جناب! صرف رونے دھونے سے بات نہیں بنے گی

   
جون ۲۰۰۲ء

روزنامہ پاکستان لاہور نے ۱۸ مئی ۲۰۰۲ء کی اشاعت میں خبر دی ہے کہ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے حوالے سے ایک محفل کا انعقاد کیا جس میں تبلیغی جماعت کے ممتاز مبلغ مولانا محمد طارق جمیل نے خطاب کیا۔ اپنے خطاب کے اختتام پر انہوں نے حسبِ معمول دعا بھی کی، اور جب دعا میں یہ جملے کہے کہ

’’اے اللہ! ہم وعدے پورے نہیں کر سکے ہمیں معاف کر دے۔ یہ ملک جو تیرے نام پر بنایا گیا تھا اس میں ہم انصاف قائم نہیں کر سکے۔ اے اللہ! اس ملک کی خاطر جن لوگوں نے جانیں دیں، جنہوں نے اپنے بچوں کی لاشیں کٹتی دیکھیں، اور جو زندہ جلا دیے گئے، ہم ان قربانیوں کے مقاصد پورے نہیں کر سکے، ہم ان کی روحوں سے شرمندہ ہیں۔ اس ملک میں تیرے نبی کی سنتوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے، تیرے نام لیواؤں کے ساتھ جو زیادتیاں ہو رہی ہیں، انہیں دور فرما‘‘۔

تو اسٹیج پر موجود ہائی کورٹ کے جج صاحبان جسٹس میاں نذیر اختر، جسٹس خواجہ محمد شریف، جسٹس چودھری اعجاز احمد، جسٹس ثاقب نثار، جسٹس ناصر اقبال اور جسٹس عبد الشکور پراچہ زار و قطار رونے لگے۔ خبر میں دعا کے وقت جس رقت انگیز ماحول کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے بیان کے حوالے سے ایک فطری بات ہے۔ اور دعا میں ملی کوتاہیوں پر جس ندامت کا اظہار کیا گیا ہے وہ بھی خوش آئند امر ہے کہ کم از کم ’’احساسِ زیاں‘‘ تو کسی نہ کسی درجہ میں موجود ہے۔ لیکن ہم بڑے ادب و احترام کے ساتھ عدالت کے معزز جج صاحبان کی خدمت میں عرض کرنا چاہیں گے کہ معاملات جس رخ پر اور جس مقام پر پہنچ گئے ہیں، اب صرف رونے دھونے سے بات نہیں بنے گی بلکہ ہر طبقہ کو اصلاحِ احوال کے لیے اپنے کردار کا ازسرِنو تعین کرنا ہو گا، اور یہ دیکھنا ہوگا کہ حالات کے اس مقام تک پہنچنے میں اس سے کہاں کہاں کوتاہی ہوئی ہے، اور اس کے ازالہ کے لیے اب وہ کیا کر سکتا ہے۔

اعلیٰ عدالتوں کو معاشرہ میں ہمیشہ یہ مقام حاصل رہا ہے کہ وہ معاملات پر دوسرے طبقات سے زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں۔ اور یہ بات شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ اگر ہماری اعلیٰ عدالتیں قیامِ پاکستان کے مقاصد کو پورا کرنے، اور آزادی و قیامِ پاکستان کی خاطر قربانیاں دینے والے لاکھوں شہداء کے مقدس خون کا حق ادا کرنے کے لیے عملی پیشرفت کا فیصلہ کر لیں، تو نہ صرف اصلاحِ احوال کا راستہ کھل جائے گا بلکہ دوسرے طبقات کو بھی صحیح سمت آگے بڑھنے کا حوصلہ ملے گا۔

اس لیے معزز جسٹس صاحبان سے گزارش ہے کہ ان کے یہ آنسو یقیناً بارگاہِ ایزدی میں رائیگاں شمار نہیں ہوں گے، لیکن اگر ان آنسوؤں کی گرمی ان کے فیصلوں میں بھی نظر آنے لگ جائے تو ان کی نجات کے ساتھ ساتھ ظلم و جبر اور نا انصافی کی دلدل سے ملک و قوم کے نجات پانے کی صورت بھی نکل آئے گی۔

   
2016ء سے
Flag Counter