پاکستان اور لاؤس میں بھکاریوں کا فرق

   
۲۵ اپریل ۲۰۰۴ء

وزیراعظم میر ظفر اللہ خان جمالی ان دنوں لاؤس کے دورے پر ہیں، لاہور کے ایک قومی اخبار کی مختصر خبر کے مطابق انہوں نے لاؤس کے دارالحکومت میں ایک اخبار نویس سے گفتگو کرتے ہوئے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا ہے کہ لاؤس انہیں کوئی بھکاری نظر نہیں آیا، اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان میں بھکاری بنتے نہیں بلکہ بنائے جاتے ہیں۔

بظاہر یہ ایک مختصر سا تاثر یا تبصرہ ہے جو جمالی صاحب نے بھکاریوں کے حوالہ سے پاکستان اور لاؤس کی صورتحال میں نظر آنے والے فرق پر کیا ہے لیکن اس کے پیچھے معانی اور حقائق کی ایک پوری دنیا پوشیدہ ہے۔ جہاں تک بھکاریوں کا تعلق ہے وہ دنیا کے ہر حصے میں پائے جاتے ہیں۔ ہم نے بھکاری افغانستان میں بھی دیکھے ہیں جو دنیا کے غریب ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے اور برطانیہ میں بھی انہیں بھیک مانگتے دیکھا ہے جسے ترقی یافتہ اور ویلفیئر اسٹیٹ کہا جاتا ہے اور جس ملک کو اپنے شہریوں کو زندگی کی ضروری سہولتیں ریاستی سطح پر مہیا کرنے کا امتیاز حاصل ہے۔ لندن کے انڈر گراؤنڈ ریلوے اسٹیشنوں پر آپ کو متعدد جگہ ایسے بھکاری نظر آئیں گے جو راستے میں کپڑا بچھائے بیٹھے ہیں، گٹار بجا رہے ہیں یا گا رہے ہیں اور گزرنے والے اس کے کپڑے یا کشکول نما برتن میں سکے پھینکتے چلے جاتے ہیں۔ انڈر گراؤنڈ ریل میں ہم نے ہاتھ پھیلا کر مانگنے والے بھی دیکھے ہیں۔

بھیک مانگنا بسا اوقات مجبوری کے باعث ہوتا ہے لیکن اکثر اوقات اس کا باعث کاہلی اور شوق ہوتا ہے کہ ایک انسان محنت مزدوری اور کام کاج سے جی چراتے ہوئے مشقت کی بجائے ہاتھ پھیلانے کی ذلت برداشت کر لیتا ہے اور اس میں عافیت محسوس کرتا ہے کہ اسے کوئی کام نہ کرنا پڑے اور مانگ تانگ کر زندگی کے اخراجات پورے ہوتے رہیں۔ ایسی بھیک مانگنے سے اسلام نے منع کیا ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص پر سخت ناراضی کا اظہار فرمایا ہے جو محنت مزدوری کی طاقت اور مواقع مہیا ہونے کے باوجود کام کاج سے گریز کرتا ہے اور بھیک مانگنے کو مشغلہ کے طور پر اختیار کرتا ہے۔ البتہ معذوری اور مجبوری کی وجہ سے بوقت ضرورت بھیک مانگنے کی اجازت بھی دی گئی ہے اور روایات میں آتا ہے کہ جہاں آنحضرتؐ بلاوجہ بھیک مانگنے والوں کی حوصلہ شکنی کرتے تھے اور بسا اوقات انہیں ڈانٹ بھی دیا کرتے تھے وہاں کوئی ضرورتمند سوالی آپؐ کے دروازے سے خالی نہیں جایا کرتا تھا۔

فقہ حنفی کے معروف امام حضرت امام محمدؒ نے ’’کتاب الکسب‘‘ میں بھیک مانگنے کی شرعی حیثیت کی وضاحت کرتے ہوئے اس کے مختلف درجات بیان فرمائے ہیں کہ بسا اوقات بھیک مانگنا فرض ہو جاتا ہے جب جان کو خطرہ ہو اور کسی اور ذریعے سے جان بچانے کے لیے خوراک ملنے کی بظاہر کوئی صورت نہ ہو تو ضرورتمند پر فرض ہے کہ وہ بھیک مانگ کر اتنی خوراک حاصل کر لے جس سے جان بچ جائے۔ اور ایک درجہ حرام ہونے کا ہے کہ ضرورت نہیں ہے اور متبادل ذرائع موجود ہیں مگر ایک شخص محض شوق پورا کرنے کے لیے یا لالچ کے لیے بھی مانگتا ہے، ایسی بھیک مانگنا حرام ہے اور بھیک مانگنے والا کبیرہ گناہ کا مرتکب ہے۔ ان دونوں درجوں کے درمیان مباح اور مکروہ کے درجات بھی ہیں۔

اسلام نے معاشرے سے بھیک کے خاتمہ کے لیے بیت المال کو شہریوں کی ضروریات کا کفیل قرار دیا ہے اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’السلطان ولی من لا ولی لہ‘‘ جس کا کوئی ولی نہیں سلطان (امیر المؤمنین) اس کا ولی ہے۔ اسی اصول پر امیر المؤمنین حضرت عمرؓ نے ویلفیئر اسٹیٹ کے اس آئیڈیل سسٹم کی بنیاد رکھی تھی جس میں معاشرہ کے نادار، معذور، بے روزگار، بے سہارا اور ضرورتمند افراد کی فہرستیں مرتب کر کے بیت المال کی طرف سے ان کے وظائف مقرر فرمائے تھے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ جو شخص خود اپنے اخراجات پورے نہیں کر سکتا اور کوئی شخص بھی اس کے اخراجات کی کفالت کا شرعاً یا عرفاً ذمہ دار نہیں ہے تو اس کے اخراجات کی کفالت کی ذمہ داری ریاست پر ہے اور اسے بیت المال سے اتنا وظیفہ دیا جائے گا جس سے وہ اپنے روز مرہ کے ضروری اخراجات پورے کر سکے۔

حضرت عمرؓ کے بعض سوانح نگاروں نے لکھا ہے کہ انہوں نے ایک بوڑھے یہودی کو بازار میں لوگوں سے بھیک مانگتے دیکھا تو یہ کہہ کر تعجب کا اظہار کیا کہ جب ہم بیت المال سے ہر ضرورتمند کو اس کی ضرورت کے مطابق وظیفہ دیتے ہیں تو یہ بوڑھا لوگوں سے کیوں مانگ رہا ہے؟ گویا حضرت عمرؓ کے نزدیک ویلفیئر اسٹیٹ کا تصور یہ تھا کہ ریاست اپنے شہریوں کی ضروریات کی اس درجہ میں کفالت کی ذمہ داری اٹھائے کہ کسی شخص کو دوسرے شخص کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت پیش نہ آئے۔

ہمارے معاشرے میں بھیک مانگنے والے تین سطح کے لوگ ہیں:

  • بہت سے افراد ضرورت اور مجبوری کے تحت بھیک مانگتے ہیں اور ان کی پوزیشن فی الواقع ایسی ہوتی ہے کہ جسمانی معذوری یا روزگار کے مواقع میسر نہ آنے کی وجہ سے ان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوتا کہ وہ بھیک مانگ کر اور ہاتھ پھیلا کر زندگی کا رشتہ قائم رکھیں۔
  • دوسری سطح کے لوگ وہ ہیں جو عادت، شوق، یا کام چوری کی وجہ سے بھیک مانگنے کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ اور ایسے لوگوں میں مبینہ طور پر بہت سے افراد اس قسم کے بھی ہوتے ہیں جن کی تجوریوں اور بیک بیلنس میں لاکھوں روپے موجود ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ سڑکوں پر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔
  • جبکہ تیسری سطح پر وہ لوگ ہیں جنہیں باقاعدہ بھکاری بنایا جاتا ہے۔ بچوں کو اغوا کر کے اور بہت سے لوگوں کو مختلف طریقوں سے معذور کر کے ان سے بھکاریوں کا کام لیا جاتا ہے۔ ایسے منظم گروہ ہر علاقے میں موجود ہیں جو بچوں سے، عورتوں سے اور معذوروں سے بھیک منگواتے ہیں اور ان سے اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض گروہ شخصی مجبوریوں کے ساتھ ساتھ اجتماعی رفاہی کاموں مثلاً یتیم خانوں، دینی مدارس اور رفاہی اداروں کا سہارا لیتے ہیں جس سے ان شعبوں میں صحیح کام کرنے والے اداروں کی بھی بدنامی ہوتی ہے لیکن یہ سب کچھ ہوتا ہے۔

ہمارا خیال ہے کہ وزیراعظم میر ظفر اللہ خان جمالی نے یہ کہہ کر اس نوع کے بھکاری گروہوں کی طرف اشارہ کیا ہے کہ پاکستان میں بھکاری بنتے نہیں بلکہ بنائے جاتے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سے افراد کی مجبوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھا کر انہیں پیشہ ور بھکاری اور گداگر بننے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ جبکہ مجبوریوں کی وجہ سے خود بھکاری بننے والوں کی بھی کمی نہیں ہے اور معاشرہ میں ایسے افراد آپ کو ہر طرف نظر آئیں گے جو اپنی ضروریات پوری کرنے سے معذور ہیں، اخراجات مہیا کرنے سے لاچار ہیں اور جسم و جان کا رشتہ قائم رکھنے کے لیے ضروری اسباب کا فراہم کرنا ان کی دسترس میں نہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ وہ ہیں جو عزت اور سفید پوشی کا بھرم قائم رکھتے ہوئے اندر ہی اندر گھل گھل کر مرتے رہتے ہیں، بعض افراد خودکشی پر مجبور ہو جاتے ہیں اور بہت سے لوگ دامن اور ہاتھ پھیلا کر لوگوں کے سامنے اپنا پیٹ ننگا کر دیتے ہیں۔ جمالی صاحب اگر سنجیدگی سے اس صورتحال کا جائزہ لیں تو انہیں دکھائی دے گا کہ ایسے لوگوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اور جہاں سوسائٹی کے محدود طبقات اور افراد کی دولت اور امارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے وہاں ضرورت مند، مجبور اور بے بس شہریوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ تناسب کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔

یہ لوگ اگرچہ بظاہر اپنی مجبوریوں کے تحت خود بھکاری بنتے ہیں لیکن ہمارے نزدیک انہیں بھکاری بنایا جاتا ہے اور انہیں بھکاری بنانے کا کام ہمارا سسٹم سرانجام دیتا ہے۔ مروجہ نوآبادیاتی معاشی ڈھانچہ اسی مقصد کے لیے کام کر رہا ہے کہ ملک کی دولت اور اسباب و وسائل چند افراد اور طبقات کی مٹھیوں میں سمٹتے چلے جائیں اور ملک کی آبادی کی اکثریت ان کی محتاج اور دست نگر بن کر رہے تاکہ ان کا اقتدار اور بالادستی قائم رہے اور وہ عوام کے خون پر اپنی عیاشی کی زندگی جاری رکھ سکیں۔

ان سطور کی اشاعت تک وزیراعظم میر ظفر اللہ خان جمالی واپس وطن تشریف لا چکے ہوں گے، ہماری ان سے گزارش ہے کہ لاؤس میں کسی بھکاری کو مانگتے نہ دیکھ کر ان کے دل و دماغ میں جو احساس و تاثر ابھرا ہے وہ مبارک اور خوش آئند ہے، اسے وقتی بات سمجھ کر نظرانداز نہ کر دیں۔ بلکہ انہوں نے بھکاریوں کے حوالہ سے لاؤس اور پاکستان کی صورتحال میں جو فرق دیکھا ہے اسے دیکھ کر پاکستان میں بھکاریوں کی دن بدن بڑھتی ہوئی رفتار کے اسباب کا جائزہ لیں تاکہ جس خوشی کا اظہار انہوں نے لاؤس میں کیا ہے اس قسم کی خوشی وہ پاکستان میں بھی دیکھ سکیں۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ عوام کی ایک بڑی تعداد کو معاشی بدحالی کے شکنجے میں جکڑ کر خودکشی کرنے یا بھکاری بننے پر مجبور کرنے والے غیر منصفانہ معاشی نظام پر ہاتھ ڈالا جائے اور خلفائے راشدینؓ کے اسوۂ حسنہ کو سامنے رکھتے ہوئے ملک کو ایسا فطری اور منصفانہ نظام دیا جائے جو چند افراد اور طبقات کی تجوریاں بھرتے چلے جانے کی بجائے عام شہریوں کو زندگی کی ضروریات فراہم کرنے کی ذمہ داری قبول کرے۔

گزشتہ دنوں صدر جنرل پرویز مشرف نے بھی لاہور میں اجتماعی شادیوں کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس بات پر دکھ کا اظہار کیا تھا کہ بعض لوگ بہت اچھی زندگی گزار رہے ہیں مگر عوام کی اکثریت انتہائی غربت اور بے بسی کی حالت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ وعدہ نہیں کرتے لیکن کوشش کر رہے ہیں کہ عام شہریوں کو روٹی، کپڑا اور مکان کی سہولت فراہم کریں۔ ہمیں اس سے اتفاق ہے کہ صدر پرویز مشرف موجودہ حالات میں یہ وعدہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں لیکن اس کی وجہ وسائل کی کمی نہیں بلکہ ملکی وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کا نوآبادیاتی نظام ہے جس کی موجودگی میں کوئی بھی حکمران عوام کو زندگی کی ضروریات فراہم کرنے کا وعدہ نہیں کر سکتا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ہم صدر پرویز مشرف اور وزیراعظم ظفر اللہ جمالی کو یقین دلاتے ہیں کہ اگر وہ اس منحوس اور بوسیدہ نظام سے قوم کی جان چھڑا کر حضرت عمرؓ والا نظام اس ملک میں لا سکیں تو جمالی صاحب کو لاؤس کی طرح پاکستان میں بھی کوئی بھکاری نظر نہیں آئے گا اور جنرل پرویز مشرف بھی یہ وعدہ کرنے بلکہ گارنٹی دینے کی پوزیشن میں ہوں گے کہ ملک کے ہر شہری کو روٹی، کپڑا اور مکان جیسی بنیادی سہولتیں ریاست کی طرف سے فراہم کی جائیں گی۔ اس لیے کہ اس ویلفیئر سسٹم کے بانی حضرت عمرؓ کا سلوگن یہ تھا کہ ’’اگر دریائے فرات پر کوئی کتا بھی بھوک سے مر جائے تو اس کے بارے میں عمر مسئول اور ذمہ دار ہوگا۔‘‘

   
2016ء سے
Flag Counter