حرمین شریفین کا تحفظ ہر چیز پر مقدم ہے

   
۳۱ مارچ ۲۰۱۵ء

مشرق وسطیٰ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ حالات پر مسلسل نظر رکھنے والوں کے لیے قطعاً غیر متوقع نہیں ہے، بلکہ ہم ایک عرصہ سے وقتاً فوقتاً اس طرف توجہ دلاتے آرہے ہیں کہ ایسا کچھ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ یمن میں حوثی قبائل کو جس طرح حکومت وقت کے خلاف کھڑا کیا گیا ہے وہ سب پر روز روشن کی طرح عیاں ہے، لیکن یہ سال دو سال کا قصہ نہیں بلکہ اس کی پشت پر کم و بیش چار عشروں کی تاریخ ہے اور ایک مکمل تیاری کے ساتھ ساتھ بھرپور پلاننگ نے حالات کو یہ رخ دیا ہے۔

ایران میں جب شاہ کے خلاف مذہبی حلقوں نے ملک کے دوسرے طبقات کے ساتھ مل کر انقلاب بپا کیا تو اس کا اس لحاظ سے خیر مقدم کرنے والوں میں ہم بھی شامل تھے کہ مذہب اور لا مذہبیت کے درمیان عالمی سطح کی موجودہ کشمکش میں اس کامیاب انقلاب سے دین و مذہب کی بنیاد پر سیاست کرنے والوں کو تقویت حاصل ہوگی اور حوصلہ ملے گا۔ اگر ایرانی انقلاب کے قائدین انقلاب کا دائرہ اردگرد کے ممالک تک وسیع کرنے اور اپنے دائرہ اثر کو پورے علاقے تک وسیع کرنے کی تگ و دو میں نہ لگ جاتے تو یہ ایرانی انقلاب دنیائے اسلام کی مذہبی قوتوں کے لیے مفید ثابت ہو سکتا تھا، لیکن جلد ہی یہ نظر آنے لگا کہ ایسا شاید نہ ہو پائے۔ ہمیں تو یہ بات اسی وقت کھٹک گئی تھی جب پاکستان میں نفاذِ شریعت کے لیے دھیرے دھیرے آگے بڑھنے والی جدوجہد کے لیے ملک میں نفاذ فقہ جعفریہ کے مطالبہ اور اس کے لیے وفاقی سیکرٹریٹ کے گھیراؤ تک کی کاروائیاں اچانک سامنے آنے پر مزید پیشرفت کے امکانات خطرے میں پڑ گئے تھے۔ اور نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے میں شیعہ سنی کشمکش کا ایک نیا راؤنڈ شروع ہوگیا تھا۔ اس وقت سے اب تک اس پالیسی کے تسلسل کا اس وقت جو نتیجہ ہمارے سامنے ہے وہ خود ایک ایرانی راہنما کے بقول یہ ہے کہ ایران کو بغداد، دمشق اور بیروت کے بعد یمن کے دارالحکومت صنعاء پر بھی دسترس حاصل ہوگئی ہے۔ اور ایران کے ایک سابق وزیر جناب علی یونسی نے گزشتہ دنوں تہران میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے یہاں تک فرما دیا ہے کہ پورا مشرق وسطیٰ ان کا دائرہ اثر ہے اور وہ مشرقی رومیوں، عثمانی ترکوں اور سلفیوں سمیت بہت سے حلقوں کے ساتھ بیک وقت لڑنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ اردن کے شاہ عبد اللہ نے اب سے کئی برس قبل یہ کہا تھا کہ ہم مشرق وسطیٰ میں شیعہ ہلال کے حصار میں ہیں، جس کا مطلب اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ سنی اکثریت اردگرد شیعہ آبادی کی زنجیرِ ہلال کی طرح اپنا دائرہ قائم کر چکی ہے۔

سعودی عرب کے گرد اس حصار کو جس طرح مکمل کیا گیا ہے، یمن میں اسی کے اگلے مرحلہ کی طرف حوثی قبائل کے ذریعہ پیش قدمی کا اہتمام کیا جا رہا ہے اور اس نے پورے عالم اسلام کو چونکا کر رکھ دیا ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ ہم نے مشرق وسطیٰ میں فاطمی دولت کی واپسی کے امکانات کے بارے میں کچھ عرصہ قبل چند گزارشات پیش کی تھیں، ہمارے خیال میں وہی ایجنڈا اپنی طے شدہ ترتیب اور رفتار کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اور اس نے صرف سعودی عرب نہیں بلکہ حرمین شریفین کے تقدس اور مستقبل کے حوالہ سے بھی کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔

جہاں تک سعودی حکومت اور آل سعود کی پالیسیوں کا تعلق ہے اس کے بارے میں بہت سے دیگر حلقوں کی طرح ہمارے ذہن میں بھی بہت سے تحفظات موجود ہیں جن میں سے بعض کا ہم نے اسی کالم میں متعدد بار اظہار بھی کیا ہے۔ لیکن حرمین شریفین کا تقدس اور سعودی عرب کی سالمیت و وحدت کے دو سوال ایسے ہیں جن پر کسی قسم کے تحفظات کا کوئی جواز نہیں ہے اور ملت اسلامیہ کے اجتماعی مفاد سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی شخص اس پر تشویش و اضطراب کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس لیے یمن کی منتخب اور قانونی حکومت کے خلاف حوثی قبائل کی بغاوت کا راستہ روکنے کے لیے عرب لیگ اور پاکستان گورنمنٹ نے جن اقدامات کا اعلان کیا ہے وہ وقت کی ایک اہم ضرورت کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی بھرپور حمایت کی جانی چاہیے۔

اس موقع پر ایک کہاوت یاد آرہی ہے کہ نہر کے کنارے ٹہلتے ٹہلتے ایک لڑکا نہر میں گر گیا اور ڈبکیاں کھانے لگا تو کنارے پر کھڑے کسی شخص نے اسے ملامت کرنا شروع کر دیا کہ تم اس طرح کنارے کنارے کیوں چل رہے تھے، تم نے احتیاط کیوں نہیں کی اور چلتے ہوئے تمہارا دھیان کدھر تھا، وغیرہ وغیرہ۔ اس لڑکے نے یہ باتیں سن کر آواز دی کہ ’’میرے بھائی! پہلے مجھے اس گرداب سے نکال کر مجھے بچا لو پھر جتنی چاہے ملامت کرنا۔‘‘ سعودی حکومت کی پالیسی اور آل سعود کے سیاسی طرز عمل کے حوالہ سے بہت کچھ کہنے کی گنجائش بلکہ ضرورت موجود ہے لیکن اس وقت سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ حرمین شریفین کا انتظام بلکہ حسن انتظام کرنے والی حکومت کے گرد جو گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے اسے اس سے نکالنے کا اہتمام کیا جائے اور اس کے لیے جو بھی قابل عمل صورت ہو سکے اسے اختیار کرنے سے گریز نہ کیا جائے۔

یہ ضروری ہے کہ حکومت پاکستان اس سلسلہ میں مجموعی پالیسی مرتب کرتے ہوئے پارلیمنٹ اور ملک کی تمام سیاسی و دینی جماعتوں کو اعتماد میں لے اور عالم اسلام اور پاکستان کے وسیع تر مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی حتمی فیصلہ کرے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ حرمین شریفین کی حرمت و تقدس اور ان کے تحفظ و مامون مستقبل کو باقی تمام معاملات پر بہرحال ترجیح دی جائے۔

اس سلسلہ میں جمعیۃ علماء اسلام (س) پاکستان کے سیکرٹری جنرل مولانا عبدا لرؤف فاروقی کی دعوت پر گزشتہ روز جامعہ اسلامیہ کامونکی میں منعقدہ ایک اجلاس کے دوران مولانا محمد احمد لدھیانوی، مولانا عبدا لرؤف فاروقی، مولانا پیر سیف اللہ خالد، مولانا فضل الرحمن خلیل، حافظ احمد علی، مولانا عبد الخالق، حاجی عثمان عمر ہاشمی اور دیگر حضرات کے ساتھ مشاورت میں راقم الحروف بھی شریک ہوا جس میں مجموعی صورت حال کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لیا گیا۔ ہم سب کی مشترکہ رائے یہ ہے کہ ملک کے اندر دینی اور مسلکی جدوجہد کے لیے ’’مجلس علماء اسلام پاکستان‘‘ کو مستحکم اور متحرک کرنے کی ضرورت ہے اور مولانا حافظ سید عطاء المومن شاہ بخاری نے پیرانہ سالی اور علالت کے باوجود شبانہ روز محنت کے ساتھ جس شیرازہ بندی کا اہتمام کیا ہے اس کے تسلسل کو آگے بڑھانا ضروری ہے۔ اللہ کرے کہ اس کی کوئی مؤثر عملی صورت نکل آئے۔ البتہ ایک فوری ضرورت کے تحت حرمین شریفین کے تقدس و حرمت کے حوالہ سے دینی حلقوں کو توجہ دلانے اور رائے عامہ کو ہموار کرنے کی غرض سے ’’تحریک دفاع حرمین شریفین‘‘ کے عنوان سے فورم تشکیل دیا گیا ہے جس کے کنوینر مولانا عبد الرؤف فاروقی ہیں اور رابطہ کمیٹی میں مولانا فضل الرحمن خلیل، مولانا محمد احمد لدھیانوی، مولانا پیر سیف اللہ خالد اور حاجی عبد اللطیف چیمہ کے علاوہ راقم الحروف کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

قارئین سے درخواست ہے کہ وہ اس سلسلہ میں رابطہ کمیٹی کو تعاون سے نوازیں اور اس نازک مرحلہ میں عالم اسلام اور خاص طور پر حرمین شریفین کے تحفظ کے لیے خصوصی دعاؤں کا بھی اہتمام کریں۔

   
2016ء سے
Flag Counter