(آن لائن تربیتِ خطباء کورس کی ایک نشست سے خطاب)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آج اس موضوع پر بات ہوگی کہ اسلام، فلسفہ اور سائنس کا آپس میں جوڑ کیا ہے، پس منظر کیا ہے، کشمکش کیا ہے، موجودہ صورتحال اور آئندہ کے امکانات کیا ہیں؟
انسان اپنی سوچ اور سمجھ کے ذریعے سے، اپنی عقل استعمال کر کے کسی معاملہ میں نتائج اخذ کرتا ہے تو وہ اس کا فلسفہ کہلاتا ہے۔ اور کسی معاملہ میں مشاہدات اور تجربات کے ذریعے سے نتائج تک پہنچا جائے تو اسے سائنس کہتے ہیں۔ جب تک کائنات کے حقائق کا مشاہدہ اور تجربہ شروع نہیں ہوا تھا تو فلسفہ ہی سب کچھ تھا اور سائنس بھی اسی کا حصہ تھی۔ کائنات کی چیزیں مشاہدہ کے دائرے میں آنا شروع ہوئیں تو فلسفہ اور سائنس الگ ہوتے چلے گئے۔ اسلام میں فلسفہ اور عقلیات کی کیا حیثیت ہے اور وہ سائنسی مشاہدات و تجربات کو کس نظر سے دیکھتا ہے، اس پر ہم بات کریں گے۔
دین کی بنیاد خالصتاً وحی پر ہوتی ہے، حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام حضرات انبیاء کرامؑ اپنی دعوت اور احکام و قوانین وحئ الٰہی کی بنیاد پر پیش کرتے رہے ہیں۔ اسی کا آخری اور مکمل ایڈیشن قرآن مجید، سنتِ رسول اور شریعت کے اصولوں کی صورت میں آج ہمارے پاس موجود ہے اور ان شاء اللہ قیامت تک یہی چلے گا۔ دوسری طرف عقل کی بنیاد پر احکام اور قواعد و ضوابط بھی دنیا میں شروع سے ہی چلے آ رہے ہیں۔ ہمارا ایک دور گزرا ہے جب عقلیات اور معقولات کا دائرہ یونانی، مصری، ایرانی اور ہندی فلسفہ تھا۔ اور فلسفے کی بنیاد خالصتاً عقل پر ہوتی تھی۔
چنانچہ جو مذاہب گنے جاتے ہیں ان میں بھی سماوی مذاہب اور غیر سماوی مذاہب کی تقسیم ہے۔ سماوی مذاہب وہ ہیں جن کی بنیاد وحی، آسمانی تعلیمات اور انبیاءؑ کے ارشادات پر ہے۔ اور جن مذاہب کے پیچھے کوئی نبی، کوئی کتاب یا کوئی وحی نہیں ہے وہ غیر سماوی مذاہب کہلاتے ہیں، اور ان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ سوسائٹی کی سوچ کے ذریعے روایات عقیدے کی شکل اختیار کر گئی ہیں جس کی بنیاد پر مذہب بن گیا۔ بعض مذاہب کے بارے میں اختلاف بھی ہے کہ وہ سماوی ہیں یا غیر سماوی۔ بہرحال غیر سماوی مذاہب دنیا میں بے شمار رہے ہیں اور آج بھی ہیں جن کے عقائد، قوانین، احکام اور ضوابط کی بنیاد انسانی سوچ، معاشرہ اور کلچر پر ہے۔
سماوی مذاہب میں اہلِ کتاب ہیں یعنی یہودی، عیسائی اور مسلمان۔ البتہ صابئین کے بارے میں اختلاف ہے، بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ ان کے پیچھے کوئی مذہب اور وحی تھی اور یہ بگڑے ہوئے ہیں۔ ہمارے بعض محققین ہندوؤں کے بارے میں بھی کہتے ہیں کہ ان کی اصل بنیاد وحی پر ہے۔ اس پر ریسرچ ہو رہی ہے اور بعض کتابیں آئی ہیں کہ ہندوؤں کی وید کا لب و لہجہ اور اس کا مواد آسمانی کتابوں جیسا ہے۔ اور یہ کہ ’’برہمن‘‘ کا لفظ ابراہیم سے بنا ہے۔ یہ ایک تحقیق ہے، ضروری نہیں کہ ہم تسلیم کریں اور یہ بھی ضروری نہیں کہ نفی کریں۔ تاریخی اور تہذیبی ریسرچ کا یہی منظر ہوتا ہے کہ ذہن میں بات آئے تو ٹھیک ہے، نہ آئے تو نہ سہی۔ لیکن بہرحال علمائے ہند میں سے بہت سوں کا یہ موقف ہے۔ مولانا شمس نوید عثمانی مرحوم کی ایک کتاب ہے” اگر اب بھی نہ جاگے تو“۔ اس میں انہوں نے دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ ویدیں اصلاً آسمانی کتابیں تھیں، بگڑتے بگڑتے ان کی یہ شکل بن گئی۔ جیسے آج کی تورات بگڑی ہوئی آسمانی کتاب ہے۔ ویسے بھی ہندوؤں کے ہاں برہمنوں کے سوا کسی کو وید پڑھنے کی اجازت نہیں تھی اس لیے وہ اخفا میں رہی۔ جب سے اس کو پڑھنا شروع کیا گیا ہے تو اس کا مواد بہت سا وہی ہے جو تورات اور انجیل کا ہے اور جو قرآن میں بھی ہے۔ مثلاً وید میں آپ توحید پڑھیں تو یوں سمجھیں جیسے آپ بائبل کی توحید پڑھ رہے ہیں۔ اب ویدوں کے تراجم شروع ہوئے ہیں، ورنہ پہلے تو یہ قانون بھی بتایا جاتا تھا کہ وید کی کتاب کو برہمن کے سوا کوئی ہاتھ لگائے گا تو ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔
ایک بات تو یہ کہ غیر سماوی مذاہب کی بنیاد سوسائٹی کی عقل اور معاشرتی تجربات پر ہے، لیکن مذہب سے ہٹ کر فلاسفہ کے ہاں بھی عقل انسانی سوسائٹی کا معیار چلی آ رہی ہے۔ ایک سمجھدار آدمی عقل سے جو سوچتا ہے اور سوچتے سوچتے جو رائے نکالتا ہے وہ اس کا فلسفہ کہلاتا ہے۔ البتہ انسانی سوچ بہت سے حوالوں سے ایک جیسی نہیں ہے، مثلاً:
- افراد کی عقل اور سوچ میں فرق ہوتا ہے۔ دو بھائی ہوں گے لیکن ان کی عقل کا معیار ایک نہیں ہوگا، میاں بیوی ہیں لیکن عقل کا معیار جدا جدا ہے، باپ بیٹا ہیں لیکن عقل کا معیار مختلف ہے۔
- اسی طرح عقل زمانے کے اعتبار سے بھی ایک نہیں رہی۔ آج سے سو سال پہلے کی عقل کا دائرہ اور تھا، آج عقل کا دائرہ اور ہے، سو سال بعد کی عقل کا دائرہ یقیناً اور ہوگا۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو سوچنے سمجھنے اور مشاہدات سے نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت دی ہے، عقل یہی ہے۔ انسانی عقل کی اپنے دائرے اور صلاحیت کے اعتبار سے ایک دو نہیں بلکہ بیسیوں دائرے اور سطحیں ہیں۔ آج کے ماحول میں یوں سمجھ لیجئے کہ بچے کا دماغ خالی کیسٹ یا ڈسک ہوتی ہے، ماحول اس کے اندر فیڈنگ کرتا ہے۔ جیسے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’کل مولود یولد علی الفطرۃ فابواہ یہودانہ او ینصرانہ او ویمجسانہ‘‘ کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ دینِ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر ماں باپ اس کو مجوسی، عیسائی،یا یہودی بناتے ہیں۔ اس کا ترجمہ میں یوں کیا کرتا ہوں کہ بچہ ایک خالی کیسٹ کے طور پر دنیا میں آتا ہے، پھر اس کا ماحول اس میں جو فیڈ کر دے وہی آگے چلتا ہے۔ سب سے پہلے گھر کا ماحول یعنی ماں باپ اور بہن بھائی، پھر محلہ،سوسائٹی اور عالمی حالات ہیں۔ جوں جوں فیڈنگ ہوتی رہتی ہے مشاہدات اور نتائج بدلتے رہتے ہیں۔ اس لیے ایک آدمی کی رائے ایک مسئلے پر دس سال پہلے اور تھی، آج اور ہے، دس سال بعد اور ہو گی۔ کیونکہ آج سے دس سال پہلے کے تجربات و مشاہدات کا دائرہ اور تھا، آج اور ہے، دس سال بعد اور ہوگا، اس لیے عقل کے نتائج بھی بدلتے رہتے ہیں۔ عقل اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے جسے استعمال کرنے کی اللہ تعالیٰ نے ترغیب دی ہے۔
آج کل ایک بات چلتی ہے عقلِ عام، عقلِ مشترک اور کامن سینس کے حوالے سے۔ آج کی دنیا کے دلائل میں یہ بڑی دلیل بتائی جاتی ہے کہ یہ کامن سینس ہے۔ اور مجھے بڑا تعجب ہوتا ہے جب لوگ کہتے ہیں کہ قرآن کی تشریح بھی کامن سینس پر کرو، اور سنت کی تشریح بھی کامن سینس سے کرو۔ حالانکہ کامن سینس جدا جدا ہے، امریکہ کی کامن سینس اور ہے، ہندو معاشرے کی اور ہے، یہودی معاشرے کی اور ہے، ہمارے ہاں اور ہے۔ تو کتنی تشریحات کرو گے؟ کامن سینس تو یہ ہے کہ عقل کے کمپیوٹر میں گھر کا ماحول، محلہ، بازار، شعبہ اور معاشرہ جو فیڈنگ کرتے ہیں اس کے مطابق اس کا پیکیج بنتا ہے۔
وحی اور عقل کے یہ دو سلسلے شروع سے چلے آ رہے ہیں اور یہ پرانی کشمکش ہے۔ ایک اور بنیادی فرق آپ دیکھیں گے کہ حضرات انبیاء کرامؑ وحی کی بنیاد پر بات کرتے ہیں اور ان کا پیغام’’ان اتبع الا ما یوحیٰ الی‘‘ ہے۔ اس لیے بنیادی عقائد میں حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک کوئی اختلاف نہیں ہے۔ جو عقائد حضرت آدمؑ کے تھے وہی حضرت محمدؐ کے ہیں۔ اسے نبی کریمؐ نے یوں تعبیر فرمایا کہ ہم انبیاء کرام علاتی بھائی ہیں ’’امہاتنا شتی و ابونا واحد‘‘ ہمارا باپ ایک ہے، مائیں الگ الگ ہیں۔ یعنی بنیاد اور عقیدہ ایک ہے جبکہ احکام و شریعت اپنے اپنے زمانے کے مطابق الگ الگ ہیں۔ تمام انبیاء کرامؑ کے عقائد میں آپ کو کہیں ذرا اختلاف بھی نہیں ملے گا بلکہ سب متفق ہیں۔ اس کے برعکس عقل کی بنیاد پر جو فلسفہ تشکیل پاتا ہے، آپ تاریخ پر غور کر لیں کہیں دو فلسفی بھی کسی ایک بات پر متفق نہیں ہیں۔ یہ وحی اور عقل کا فرق ہے۔ وحی کا دائرہ اور معیار ایک ہے کہ اس کا منبع ایک ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، اس لیے وحی میں عقائد کے اعتبار سے کہیں بھی فرق نظر نہیں آئے گا۔ البتہ احکام و قوانین زمانے کی ضرورت کے لحاظ سے بدلتے رہتے ہیں، ’’امہاتنا شتی‘‘ کا یہی مطلب ہے۔
عقل کی نفی درست نہیں ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے اور ہماری ضرورت ہے۔ قرآن مجید تدبر و تفکر اور تعقل کی دعوت دیتا ہے۔ ’’افلا تعقلون‘‘ عقل سے کام کیوں نہیں لیتے؟ ’’افلایتدبرون‘‘ تدبر کیوں نہیں کرتے ہو؟ ’’اولم یتفکروا‘‘ غور و فکر نہیں کرتے ہو۔ وحی اتھارٹی ہے اور عقل معاون ہے۔ جہاں وحی نہیں ہوگی وہاں عقل کے مطابق فیصلہ کریں گے اور ہم عقل کے مطابق فیصلے کرتے بھی ہیں۔ سینکڑوں مقامات پر جہاں وحی نہیں ملتی تو اجتہاد اور قیاس کرتے ہیں جو کہ عقل کا استعمال ہے۔ لیکن جہاں وحی اور عقل کا ٹکراؤ ہوگا تو وحی اتھارٹی ہے، وہاں عقل کی بات تسلیم نہیں کی جائے گی۔ وحی کی اتھارٹی کے بغیر عقل پر سواری یوں ہے جیسے کوئی آدمی تیز رفتار گھوڑے پر بیٹھا ہو لیکن لگام اس کے ہاتھ میں نہ ہو۔ وہ گھوڑا اپنے سوار کا جو حشر کرے گا وہی عقلِ محض انسانی سوسائٹی کا کرتی ہے۔
قرآن مجید نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ سوسائٹی دو بنیادوں پر لوگوں کے ہاں تشکیل پاتی ہے (۱) عقل کی بنیاد پر اور (۲) خواہش کی بنیاد پر۔ سوسائٹی کیا سوچتی ہے اور اس کی خواہش کیا ہے، آج کا فلسفہ بھی یہی ہے جسے ہم مغربی اور عالمی فلسفہ کہتے ہیں۔ قرآن مجید نے ایک جملے میں اسے بیان کیا ہے ’’ان یتبعون الا الظن وما تھوی الانفس‘‘ ۔ عقل کا زیادہ سے زیادہ نتیجہ ظنِ غالب ہوتا ہے۔ ایک آدمی سے دوسرے آدمی کی رائے مختلف ہوگی، ایک زمانے سے دوسرے زمانے کی رائے مختلف ہوگی، خود ایک آدمی کی رائے مختلف اوقات میں مختلف ہوگی۔ اور کہیں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کے بعد اس مسئلے پر سوچنے کی گنجائش نہیں رہی۔ اور کسی بھی علم میں آگے بڑھنے کا امکان موجود ہو وہ یقینی نہیں ہوتا بلکہ ظنی ہوتا ہے۔ یقین آئے گا تو وحی سے آئے گا، اس لیے کہ جو کہنے والا ہے اس کا علم یقینی ہے، وہ ’’علام الغیوب‘‘ ہے، سب علوم کا سرچشمہ وہی ہے۔
میں نے یہ بات عرض کی ہے کہ عقل کی نفی درست نہیں، یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے، لیکن عقل معاون ہے اتھارٹی نہیں ہے۔ اس سے پہلے یہ بات عرض کی کہ عقل اور وحی کا شروع سے ہی ٹکراؤ چلا آ رہا ہے۔ جہاں اتھارٹی کا معاملہ آتا ہے وہاں ٹکراؤ ہو جاتا ہے اور آج بھی یہی جھگڑا ہے۔ دنیا کا فلسفہ یہ کہتا ہے کہ آسمانی تعلیمات کو عقل کی بنیاد پر پرکھو کیونکہ عقل اتھارٹی ہے۔ جبکہ آسمانی تعلیمات والے کہتے ہیں کہ عقل کی باتوں کو وحی کی بنیاد پر پرکھو کیونکہ اتھارٹی وہ ہے۔ چنانچہ بہت سی باتیں ایسی ہیں جو وحی نے کہیں مگر عقل نے کہا کہ یہ درست نہیں۔ لیکن پھر وقت نے ثابت کر دیا کہ وحی کی بات درست تھی۔ اس پر بیسیوں مثالیں ہیں، دو مثالیں عرض کرتا ہوں:
- ہمارا اور معتزلہ کا ایک طویل اختلاف چلتا رہا ہے کہ قیامت کے دن اقوال اور اعمال کا وزن ہوگا یا نہیں؟ اعمال کا وزن نہ ہونے کی ایک بہت بڑی دلیل یہ تھی کہ اعمال کا تو کوئی وجود نہیں ہوتا، اعمال جوہر نہیں بلکہ عرض ہیں، اور اعراض کا وزن نہیں ہوتا۔ لیکن وقت گزرتا رہا اور وہ زمانہ آیا کہ اعراض تُلنے لگے۔ حرارت اور برودت یعنی ٹمپریچر تُلنے لگا۔ جب اعراض تُلنے لگے تو اس کی تائید ہو گئی کہ قرآن مجید جو کہتا ہے کہ اعمال و اقوال تولے جائیں گے تو یہ ناممکن نہیں ہے۔ اس سے وزنِ اعمال کا مسئلہ واضح ہو گیا۔ ہم چھوٹا سا آلہ منہ میں رکھتے ہیں اور بتا دیتے ہیں کہ اس درجے کا بخار ہے۔ ہوا کی نمی، حرارت اور برودت کا درجہ معلوم ہو جاتا ہے۔ وقت نے وحی کی بات درست ثابت کر دی۔
- قرآن مجید نے کہا ’’فمن یعمل مثقال ذرۃ خیراً یرہ و من یعمل مثقال ذرۃ شراً یرہ‘‘ جس نے ذرے کے برابر خیر کا عمل کیا وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرے کے برابر شر کا عمل کیا وہ اس کو دیکھ لے گا۔ لیکن عمل کو کیسے دیکھے گا، یہ بات آج سے سو سال پہلے تک سمجھ میں آنے والی نہیں تھی۔ کیونکہ عمل ہونے کے بعد ختم ہو گیا تو اس کو دوبارہ کیسے دیکھا جا سکتا ہے، ہم اس کی مختلف توجیہات کرتے رہے۔لیکن آج دنیا نے دیکھ لیا کہ ایک بار کیا ہوا عمل دوبارہ دیکھا جاتا ہے اور ایک بار نہیں بلکہ بار بار دیکھا جاتا ہے۔
الغرض جو بڑی بڑی باتیں ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کی جاتی تھی وہ آج ختم ہو گئی ہیں۔ ہمارے ہاں ایک محاورہ بولا جاتا تھا ’’اذا تلفظ فتلاشٰی‘‘ کہ جب بات منہ سے نکلتی ہے تو لا شے اور معدوم ہو جاتی ہے، صدیوں تک یہ محاورہ چلتا رہا۔ لیکن اب بات منہ سے نکلتی ہے تو معدوم نہیں ہوتی بلکہ ریکارڈ ہوتی ہے جیسے میری بات ریکارڈ ہو رہی ہے۔ یہ آواز آج سے پچاس سال بعد بھی سنی جا سکتی ہے۔ لہٰذا قرآن مجید نے جو کہا کہ وہ اپنے اعمال کو دیکھے گا تو اس کا مطلب ہے کہ خود کو وہ عمل کرتا ہوا دیکھے گا۔ یہ اب کوئی اشکال کی بات نہیں رہی۔
بات میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ چونکہ عقل کا دائرہ کبھی بھی ایک نہیں رہا اس لیے عقل کی کوئی رائے اور فیصلہ حتمی اور یقینی نہیں ہے، زیادہ سے زیادہ ظنِ غالب ہے۔جبکہ وحی کی بنیاد چونکہ ’’علیم بذات الصدور‘‘ کی اطلاع پر ہے اس لیے وہ یقینی ہے۔ قرآن پاک نے اسی کو تعبیر کیا ہے ’’ان یتبعون الا الظن وما تہوی الانفس ولقد جاءہم من ربہم الہدیٰ‘‘ ۔یقین اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے۔ باقی سوسائٹی کی خواہشات اور سوچ ہے۔ چنانچہ آسمانی تعلیمات اور غیر سماوی تعلیمات، یا دوسرے لفظوں میں وحی اور عقل کی یہ کشمکش چلی آ رہی ہے۔ میں نے آپ کو بنیادی بات یہ بتائی ہے کہ معقولات کی کوئی بات جب وحی سے ٹکرائے گی تو ہم تسلیم نہیں کریں گے، بلکہ وحی کی بات تسلیم کریں گے کہ ٹکراؤ کی صورت میں اتھارٹی وہ ہے۔
ہمارے ہاں معقولات میں ایک بحث پڑھی پڑھائی جاتی ہے فلسفہ اور سائنس کے حوالے سے۔ سوچ اور سمجھ کے ذریعے نتائج اخذ کرنا فلسفہ ہے، جبکہ مشاہدہ اور تجربہ کے ذریعے نتائج معلوم کرنا سائنس ہے۔ جب تک کائنات کی چیزوں کا مشاہدہ اور تجربہ شروع نہیں ہوا تھا تو سائنس اپنا الگ وجود نہیں رکھتی تھی بلکہ وہ فلسفے کا حصہ تھی۔ ہمارے ہاں اب بھی فلکیات کو معقولات میں پڑھایا جاتا ہے۔ ہم جب معقول اور منقول کی تقسیم کرتے ہیں تو فلسفہ اور فلکیات معقول میں شمار ہوتے ہیں، حالانکہ فلکیات کو معقولات سے الگ ہوئے صدیاں ہو گئی ہیں۔ مغربی دنیا میں جب فلکیات کی بنیاد عقلیات کی بجائے مشاہدات پر آئی تو اس سے سائنس وجود میں آئی۔ سائنس کی بنیاد عقلیات پر نہیں ہے بلکہ مشاہدات و تجربات پر ہے۔ جب تک کائنات کے حقائق کے مشاہدات اور تجربات کا دور نہیں آیا تھا تو سائنس بھی معقولات کا حصہ کہی اور سمجھی جاتی تھی۔ لیکن جب کائنات کے حقائق مشاہدہ کے دائرے میں آتے چلے گئے تو سائنس فلسفے سے الگ ہو گئی۔ دوربینیں اور خورد بینیں ایجاد ہوئیں، زمین اور ہوا کے تجربات ہوئے، ستاروں کے مشاہدات ہوئے۔ اب تو چاند پر بھی جانا شروع ہو گئے ہیں۔ یہ مشاہدات و تجربات کا دور ہے اور یہ سائنس کا دور کہلاتا ہے۔
عالمی سطح پر فلسفہ اور سائنس تقسیم ہو گئے، معقولات کا دائرہ الگ ہو گیا، مشاہدات و تجربات کا دائرہ الگ ہو گیا۔ اس تقسیم کے بعد ایک بنیادی تبدیلی آئی ہے جو ہمیں محسوس نہیں ہوئی۔ ہماری لڑائی فلسفے سے تھی، اب بھی ہے اور آئندہ بھی رہے گی۔ جبکہ سائنس سے ہمارا کوئی جھگڑا نہیں ہے بلکہ سائنس ہماری معاون ہے۔ جوں جوں مشاہدات و تجربات بڑھتے جا رہے ہیں، سائنس قرآن مجید اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کردہ ارشادات کی تائید کرتی جا رہی ہے۔
تاریخی پس منظر کے اعتبار سے بھی سائنس اور اسلام کی کوئی لڑائی نہیں ہے ۔ چونکہ مغرب کے مسیحی مذہبی پیشواؤں نے سائنس کی مخالفت کی تھی، سائنسدانوں کو سزائیں دی تھیں، ان پر فتوے جاری کیے تھے۔ مغربی مذہبیت کی لڑائی سائنس سے تھی، وہاں مذہب شکست کھا گیا اور سرنڈر ہو گیا۔ جبکہ ہم مسلمانوں نے تو سائنس کی بنیادیں فراہم کی ہیں، ہم نے سائنس کی مخالفت نہیں کی بلکہ اس کو اپنا مؤید سمجھا ہے کہ سائنس قرآن مجید اور سنتِ رسول کے حقائق کی تصدیق کرتی جا رہی ہے، اور جو باتیں ابھی تک سمجھ میں نہیں آ رہیں آئندہ بھی سائنس ہی ہمیں سمجھائے گی۔ جیسا کہ میں نے اوپر وزنِ اعمال کے حوالے سے دو مثالیں ذکر کی ہیں۔ سائنس ہماری تائید کر رہی ہے کہ تم ٹھیک کہتے تھے، اعمال تولے جا سکتے ہیں اور رؤیتِ اعمال بھی ممکن ہے، اپنی بات کو دوبارہ سنا اور اپنے عمل کو دوبارہ دیکھا جا سکتا ہے۔ اس پر دو چھوٹی چھوٹی مثالیں اور دوں گا:
- بخاری شریف کی روایت ہے کہ جناب نبی کریمؐ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ ماں کے پیٹ میں جب حمل ٹھہرتا ہے تو ایک فرشتے کی ڈیوٹی لگ جاتی ہے جو اللہ پاک کو رپورٹ دیتا رہتا ہے ’’یا رب نطفۃ، یا رب علقۃ، یا رب مضغۃ‘‘۔ ابھی نطفہ ہے، ابھی علقہ ہے، ابھی مضغہ ہے۔ جب تین چلے مکمل ہو جاتے ہیں اور اب روح پھونکنی ہے اور کنکشن دینا ہے تو فرشتہ عرض کرتا ہے ’’یا رب! ما اجلہ، ما رزقہ، ماکسبہ، شقی او سعید؟‘‘ اس کو ہم کنکشن دے کر دنیا میں بھیجنے لگے ہیں ’’ما اجلہ؟‘‘ اس کی عمر کتنی ہوگی؟ ’’ما رزقہ؟‘‘ اس کا کوٹا کتنا منظور کیا ہے؟ ’’ماکسبہ؟‘‘ یہ وہاں کیا کرے گا؟ ’’شقی او سعید‘‘ اس کی کیٹاگری کون سی ہے؟ فرشتہ یہ سوال کرتا ہے تو جو اس کو جواب ملتا ہے وہ لکھا جاتا ہے اور کوڈ سیل ہو جاتا ہے اور پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔
اس حدیث کے مطابق روح ڈالنے سے پہلے چار باتیں بنیادی طور پر طے ہو جاتی ہیں کہ آدمی کی عمر کتنی ہوگی، کسب کیا ہوگا، رزق کا کوٹا کتنا ہے اور کیٹاگری کیا ہوگی؟ اب سائنس بھی اس نتیجے تک پہنچی ہے کہ انسان میں ایک جین ہے جس میں اس کی زندگی کا سارا ڈیٹا محفوظ ہے لیکن وہ سیل ہے۔ سائنسدان کہتے ہیں کہ ہم مرکز تک پہنچ گئے ہیں لیکن ہم سے کوڈ نہیں کھل رہا۔ جس دن کوڈ کھل گیا تو ہم اس نوعیت کی معلومات بتا سکیں گے۔ میرا بنیادی دعویٰ یہ ہے کہ سائنس کائنات کے حقائق کی تصدیق کرتی ہے اور وہ حقائق سچے دین کی تصدیق کرتے ہیں۔
- بخاری شریف ہی کی روایت ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جب انسان فوت ہو جاتا ہے، دفن کیا جاتا ہے ’’یبلی من الانسان کل شیئ الا عجب ذنبہ فیھا یرکب‘‘ مٹی میں مل جاتا ہے تو اس کی ہر چیز فنا ہو جاتی ہے مگر جسم کا ایک جز ایسا ہے جو باقی رہتا ہے اور وہ دمچی کا مہرہ ہے، انسان کی دوبارہ تخلیق اور ترکیب اسی سے ہوگی۔ یہ حدیث پڑھ لیجیے اور آج کی سائنس جس حقیقت تک پہنچ چکی ہے اس پر غور کر لیجئے کہ کلوننگ کیا ہے؟ انسان کے جسم میں ایک چیز ہوتی ہے جس سے انسان کی دوبارہ ترکیب ہو سکتی ہے۔ جانوروں پر اس کے تجربات کیے جا چکے ہیں، ایک بھیڑ کی کلون سے دوسری بھیڑیں پیدا کی گئی ہیں۔ البتہ انسان پر تجربہ نہیں کر رہے کیونکہ مخالفت بہت زیادہ ہے۔ ہم تو مخالفت کر ہی رہے ہیں، پاپائے روم بھی شدید مخالفت کر رہے ہیں کہ انسانی سوسائٹی کا پورا ڈھانچہ بگڑ جائے گااور نظام تباہ ہو جائے گا۔
اس کی تباہی کی ایک جھلک عرض کروں، میرے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ہے لیکن میرا وجدان یہ کہتا ہے کہ یاجوج ماجوج بھی شاید اسی قسم کے عمل سے کوئی فوج نکلے گی۔ کسی سائنسدان کا دماغ خراب ہوگا، وہ کسی لمبے تڑنگے آدمی کی کلوننگ کریں گے جس سے یاجوج ماجوج نکل آئیں گے اور وہ دنیا میں تباہی پھیلا دیں گے۔ یہ میرا اندازہ ہے کہ شاید اسی طرح کا کوئی معاملہ ہوگا۔ میں بنیادی بات یہ کر رہا ہوں کہ سائنس جوں جوں آگے بڑھ رہی ہے، وحی الٰہی کے حقائق کی تصدیق کرتی جا رہی ہے۔ اور جہاں کوئی جھگڑا ہے اس کا فیصلہ بھی مزید مشاہدات کے بعد ہو جائے گا جو مذہب کے حق میں ہوگا، آسمانی تعلیمات کے مطابق ہوگا اور جوں جوں سائنس آگے بڑھے گی اس کی تصدیق کرتی چلی جائے گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
ایک بات اور کہہ کر بات ختم کرتا ہوں۔ ایک سیمینار میں ملک کے ایک بڑے سائنسدان اور ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر صدارت فرما رہے تھے۔ سائنس کا موضوع تھا۔ میں نے وہاں کہا کہ ہماری آپ سائنس والوں سے کوئی لڑائی نہیں ہے۔ ایک چیز کے بارے میں دو سوالات پر آپ کام کر رہے ہیں اور دو سوالات پر ہم کام کر رہے ہیں۔ مثلاً انسان کے جسم کا موضوع میڈیکل سائنس ہے۔ جو یہ بتاتی ہے کہ (۱) انسانی جسم کیا ہے (۲) اور یہ کیسے کام کرتا ہے۔ یعنی چمڑے کے غلاف کے اندر جو مشینری ہے ، اس کے اعضا اور پرزے کیا ہیں، ان کا نظم کیا ہے، اور یہ کیسے کام کرتے ہیں؟
میں نے کہا کہ انسانی جسم کے متعلق دو سوال اور بھی ہیں کہ (۳) یہ کیوں ہے (۴) اور کس نے بنایا ہے؟ یعنی اس کا مقصد اور ایجنڈا کیا ہے اور اس کو بنایا کس نے ہے؟ میں نے کہا کہ ’’انسان کیا ہے‘‘ اور ’’وہ کیسے کام کرتا ہے‘‘ یہ سائنس کا موضوع ہے۔ اور ’’انسان کیوں ہے‘‘ اور ’’اسے کس نے بنایا ہے‘‘ یہ ہمارا موضوع ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں اربابِ دانش کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’ان فی خلق السماوات والارض واختلاف اللیل والنھار لایات لاولی الالباب‘‘۔ اربابِ دانش وہ ہیں جو آسمان و زمین کی تخلیق پر اور دن رات کے اختلاف پر غور کرتے ہیں۔ ’’یتفکرون فی خلق السماوات والارض‘‘ آسمان اور زمین کے حقائق پر تفکر کرتے ہیں۔ اس حوالے سے کہ ’’ربنا ما خلقت ہذا باطلا‘‘ اے اللہ! تو نے یہ بیکار پیدا نہیں کیا۔ وہ اس کی مقصدیت پر غور کرتے ہیں۔
میں نے ان سے کہا کہ ہمارا اور آپ کا کوئی جھگڑا اور تنازعہ نہیں ہے، دو سوالوں پر آپ بحث کرتے ہیں اور دو سوالوں پر ہم بحث کرتے ہیں۔ اسلام اور فلسفہ تو متصادم ہیں لیکن اسلام اور سائنس متصادم نہیں ہیں۔