چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف نے گزشتہ روز مصر کے دورہ کے موقع پر اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے پاکستان کے دینی مدارس کی اصلاح کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ روزنامہ نوائے وقت لاہور ۱۹ اپریل ۲۰۰۰ء کے مطابق جنرل پرویز نے کہا ہے کہ وہ ملک کے دینی مدارس کو اجتماعی دھارے میں شامل کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے ضروری اقدامات کریں گے۔
جب ہمارے حکمران دینی مدارس کی ’’اصلاح‘‘ کی بات کرتے ہیں تو اس سے ان کی مراد عام طور پر یہ ہوتی ہے کہ ان مدارس کے نصاب میں تبدیلی کر کے اس میں عصری علوم کو شامل کیا جائے۔ اور ’’اجتماعی دھارے‘‘ میں شامل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ملک کے عمومی تعلیمی نظام سے ہٹ کر دینی مدارس کا جو الگ اور جداگانہ تشخص قائم ہے، اور وہ اپنے تعلیمی نظام و نصاب اور تربیت و ذہن سازی کے حوالے سے ملک کے دوسرے تعلیمی اداروں سے جو امتیاز رکھتے ہیں وہ ختم ہو۔ اور وہ بھی دوسرے تعلیمی اداروں کی طرح حکومتی پالیسیوں اور رجحانات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا کردار ادا کریں۔
ماضی میں بھی متعدد حکومتی راہنماؤں نے اس خواہش اور عزم کا اظہار کیا تھا اور بعض حکومتوں نے اس سلسلہ میں عملی اقدامات کی کوشش بھی کی تھی، لیکن دینی مدارس کے بے لچک رویہ کی وجہ سے ابھی تک ایسا نہیں ہو سکا۔ جبکہ عالمی اداروں اور مغربی طاقتوں کا ہمارے حکمرانوں پر دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے کہ ان دینی مدارس کا امتیازی کردار ختم کیا جائے، اور اسی دباؤ کے تحت حکومت کے مختلف ذمہ دار حضرات اس طرز کے بیانات وقتاً فوقتاً دیتے رہتے ہیں۔
ہم جنرل پرویز مشرف صاحب سے یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ ان دینی مدارس کا جداگانہ تشخص اور اجتماعی دھارے سے ہٹ کر امتیازی تعلیمی کردار ہی ان مدارس کا اصل مقصدِ وجود ہے۔ جس کے لیے گزشتہ ڈیڑھ صدی سے علماء کرام اور دیندار عوام ایثار اور قربانی کے ساتھ کسی قسم کی سرکاری امداد کو قبول کیے بغیر اس نظامِ تعلیم کو باقی رکھے ہوئے ہیں۔ ورنہ اگر ان مدارس نے بالآخر اجتماعی دھارے میں ہی ضم ہونا ہے اور وہی کچھ کرنا ہے جو ملک کے دوسرے تعلیمی ادارے کر رہے ہیں تو ان مدارس کے الگ وجود کی کوئی ضرورت اور جواز ہی باقی نہیں رہ جاتا۔ اور نہ ہی وہ معاشرہ میں دینی اقدار کے فروغ، مسلمانوں کے عقائد و ایمان کے تحفظ، اور خالص دینی تعلیمات کی ترویج کے لیے اس کردار کو ادا کرنے کی پوزیشن میں رہیں گے جو دینی مدارس کا یہ آزادانہ نظام قائم کرنے والے بزرگوں کے ذہن میں تھا۔
اس لیے ان غریب مدارس کو معاف فرما کر انہیں ان کے حال پر ہی رہنے دیں تو بہت بڑی نوازش ہو گی، کیونکہ اگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمران دینی مدارس کے جداگانہ تعلیمی اور دینی پروگرام میں ان کا ہاتھ نہیں بٹا سکتے تو کم از کم انہیں ان کے اس امتیازی کردار سے محروم کر کے ان کی ڈیڑھ سو سالہ خدمات، قربانیوں اور معاشرتی کردار کی نفی تو نہ کریں۔