’’یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی‘‘

   
مئی ۱۹۹۲ء

علامہ محمد اقبالؒ نے افغانستان پر برطانوی استعمار کی یلغار کی ناکامی پر فرنگیوں کے جذبات کی عکاسی ان الفاظ سے کی تھی ؎

افغانیوں کی غیرت دیں کا ہے یہ علاج
ملّا کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو

مگر جب افغانیوں کی غیرت ملی کا ترجمان اور محافظ ملّا فرنگی استعمار کے ہاتھوں افغانستان کے کوہ و دمن سے جلاوطن نہ ہو سکا تو یہ درد سر روسی استعمار نے اپنے کھاتے میں ڈال لیا۔ اور یہ سوچ کر افغانستان کو ملّا اور اس کے دین و ثقافت سے نجات دلانے پر کمر باندھ لی کہ برطانوی استعمار کی کامیابی کی راہ میں شاید جغرافیائی فاصلے رکاوٹ بن گئے ہوں اور روس اور افغانستان کے درمیان ان فاصلوں کا فقدان اس مشن میں روس کی کامیابی کی ضمانت بن جائے۔ روحانی اقدار اور اخلاقی روایات کی کارفرمائی کے منکر سوویت حکمرانوں کی نظر اس ’’ظاہر‘‘ سے آگے نہ جا سکی اور ایمان و یقین، عزیمت و استقامت اور وارفتگی و شیدائیت کی وہ ٹھوس رکاوٹیں ان کی نگاہوں سے اوجھل رہیں، جن سے ٹکرانے کی عبرتناک سزا سوویت یونین کے افغانیوں کے سامنے سپرانداز ہونے اور پھر ریت کی دیوار کی طرح بکھرتے چلے جانے کی صورت میں تاریخ عالم کا ناقابل فراموش حصہ بن چکی ہے۔

مسجد کی چٹائیوں میں مانگے تانگے کی روٹیوں کو الحمد اللہ کہہ کر حلق سے اتار کر قال اللہ وقال الرسولؐ کا درس حاصل کرنے والے اس ملّا کو تہذیب مغرب کے پرستاروں نے کون کونسے طعنے سے نہیں نوازا؟ اسے رجعت پسند، دقیانوسی، بنیاد پرست، کٹ ملا، عقل و شعور سے عاری، ہٹ دھرم، اندھا مقلد، لکیر کا فقیر، اور جمود ذہنی کا شکار جیسے القابات دیے گئے، اور اجتماعی زندگی کے ہر شعبہ کا دروازہ اس پر بند کر کے اسے ’’اچھوت‘‘ بنانے کی اجتماعی مہم چلائی گئی۔ لیکن وقت آنے پر وہی ملّا افغانیوں کی غیرت ملی کا عنوان بن کر ابھرا اور اپنے ایمان و یقین کی قوت کے ساتھ روسی استعمار کی یلغار کے سامنے سد سکندری بن گیا۔ آج افغان مجاہدین کی کامیابی پر بارگاہ ایزدی میں پوری امت اسلامیہ سجدہ ریز ہے اور جہاد افغانستان کے ثمرات و نتائج کی فہرست بن رہی ہے۔ سوویت یونین کا خاتمہ، مشرقی یورپ اور وسطی ایشیا کی ریاستوں کی آزادی، افغانستان کی آزادی اور پورے عالم اسلام میں جہاد کے جذبات کا فروغ ان ثمرات میں سرفہرست نظر آرہے ہیں۔ لیکن ہمیں افغان مجاہدین کے مقدس خون کے ساتھ تاریخ کے صفحات پر ایک اور فیصلہ بھی لکھا ہوا دکھائی دے رہا ہے، ملت اسلامیہ کو اقبالؒ کا شاہین مل گیا ہے اور اقبال کا مرد مومن اپنے چہرے سے تاریخ کی گرد جھاڑ کر قوم کے سامنے آ کھڑا ہوا ہے، اس کے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں کلاشنکوف ہے، اور وہ کابل کی پل خشتی کی مسجد کی بوسیدہ چٹائیوں پر کھڑا تہذیب مغرب کے اندھیروں میں سرگرداں امت مسلمہ کو آواز دے رہا ہے کہ ؎

جنہیں حقیر سمجھ کر بجھا دیا تم نے
یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی
   
2016ء سے
Flag Counter