تحریکِ آزادیٔ کشمیر کا پس ِ منظر اور نئی حکومت سے توقعات

   
۳۰ جولائی ۲۰۲۱ء

ریاست آزاد جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات مکمل ہو گئے ہیں اور حسبِ روایت پاکستان میں برسراقتدار جماعت پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن میں واضح پوزیشن حاصل کر کے آئندہ مدت کے لیے حکومت سازی کا محاذ سنبھال لیا ہے، جبکہ اپوزیشن نے حسبِ روایت دھاندلی کے الزامات کے ساتھ نتائج قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے، لیکن اگر باقی سب کچھ بھی حسبِ روایت ہوا تو اگلی ٹرم میں آزاد جموں و کشمیر کے حکمران تحریک انصاف کے عنوان سے ریاست میں حکومت کے فرائض سرانجام دیں گے۔

ریاست آزاد جموں و کشمیر بین الاقوامی سطح پر ایک متنازعہ اور فیصلہ طلب خطے کا حصہ ہے جس کی انتظامی ذمہ داری پاکستان کے پاس ہے اور اس کے تحت وقتاً فوقتاً انتخابات اور حکومت سازی کے یہ مراحل سامنے آتے رہتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ریکارڈ کے مطابق مقبوضہ کشمیر، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان سمیت وہ پورا خطہ اس وقت متنازعہ ہے جو قیامِ پاکستان سے قبل ’’ریاست جموں و کشمیر‘‘ کہلاتا تھا اور ڈوگرہ مہاراجہ اس پر حکمران تھا۔ تقسیمِ ہند کے فارمولا کے مطابق ریاست کے مہاراجہ نے پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرنا تھا جو اس وقت کے ڈوگرہ اور ہندو مہاراجہ نے بھارت کے حق میں صادر کر دیا۔ مگر ریاست کے عوام کی غالب اکثریت مسلمان تھی اور پاکستان کے ساتھ نظریاتی، تہذیبی اور علاقائی وحدت کے رشتہ میں منسلک تھی اس لیے عوام نے ڈوگرہ مہاراجہ کا یہ فیصلہ تسلیم نہ کرتے ہوئے اس کے خلاف علمِ بغاوت بلند کر دیا۔ کم و بیش ہر طبقہ کے لوگوں نے اس سلسلہ میں مجاہدینِ آزادی کا ساتھ دیتے ہوئے آزاد جموں و کشمیر کے موجودہ علاقہ اور گلگت و بلتستان کے خطہ کو ریاستی فوج کے ساتھ جنگ لڑ کر اس کے تسلط سے آزاد کرا لیا۔

اس موقع پر جب بھارت نے اپنی افواج کشمیر میں اتاریں تو پاکستان بھی مجاہدین آزادی کی مدد کے لیے اپنی فوج کو میدان میں لے آیا جس سے عملاً یہ دو ملکوں کے درمیان جنگ کی شکل اختیار کر گئی۔ واقعاتی ترتیب کے مطابق جب مجاہدین آزادی جموں اور سری نگر کے دروازے پر پہنچ گئے اور یہ نظر آنے لگا کہ ان دو شہروں میں ان کے داخلہ کے بعد کشمیر پر بھارت کی فوج کشی کا مقصد ختم ہو جائے گا تو اقوامِ متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا۔ بھارت کا موقف یہ تھا کہ مہاراجہ نے اس ریاست کے بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا ہے اس لیے اس پر بھارت کا حق فائق ہے، جبکہ کشمیری عوام اور ان کی حمایت میں پاکستان کا موقف یہ تھا کہ چونکہ کشمیری عوام کی غالب اکثریت بھارت کے ساتھ الحاق کو قبول نہیں کر رہی اور بھارت کی بجائے پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتی ہے جسے بھارت نے فوجی قوت کے بل پر دبا رکھا ہے اس لیے کشمیری عوام کو یہ حق دیا جائے کہ وہ اپنی آزادانہ مرضی کے ساتھ پاکستان یا بھارت میں سے کسی کے ساتھ الحاق کا خود فیصلہ کریں اور اس میں کوئی بیرونی مداخلت اور دباؤ کارفرما نہ ہو۔

چنانچہ اقوامِ متحدہ نے یہ موقف تسلیم کر لیا اور اس کے فورم پر پاکستان اور بھارت نے بھی کشمیری عوام کا یہ حق تسلیم کیا کہ اقوامِ متحدہ کے تحت آزادانہ استصوابِ رائے کے ذریعے کشمیری عوام جو فیصلہ دیں گے وہ دونوں کے لیے قابل قبول ہو گا۔ تب سے یہ پورا خطہ متنازعہ چلا آ رہا ہے اور اقوام متحدہ کے اس فیصلے پر عملدرآمد کا پوری دنیا انتظار کر رہی ہے مگر سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی بار بار قراردادوں اور واضح فیصلوں کے باوجود ابھی تک اس وعدہ کی تکمیل کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔

اس دوران کشمیری عوام کی مزاحمت سیاسی و عسکری دونوں محاذوں پر مسلسل جاری ہے جبکہ پاکستان اور بھارت تین باہمی جنگوں سے گزر چکے ہیں مگر اقوام متحدہ اور اس کے ذمہ دار ادارے مسلسل بے پرواہی سے کام لے رہے ہیں۔ اسی دوران ریاست آزاد جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی نے ریاست میں شرعی قوانین کے نفاذ کا تاریخی فیصلہ کیا جس کے تحت ضلع اور تحصیل کی سطح پر پوری ریاست میں جج صاحبان کے ساتھ مل بیٹھ کر شرعی قاضی صاحبان عوام کے مقدمات کے فیصلے قرآن و سنت کی روشنی میں کرتے ہیں اور اس طرح شریعت اسلامیہ کو آزاد کشمیر میں ریاستی قانون کی حیثیت حاصل ہے۔

اس ضمن میں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ بھارت نے اپنے زیرتسلط مقبوضہ کشمیر کی دستوری حیثیت میں تبدیلی کر کے اس کی متنازعہ پوزیشن کو ختم کرنے کی متعدد بار کوشش کی ہے تاکہ وہ اس پر اپنے قبضہ کو جائز تسلیم کرا سکے مگر کشمیری عوام ایسی کسی تبدیلی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں حتٰی کہ مودی حکومت کا حالیہ طویل ترین کریک ڈاؤن بھی کشمیری عوام کے موقف میں تبدیلی لانے میں ناکام ہو گیا ہے۔

دوسری طرف ہمارے بعض حلقوں میں بھی آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کو پاکستان کا باقاعدہ حصہ قرار دینے اور ان علاقوں کی متنازعہ حیثیت کو تبدیل کرنے کی تجاویز وقتاً فوقتاً سامنے آتی رہی ہیں جنہیں پذیرائی حاصل نہیں ہوئی اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ریاستی موقف بدستور وہی چلا آ رہا ہے کہ اس پورے خطے کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ اس خطہ کے عوام اقوام متحدہ کے تحت آزادانہ استصواب کے ذریعے اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کریں گے اور وہی فیصلہ منصفانہ، قابل قبول اور قابل عمل ہو گا۔

اس پس منظر میں آزاد ریاست جموں و کشمیر میں حالیہ انتخابات کے ذریعے قائم ہونے والی نئی حکومت کو مبارکباد دیتے ہوئے ہم یاددہانی کے طور پر اسے توجہ دلانا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے:

  • کشمیری عوام کے مسلّمہ حقِ خود ارادیت کو روبہ عمل لانے کے لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا کے مسلم ممالک اور آزادی پسند اقوام کے ساتھ مل کر جدوجہد کو قومی اور عالمی سطح پر ازسرِنو منظم کیا جائے۔
  • ریاست میں نافذ شرعی قوانین اور شرعی نظام عدل کا تحفظ اور اس کا مکمل طور پر عملی نفاذ کرتے ہوئے اسے ایک نظریاتی اسلامی ریاست کے طور پر متعارف کرایا جائے۔

ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آزاد کشمیر کی نئی حکومت کو ان مقاصد میں کامیابی اور پیش قدمی نصیب فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter