حکومت کے ذمہ دار حضرات ایک طرف دینی مدارس کے نظام میں مداخلت نہ کرنے کے اعلانات کر رہے ہیں، اور دوسری طرف وزارتِ تعلیم کی طرف سے ملک بھر کے دینی مدارس کے کوائف جمع کرنے کی مہم جاری ہے اور سروے فارم بدستور مدارس میں تقسیم کیے جا رہے ہیں۔
وزارتِ تعلیم کی طرف سے جاری کیا جانے والا سروے فارم اس وقت ہمارے سامنے پڑا ہے جس کے ذریعے حکومت دینی مدارس کے کوائف کو اپنے سرکاری ریکارڈ کا حصہ بنانا چاہتی ہے۔ مگر دینی مدارس اسے اپنے آزادانہ نظام میں سرکاری مداخلت کی ابتدائی شکل سمجھتے ہوئے اس سلسلہ میں اپنی تشویش اور تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ حتیٰ کہ مولانا فضل الرحمٰن، مولانا سمیع الحق اور مولانا شاہ احمد نورانی کی طرف سے باقاعدہ اعلان اخبارات میں آ چکا ہے کہ دینی مدارس یہ فارم پُر کر کے وزارتِ تعلیم کو واپس نہ کریں۔
اس کے ساتھ ہی ’’یونیورسٹی گرانٹس کمیشن آف پاکستان‘‘ نے ان منظور شدہ تعلیمی اداروں کی ایک فہرست جاری کی ہے جو قانونی طور پر ڈگری جاری کرنے کے مجاز ہیں، اور ان کے علاوہ ملک بھر میں کسی تعلیمی ادارے کی ڈگری کو جاری کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ یہ فہرست روزنامہ اوصاف اسلام آباد نے ۲۲ جولائی ۲۰۰۰ء کو شائع کی ہے اور اس میں ۳۶ سرکاری اور ۲۰ غیر سرکاری اداروں کے نام شامل ہیں۔ مگر اس فہرست میں دینی مدارس کے نصف درجن کے لگ بھگ وفاقوں میں سے کسی کا نام موجود نہیں ہے، حالانکہ ان وفاقوں کو وزارتِ تعلیم اور یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے منظور کر رکھا ہے۔ اور یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے ساتھ ان وفاقوں کے طویل مذاکرات اور گفت و شنید کے بعد دینی مدارس کی مختلف سطح کی اسناد کی درجہ بندی ہو چکی ہے۔ لیکن کمیشن نے اپنے نئے اعلانیہ میں ان وفاقوں کو ڈگری جاری کرنے کے مجاز تعلیمی اداروں کی فہرست سے یکسر باہر نکال دیا ہے۔ جس سے دینی مدارس کے حوالے سے سرکاری پالیسی کے رجحانات اور مقاصد کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
یہ صورتحال جہاں دینی مدارس کے بارے میں سرکاری پالیسی اور حکمرانوں کے اعلانات میں پائے جانے والے تضادات کی نشاندہی کرتی ہے، وہاں دینی مدارس کے منتظمین اور وفاقوں کے ذمہ دار حضرات کے لیے بھی لمحۂ فکریہ ہے۔ اس لیے ہم تمام وفاقوں کے اربابِ حل و عقد بالخصوص وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے بزرگوں سے گزارش کریں گے کہ وہ اس مسئلہ کے تمام پہلوؤں کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لیتے ہوئے دینی مدارس کے نظام اور آزادی و خودمختاری کے تحفظ کے لیے ٹھوس اور مشترکہ لائحہ عمل اختیار کریں۔