آزادی کو محدود اور کنٹرول کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس لیے اس خدشہ کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ یہ سب کچھ ایک طے شدہ پروگرام کے مطابق ہو رہا ہے اور مذہبی حلقوں کو ایک خاص حصار میں محصور کر دینے کے لیے عالمی پروگرام پر بہرحال عمل کرنے کا فیصلہ ہو گیا ہے۔
اس پس منظر میں ہم ملک کی مذہبی جماعتوں اور دینی شخصیات سے یہ گزارش کریں گے کہ وہ اس صورتحال کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیں اور اپنے تحفظات و ترجیحات اور اہداف و مقاصد کے حوالے سے مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے کی کوشش کریں۔