ایک سوڈانی راہنما سے ملاقات

   
جولائی ۱۹۹۷ء

ماہِ رواں کے آغاز میں برمنگھم کی مرکزی جامع مسجد میں منعقدہ جمعیت علماء برطانیہ کی سالانہ ’’توحید و سنت کانفرنس‘‘ میں برادر مسلم ملک سوڈان کے ایک راہنما ڈاکٹر الامین محمد عثمان سے ملاقات ہوئی، جو کانفرنس میں اپنے خطاب کے دوران دنیا بھر کے مسلمان بھائیوں سے اپیل کر رہے تھے کہ وہ سوڈان کے خلاف مغرب کی جارحیت کے مقابلہ میں اپنے سوڈانی بھائیوں کو تنہا نہ چھوڑیں۔ اس کے چند روز بعد لندن میں ان کے ساتھ ایک مستقل نشست کا موقع بھی مل گیا جس میں ورلڈ اسلامک فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد عیسیٰ منصوری، اسلامک ورلڈ لیگ کے رابطہ سیکرٹری جناب شفیق احمد، اور سعودی عرب کے اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر محمد المسعری بھی ہمارے ساتھ شریک تھے۔

ڈاکٹر الامین محمد عثمان سوڈان کی ایک پرانی دینی تنظیم ’’منظمۃ الدعوۃ الاسلامیۃ‘‘ کے سیکرٹری جنرل ہیں اور ان دنوں وزٹ پر برطانیہ آئے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سوڈان میں گزشتہ دس برس سے اسلامائزیشن کا کام جاری ہے اور تین شعبوں میں بتدریج کام آگے بڑھ رہا ہے:

  1. ملکی قوانین کو قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھالنے کا کام کم و بیش مکمل ہو گیا ہے،
  2. تعلیم کے ذریعے نئی پود کی صحیح اسلامی تربیت اور ذہن سازی کی جا رہی ہے،
  3. اور معاشی شعبہ میں خودکفالت کی منزل کی طرف پیشرفت جاری ہے، جس کے لیے ’’ناکل مما نزرع و نلبس مما نصنع‘‘ (یعنی) ’’اپنا بویا ہوا کھائیں گے اور اپنا بُنا ہوا پہنیں گے‘‘ کے قومی نعرہ کے ساتھ بڑی طاقتوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی پالیسی ترک کر دی گئی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ زراعت میں ترقئ مسلسل اور محنت کے باعث سوڈان گندم میں خودکفیل ہو گیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے مزید انعام یہ فرمایا ہے کہ سوڈان میں تین جگہ سے تیل نکل آیا ہے جو سرِدست ہماری ضروریات کے لیے کافی ہے، اور آئندہ دو تین سال تک ہم اسے برآمد کرنے کی پوزیشن میں بھی ان شاء اللہ العزیز آجائیں گے۔

ڈاکٹر الامین محمد عثمان کا کہنا ہے کہ سوڈان کے خلاف مغربی ذرائع ابلاغ کے مسلسل پراپیگنڈا، اسے دہشت گرد قرار دینے، اور سوڈان کے جنوب میں علیحدگی پسندوں کی پیٹھ تھپتھپانے کی اصل وجہ یہی ہے۔ کیونکہ سوڈان رقبہ کے لحاظ سے عالمِ اسلام کا سب سے بڑا ملک ہے جس کی آبادی اڑھائی کروڑ کے لگ بھگ ہے، البتہ اس آبادی کا ۲۵ فیصد حصہ جنوب میں آباد ہے، جس میں مسلمانوں کا تناسب ۱۵، ۱۶ فیصد ہے، اور اسی قدر تناسب عیسائیوں کا ہے، جبکہ باقی آبادی بت پرست قبائل کی ہے۔ اور جنوب کی سرحد کے ساتھ کینیا، یوگنڈا، زائر اور ایتھوپیا جیسے غیر مسلم ممالک ہیں جو جنوبی سوڈان کے عیسائیوں اور دیگر غیر مسلموں کو سوڈان کی مرکزی حکومت کے خلاف مسلسل ابھارتے رہتے ہیں۔ کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ اگر سوڈان میں اسلامی اصلاحات اور خود کفالت کا عمل کامیاب ہو گیا تو اس کے اثرات پڑوسی ممالک پر لازماً پڑیں گے۔ اس لیے وہ اسلامی اثرات کو اپنی سرحدات کی طرف بڑھنے سے روکنے کے لیے مغربی ممالک کے آلۂ کار بن کر خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ

  1. جنوبی سوڈان میں ایک طرف تو عیسائیوں کے مشنری ادارے مغربی ممالک کی امداد سے دعوت و تبلیغ کا وسیع جال پھیلائے ہوئے ہیں تاکہ وہ بت پرست قبائل کو مسلمان ہونے سے روک سکیں۔
  2. اور دوسری طرف اس خطہ کے بعض قبائل کو علیحدگی پر ابھار کر انہیں اسلحہ اور تربیت مہیا کی جا رہی ہے تاکہ وہ وفاقی حکومت کو جنوب میں مسلسل الجھائے رکھیں۔

اور سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ مغربی ممالک اور جنوبی سرحد کے مذکورہ غیر مسلم ممالک کے ساتھ اس سازش میں مصر بھی برابر کا شریک ہے اور ان سے بھرپور تعاون کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوڈان کی اسلامی تحریک ڈاکٹر حسن ترابی اور جنرل عمر بشیر کی قیادت میں پورے عزم کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے، اور ہمیں پوری دنیا میں اپنی اسلامی برادری اور دینی مراکز پر امید ہے کہ وہ مغربی جارحیت کے خلاف سوڈان کی اخلاقی اور سیاسی سپورٹ کریں گے اور عیسائی مشنری کی مہم کے جواب میں اسلام کی دعوت و تبلیغ کے محاذ پر ہمارے ساتھ ہر ممکن تعاون کریں گے۔

   
2016ء سے
Flag Counter