سودی نظام کے خاتمہ کی ڈیڈ لائن اور دینی راہنماؤں کے مطالبات

   
جون ۲۰۰۱ء

ملک سے سودی نظام کے خاتمہ کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے ڈیڈلائن کی تاریخ ۳۰ جون ۲۰۰۱ء جوں جوں قریب آ رہی ہے اس حوالہ سے مختلف اطراف سے بیانات کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ نے ملک میں رائج تمام سودی قوانین کو قرآن و سنت کے منافی قرار دیتے ہوئے حکومت کو ہدایت کر رکھی ہے کہ وہ ۳۰ جون ۲۰۰۱ء تک ان قوانین کے خاتمہ اور یکم جولائی سے اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر غیر سودی مالیاتی نظام کے نفاذ کا اہتمام کرے۔

سپریم کورٹ کی ہدایت پر حکومت نے اس مقصد کے لیے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق گورنر جناب ایم آئی حنفی کی سربراہی میں ایک کمیشن تشکیل دیا تھا جس میں دارالعلوم کراچی کے سربراہ حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی بھی کمیشن کے واحد عالم دین رکن کے طور پر شریک تھے۔ مفتی صاحب محترم نے گزشتہ دنوں ایک ملاقات میں بتایا کہ اس کمیشن نے غیر سودی مالیاتی نظام کا مسودہ قانون مرتب کر کے حکومت کے حوالہ کر دیا ہے جسے پروگرام کے مطابق رائے عامہ معلوم کرنے کے لیے مشتہر کیا جانا ہے اور یکم جولائی ۲۰۰۱ء کو اس کا نفاذ عمل میں آنا ہے، لیکن ابھی تک اس مسودہ کو مشتہر کرنے کی کوئی کاروائی عمل میں نہیں آئی۔

جبکہ دوسری طرف بعض معاشی ماہرین کی طرف سے غیر سودی نظام کے ناقابلِ عمل ہونے کا راگ الاپنے کا عمل پھر سے شروع ہو گیا ہے اور یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ کے سربراہ کی طرف سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے مذکورہ بالا فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل بھی دائر کر دی گئی ہے۔ ادھر وفاقی وزیر مذہبی امور ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب کی طرف سے مسلسل اعلان کیا جا رہا ہے کہ یکم جولائی سے غیر سودی مالیاتی نظام کا آغاز ہو جائے گا۔

ان حالات میں پاکستان شریعت کونسل کی دعوت پر گزشتہ دنوں کراچی اور لاہور میں مختلف دینی جماعتوں کے سرکردہ حضرات نے اس سلسلہ میں مہم منظم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی جمعیت علماء اسلام کے قائد مولانا سمیع الحق کی دعوت پر جمع ہونے والے قائدین مولانا فضل الرحمٰن، مولانا شاہ احمد نورانی، قاضی حسین احمد اور مولانا اسفند یار خان نے مشترکہ طور پر حکومت کو خبردار کیا ہے کہ سودی نظام کے خاتمہ میں مزید تاخیر برداشت نہیں کی جائے گی، اور اگر ۳۰ جون تک اس کے خاتمہ کو یقینی نہ بنایا گیا تو نہ صرف حکومت کے خلاف تحریک چلائی جائے گی بلکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل دائر کرنے والے یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ کے عوامی بائیکاٹ کی مہم بھی شروع کی جائے گی۔ دینی راہنماؤں کا مطالبہ ہے کہ غیر سودی مالیاتی نظام کا مجوزہ مسودۂ قانون عوامی رائے کے لیے فوری طور پر مشتہر کیا جائے، یکم جولائی ۲۰۰۱ء تک اس کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے، اور یو بی ایل کے سربراہ کو ہدایت کی جائے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل فی الفور واپس لیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ دینی حلقوں کی یہ مشترکہ آواز ضرور مؤثر ثابت ہو گی، اور دینی جماعتوں کے قائدین اگر اپنے مطالبات و مقاصد کے لیے جدوجہد منظم کرنے کا سنجیدگی کے ساتھ اہتمام کر سکے تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کو منحوس اور ملعون سودی نظام سے پاک کرنے کی منزل یقیناً حاصل ہو کر رہے گی۔

   
2016ء سے
Flag Counter