سپریم کورٹ آف پاکستان کے شریعت ایپلٹ بینچ نے حکومتِ پاکستان اور یونائیٹڈ بینک کی درخواست پر سودی نظام کے تسلسل کو ایک سال مزید جاری رکھنے کی اجازت دے دی ہے۔ وزارتِ خزانہ نے اس موقع پر یہ موقف اختیار کیا تھا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے ۳۰ جون ۲۰۰۱ء تک سودی نظام ختم کرنے اور یکم جولائی سے اسلامی تعلیمات پر مبنی غیر سودی مالیاتی نظام کا آغاز کرنے کی جو ہدایت دے رکھی ہے اس پر عملدرآمد کے لیے ابھی تیاریاں مکمل نہیں ہیں، اس لیے اس حکم پر عملدرآمد کے لیے مزید چار سال کی مہلت دی جائے۔ جس پر سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بینچ نے چار سال کی بجائے صرف ایک سال کی مزید مہلت دے دی ہے جس کی رو سے اب حکومت اس بات کی پابند ہے کہ اگلے مالی سال یعنی یکم جولائی ۲۰۰۲ء سے ملک میں غیر سودی مالیاتی نظام کے نفاذ کو یقینی بنائے۔
ہمارے خیال میں وزارتِ خزانہ کے حکام کا یہ بہانہ عُذرِ لَنگ ہے۔ اس لیے کہ اب سے سترہ سال قبل ۱۹۸۴ء میں اس وقت کے وزیر خزانہ جناب غلام اسحاق خان نے اپنی بجٹ تقریر میں واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ غیر سودی مالیاتی نظام کا ڈھانچہ طے کیا جا چکا ہے اور اس سلسلہ میں تمام مشکلات کا حل تلاش کر لیا گیا ہے، اس لیے اگلے سال ۱۹۸۵/۱۹۸۶ء کا بجٹ اسلامی تعلیمات کے مطابق غیر سودی ہو گا۔ مگر اس کے سترہ سال بعد وزارتِ خزانہ کے حُکام کہہ رہے ہیں کہ اس سلسلہ میں ہماری تیاریاں مکمل نہیں ہیں۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ بات مشکلات اور رکاوٹوں کی نہیں بلکہ نیت اور ارادوں کی ہے، اور ہمارے حکمران سرے سے یہ چاہتے ہی نہیں ہیں کہ ملک سے استحصال، ظلم اور لوٹ مار پر مبنی سودی نظام کا خاتمہ ہو۔
سودی نظام پر اصرار کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں خدا و رسول کے خلاف اعلانِ جنگ قرار دیا ہے، اور قیامِ پاکستان کے بعد نصف صدی سے ہم اللہ تعالیٰ اور رسولِ خدا کے خلاف اس جنگ میں عملاً مصروف ہیں (نعوذ باللہ) جس کی سزا معاشی بدحالی کی صورت میں بھگت بھی رہے ہیں۔ لیکن ہمارے حکمرانوں کو ابھی تک ہوش نہیں آیا اور وہ عالمی مالیاتی اداروں کو خوش رکھنے اور ان کے مفادات کے تحفظ کے لیے اس جنگ کو مسلسل طول دیتے جا رہے ہیں۔ اس پر ہم اپنے اربابِ اقتدار کے لیے بارگاہِ ایزدی سے ہدایت کی دعا، یا بصورتِ دیگر اس سے قوم کی گلوخلاصی کی درخواست کے سوا اور کیا کر سکتے ہیں؟