بعض اخباری اطلاعات کے مطابق حکومت نے نصابی کتابوں کی تیاری اور اشاعت کی خدمات سرانجام دینے والے ٹیکسٹ بک بورڈز کو ختم کر کے یہ کام بین الاقوامی اداروں کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلہ میں احکامات جاری ہو چکے ہیں۔ روزنامہ نوائے وقت لاہور ۲۲ اپریل ۲۰۰۱ء کے مطابق ’’ایوانِ وقت‘‘ میں منعقدہ ایک مذاکرہ میں نصابی کتب شائع کرنے والے اشاعتی اداروں کے نمائندگان نے اس حکومتی فیصلہ پر تنقید کرتے ہوئے اسے قومی مفاد کے منافی قرار دیا ہے، اور کہا ہے کہ
- اس سے نہ صرف نصابی کتب کی اشاعت سے متعلق سینکڑوں اداروں اور ان سے وابستہ ہزاروں افراد کا روزگار متاثر ہو گا،
- بلکہ بین الاقوامی اداروں کی طرف سے شائع کی جانے والی کتابیں اس قدر مہنگی ہوں گی کہ چند امیر خاندانوں کے سوا دوسرے لوگوں کے لیے یہ کتابیں خرید کر اپنے بچوں کو تعلیم دلانا ممکن نہیں رہے گا،
- اور اس کے ساتھ ساتھ نصاب کی تیاری میں بین الاقوامی ادارے پاکستانی عوام کے قومی اور نظریاتی رجحانات کی پاسداری نہیں کر سکیں گے، جس سے ملک کے اسلامی تشخص کو نقصان پہنچے گا۔
ہمارے نزدیک اس مسئلہ کا یہ آخری پہلو سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اس لیے کہ ایک عرصہ سے بین الاقوامی سطح پر یہ کوششیں جاری ہیں کہ پاکستان کی یونیورسٹیوں، کالجوں اور سکولوں میں پڑھائے جانے والے نصاب کو عالمی معیار اور رجحانات کے مطابق بنانے کی آڑ میں، اس تھوڑے بہت دینی مدارس سے بھی محروم کر دیا جائے جو کسی نہ کسی درجہ میں سرکاری نصابِ تعلیم میں اس وقت موجود ہے۔ تاکہ اس دینی مواد کو نصاب سے خارج کر کے پاکستان کے نصابِ تعلیم کو مکمل طور پر سیکولر بنا دیا جائے۔
اس مقصد کے لیے مسلسل کوشش کی جا رہی ہے، اور اب اسی کوشش کو اس شکل میں عمل کے دائرہ میں لایا جا رہا ہے کہ ٹیکسٹ بک بورڈز ختم کر کے نصابی کتابوں کی ترتیب و تدوین اور ان کی اشاعت و تقسیم کا نظام ہی بین الاقوامی اداروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سپرد کر دیا جائے۔ یہ انتہائی سنگین اور توجہ طلب مسئلہ ہے جس کی طرف ملک کے دینی اور علمی حلقوں کو سنجیدہ توجہ دینی چاہیے، اور حکومت کے اس اقدام کے مضرات و نقصانات کو سامنے لاتے ہوئے اسے یہ فیصلہ واپس لینے پر مجبور کرنا چاہیے۔