قراردادِ مقاصد اور سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ سید نسیم حسن شاہ

   
اپریل ۲۰۰۰ء

روزنامہ نوائے وقت لاہور ۱۳ مارچ ۲۰۰۰ء کی ایک رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق چیف جسٹس جناب سید نسیم حسن شاہ نے لاہور میں ’’قراردادِ مقاصد‘‘ کے عنوان پر ایک خصوصی نشست سے خطاب کرتے ہوئے عدلیہ پر زور دیا ہے کہ وہ جوڈیشل ایکٹیوازم کے تحت قراردادِ مقاصد کو من و عن نافذ کر دے تاکہ اسلامی معاشرے کا قیام ممکن ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ عدالتوں کو رویہ بدلنا ہو گا اور دیکھنا ہو گا کہ جہاں اسلامی قوانین کا معاملہ ہے وہاں جوڈیشل ایکٹیوازم کے تحت فیصلہ کریں اور جوڈیشل ایکٹیوازم کر کے اسلام نافذ کرائیں۔

’’قراردادِ مقاصد‘‘ دستورِ پاکستان کی وہ بنیادی اساس ہے جو ۱۹۴۹ء میں شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کی مساعی سے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے وزیراعظم لیاقت علی خان مرحوم کی تحریک پر راہنما اصول کے طور پر پاس کی تھی۔ اور جس میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت ِمطلقہ کو تسلیم کرتے ہوئے قرار دیا گیا ہے کہ پاکستان کا نظام عوام کے منتخب نمائندے اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے چلائیں گے اور ملک میں قرآن و سنت کے احکام کی عملداری قائم کی جائے گی۔ یہ قرارداد ملک کے ہر دستور کا حصہ رہی ہے لیکن عدلیہ سمیت ملک کے کسی ادارے نے اس پر عملدرآمد کی طرف توجہ نہیں دی، ورنہ اگر قراردادِ مقاصد پر صحیح معنوں میں عمل ہوتا تو اب تک اسلامی نظام ملک میں مکمل طور پر نافذ ہو چکا ہوتا۔

ہمیں سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس نسیم شاہ کے اس ارشاد سے اتفاق ہے کہ عدلیہ کو جوڈیشل ایکٹیوازم یعنی کسی درخواست کے بغیر ازخود کاروائی کرتے ہوئے ملک میں قراردادِ مقاصد پر عملدرآمد کا اہتمام کرنا چاہیے۔ مگر جسٹس صاحب موصوف سے ہمیں یہ شکوہ ہے کہ جب وہ خود چیف جسٹس آف پاکستان تھے تو ان کے سامنے ایک کیس میں یہی سوال آیا تھا کہ اگر دستور کی کسی دفعہ کا قرارداد مقاصد سے تصادم ہو تو کس کو ترجیح دی جائے گی؟ اگر وہ اس وقت یہ فیصلہ صادر فرما دیتے کہ ایسی صورت میں قراردادِ مقاصد کو ترجیح ہو گی تو ملک میں عدلیہ کے ایک تاریخی ساز فیصلہ کے تحت اسلامی دور کا آغاز ہو جاتا۔ مگر جسٹس نسیم حسن شاہ صاحب نے اس کیس میں یہ فیصلہ دے کر خود قرارداد مقاصد کا راستہ روک دیا تھا کہ دستور کی کسی دفعہ کے قراردادِ مقاصد کے منافی ہونے کی صورت میں ترجیح دستور کو ہی دی جائے گی۔

اس لیے قرارداد مقاصد کے خلاف اتنا بڑا فیصلہ صادر کرنے کے بعد اب ان کی طرف سے قرارداد مقاصد کے حق میں لمبے لمبے لیکچر دینے کی کوئی وجہ اور تُک سمجھ میں نہیں آتی۔ ہاں اگر وہ واقعی اپنے کیے پر نادم ہیں اور اس کی تلافی چاہتے ہیں تو اس کا طریقہ سیمینار اور لیکچر نہیں ہیں، بلکہ اس کی صحیح صورت یہ ہے کہ وہ ممتاز قانون دانوں کا اپنی سربراہی میں ایک پینل تشکیل دیں جو قرارداد مقاصد پر عملدرآمد کے لیے خود مدعی ہو کر اعلیٰ عدالتوں میں جائے، اور عدلیہ کے ذریعے نفاذِ اسلام کے لیے منظم جدوجہد کرے، اور اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے تو خالی باتیں کرنے سے کیا فائدہ؟

   
2016ء سے
Flag Counter