بھارتی پارلیمنٹ میں یکساں سول کوڈ کا بل

   
۵ جون ۱۹۹۷ء

بھارتی پارلیمنٹ میں ان دنوں ملک بھر میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے لیے ایک پرائیویٹ بل پر بحث جاری ہے، یہ بل جنتا پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ شنکررادت نے پیش کر رکھا ہے اور اسے بھارتیہ جنتا پارٹی اور شیوسینا کی حمایت حاصل ہے جو بھارت میں انتہا پسند ہندو تنظیمیں شمار کی جاتی ہیں، جبکہ کانگریس اور جنتادل نے اس بل کی مخالفت کی ہے۔ اس بل کا مقصد یہ ہے کہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے لیے شخصی قوانین یعنی نکاح و طلاق اور وراثت کے قوانین میں یکسانیت پیدا کی جائے اور ہر مذہب کے پیروکاروں کے لیے الگ شخصی قوانین کی سہولت ختم کر دی جائے۔ اس سلسلہ میں دستوری پوزیشن یہ بیان کی جاتی ہے کہ بھارتی آئین میں مذہبی اقلیتوں کو شخصی قوانین کے ذریعے اپنا تشخص برقرار رکھنے کی اجازت دی گئی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی تمام شہریوں کے لیے یکساں قوانین کے نفاذ کا وعدہ بھی آئین میں موجود ہے۔

یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی مخالفت سب سے زیادہ مسلمان کر رہے ہیں جو بھارت کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہیں اور اپنے شخصی قوانین اور مذہبی تشخص سے دستبردار ہونے کے لیے کسی قیمت پر بھی تیار نہیں ہیں۔ اس مقصد کے لیے تمام مسلمان جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل مسلم پرسنل لاء بورڈ قائم ہے جو بھارت بلکہ عالمِ اسلام کی ممتاز علمی شخصیت حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی کی قیادت میں ایک عرصہ سے مسلمانوں کے شخصی قوانین کے تحفظ کے لیے مسلسل جدوجہد کر رہا ہے۔

مئی ۱۹۹۷ء کے آغاز میں پارلیمنٹ میں اس بل پر ہونے والی بحث سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی مخالفت کرنے والی جماعتیں بھی اصولی طور پر اس بل کی مخالف نہیں بلکہ مسلمانوں کی طرف سے شدید ردِعمل کے خطرہ کے پیش نظر بل سے اختلاف کر رہی ہیں۔ چنانچہ اخباری رپورٹوں کے مطابق کیمونسٹ پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ حنان مُلا نے کہا ہے کہ

’’اس بل سے مسلمانوں کی مشکلات میں اضافہ ہو گا‘‘۔

جبکہ کانگریس کے رکن پارلیمنٹ پریہ رنجن داس منشی کا کہنا ہے کہ

‘‘چونکہ اس وقت ملک کی ترجیحات مختلف ہیں، لہٰذا موجودہ حالات میں یکساں سول کوڈ نافذ نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

اسی طرح بائیں بازو کے بعض ارکان پارلیمنٹ نے بحث کے دوران اس خدشہ کا اظہار کیا ہے کہ

‘‘اگر اس قانون کے نفاذ کے لیے قوت کا استعمال کیا گیا تو مسلمانوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آ سکتا ہے۔‘‘

گویا یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی اصولی مخالفت صرف مسلمان کر رہے ہیں، اور پارلیمنٹ میں اس بل کی مخالفت کرنے والی جماعتیں بھی مسلمانوں کے ردِعمل کے باعث اس کی حمایت نہیں کر رہیں، ورنہ اگر مسلمان اس بل کو کسی درجہ میں قبول کر لیں تو ان جماعتوں کو اس کے نفاذ میں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ مگر مسلمانوں کے لیے یکساں سول کوڈ کے قانون کو قبول کرنا ممکن نہیں ہے، اس لیے کہ قرآن کریم میں نکاح و طلاق اور وراثت کے قوانین صراحت کے ساتھ مذکور ہیں جو دوسرے مذاہب کے شخصی قوانین سے الگ اور امتیازی حیثیت رکھتے ہیں اور ان میں رد و بدل یا ترمیم و اضافہ کرنا کسی مسلمان فرد یا جماعت کے اختیار میں نہیں۔

مثلاً یہ ایک بنیادی اسلامی قانون ہے کہ کوئی مسلمان عورت کسی بھی غیر مسلم مرد سے شادی نہیں کر سکتی۔ اور کوئی مسلمان مرد (یہودی اور عیسائی عورت کے علاوہ) کسی غیر مسلم خاتون سے شادی نہیں کر سکتا۔ اور اگر کوئی مسلمان مرد یا عورت ایسا کر لے تو اس کا نکاح شرعاً جائز قرار نہیں پاتا اور اسلامی قوانین کی رو سے وہ بدکاری کے مرتکب متصور ہوتے ہیں۔ جبکہ یکساں سول کوڈ کا مقصد یہ ہے کہ شادی اور نکاح میں مذہب کی شرط سرے سے ختم کر دی جائے، جیسا کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کی ایک شق میں وضاحت کی گئی ہے کہ

’’کوئی بھی مرد کسی بھی عورت سے رنگ، نسل اور مذہب کے کسی امتیاز کے بغیر شادی کر سکتا ہے اور خاندان کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔‘‘

اسی طرح اسلامی قوانین میں مرد کو نکاح ختم کرنے کا براہ راست اختیار حاصل ہے کہ وہ جب چاہے طلاق کے ذریعے عورت کو نکاح سے الگ کر سکتا ہے، جبکہ عورت کو یہ اختیار براہ راست نہیں دیا گیا، البتہ اسے یہ حق دیا گیا ہے کہ اگر اسے خاوند کی طرف سے حق تلفی یا ظلم کا سامنا ہو تو وہ اسلامی عدالت سے رجوع کر سکتی ہے، اور عدالت اس کی شکایات کو جائز سمجھے تو وہ نکاح کو ختم کرنے کی مجاز ہے۔ مگر سول کوڈ میں عورت اور مرد کو طلاق کا یکساں اختیار حاصل ہے اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر میں بھی اس کی صراحت موجود ہے۔

یہ دو حوالے بطور مثال دیے گئے ہیں ورنہ اور بھی بہت سے امور میں اقوام متحدہ کے چارٹر کی تصریحات اور یکساں سول کوڈ کا اصول قرآن و سنت کے واضح احکام و قوانین سے متصادم ہے، اور کسی مسلمان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ قرآن و سنت پر ایمان رکھتے ہوئے ان کے صریح احکام کے منافی کسی ضابطہ یا قانون کو قبول کرے۔ اور بھارتی مسلمانوں کی طرف سے یکساں سول کوڈ کو قبول نہ کرنے کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ اس طرح اپنے مذہب کے بنیادی احکام پر عمل کے حق سے محروم ہو جائیں گے۔

یہ مسئلہ صرف بھارت کے مسلمانوں کا نہیں بلکہ مسلم اکثریت کے بہت سے ممالک کے باشندوں کو بھی اسی قسم کی صورت حال کا سامنا ہے اور ان پر بھی یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے لیے عالمی دباؤ نہ صرف موجود ہے بلکہ اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ البتہ ان کے لیے اصطلاح الگ استعمال کی جا رہی ہے اور ان سے یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا مطالبہ کرنے کی بجائے یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنے شخصی قوانین کو عالمی معیار کے مطابق بنائیں۔ مطلب دونوں کا ایک ہے کیونکہ عالمی معیار سے مراد اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر، اس کی تشریح میں جنیوا کنونشن کی قراردادیں اور مغربی ممالک میں نافذ نکاح و طلاق اور وراثت کے قوانین ہیں، جن کی رو سے نکاح میں مذہب کی شرط غیر ضروری ہے، خاندانی نظام میں خاوند اور بیوی کے اختیارات یکساں ہیں، دونوں کو طلاق کا برابر کا حق حاصل ہے، اور طلاق کی صورت میں بیوی خاوند کی نصف جائیداد کی حقدار ہے۔ اور اس طرح کے بعض دیگر امور جو قرآن و سنت کے واضح احکام کے منافی ہیں۔

خود ہمارے ہاں صورتحال یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور میں اسلامی قوانین کے مکمل نفاذ کے وعدے اور قرآن و سنت کے منافی قانون سازی نہ ہونے کی ضمانت کے باوجود پبلک لاء اور پرسنل لاء دونوں کے بارے میں عالمی دباؤ کے جواب میں ہمارا قومی طرزِعمل معذرت خواہانہ ہے، اور ہم قرآن و سنت کے منافی یکساں سول کوڈ یا شخصی قوانین کے عالمی معیار کو تسلیم نہ کرنے کے واضح اعلان کا حوصلہ نہیں کر پا رہے، بلکہ مختلف جزوی اور ضمنی اقدامات کی صورت میں مغرب کو یقین دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مذہبی حلقوں کی مخالفت کے باوجود ہم اس کے مطلوبہ عالمی معیار کی طرف بتدریج پیشرفت کر رہے ہیں۔

مثلاً صدر ایوب خان مرحوم کے دور میں تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام کی مخالفت کے باوجود عالمی قوانین نافذ کیے گئے، جن کی بعض شقوں کو وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل بھی قرآن و سنت کے منافی قرار دے چکی ہے۔ اسی طرح اب بعض اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے خلع کو عورت کا مساوی حق قرار دینے اور عاقلہ بالغہ لڑکی کے نکاح کے معاملہ میں والدین کے عمل دخل کی یکسر نفی کے فیصلوں سے بھی یہی تاثر ملتا ہے کہ ہم نکاح و طلاق کے قوانین کے عالمی بلکہ مغربی معیار سے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں، بلکہ اس لحاظ سے بھارتی مسلمان ہم سے کہیں بہتر پوزیشن میں ہیں کہ انہوں نے اپنے شخصی قوانین کو قرآن و سنت کی تصریحات کے دائرہ میں ابھی تک محفوظ رکھا ہوا ہے، اور ان کے شدید ردِعمل کے خوف سے کوئی حکومت ان کے شخصی قوانین میں مداخلت کا حوصلہ نہیں کر رہی۔ جبکہ ہم نے اپنے شخصی قوانین کو مذہبی احکام اور مغربی تصورات کی آمیزش سے ایک ایسے ملغوبے کی شکل دے دی ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نافذ عائلی قوانین کو نہ مکمل اسلامی قوانین کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی وہ اقوام متحدہ اور مغرب کے معیار پر پورے اترتے ہیں۔

بات بھارتی پارلیمنٹ میں زیرِ بحث یکساں سول کوڈ کے بل پر ہو رہی تھی کہ بھارتی مسلمانوں کے شخصی قوانین اور ان کا مذہبی تشخص ایک بار پھر خطرے کی زد میں ہے اور انہیں مسلم پرسنل لاء سے محروم کرنے کے لیے انتہا پسند ہندو تنظیموں کا دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ انہیں اس مرحلہ پر عالمِ اسلام کی رائے عامہ بالخصوص اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مسلمانوں کی حمایت کی ضرورت ہے اور ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم انہیں حمایت اور اخلاقی پشت پناہی مہیا کریں، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ شخصی قوانین کے بارے میں ہم خود قومی سطح پر تذبذب اور معذرت خواہانہ طرزِعمل کے خوگر ہو چکے ہیں، ایسے میں اگر بھارت کے مسلمان بھائیوں کی حمایت کریں بھی تو ہماری اس دوعملی کا انہیں کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے؟

   
2016ء سے
Flag Counter