پارلیمنٹ نے گزشتہ روز مشترکہ اجلاس میں حزب اختلاف کے واک آؤٹ کے بعد ہنگامی حالات میں مزید چھ ماہ کی توسیع کی قرارداد منظور کر لی۔
اس سے قبل قائد حزب اختلاف خان عبد الولی خان نے قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ہنگامی حالات کو باقی رکھنے کا اقدام عوام کے ساتھ سخت ناانصافی ہے۔ خان صاحب نے کہا کہ ۱۹۷۱ء میں پاک بھارت جنگ کی بناء پر ملک میں ہنگامی صورتحال کا اعلان ہوا تھا اور یہ صورتحال اب تک برقرار رکھی جا رہی ہے۔ حالانکہ حکومت نے بھارت کے ساتھ شملہ معاہدہ کے تحت حالات کو معمول پر لانے کی راہ اختیار کر لی ہے اور اب ۱۲ دسمبر سے بھارت کے ساتھ بات چیت کا آغاز کر رہی ہے۔ خان عبد الولی خان نے کہا کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کی استواری کا آغاز کرنے کے بعد ہنگامی حالات کو برقرار رکھنے کا کوئی جواز نہیں۔
قائد حزب اختلاف نے حکومت کی غیر جمہوری پالیسیوں پر کڑی نکتہ چینی کے بعد اعلان کیا کہ حزب اختلاف ہنگامی حالات میں مزید توسیع میں حصہ دار بننے کے لیے تیار نہیں۔ اس کے بعد خان عبد الولی خان کے ساتھ حزب اختلاف کے تمام ارکان ایوان سے واک آؤٹ کر گئے۔
جہاں تک ہنگامی حالات کے بارے میں حزب اختلاف کے موقف کا تعلق ہے، اس کی اصابت پر کسی قسم کے شبہ کی گنجائش نہیں۔ اور ہم ہنگامی حالات کی توسیع میں حصہ دار نہ بننے پر حزب اختلاف کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
ہنگامی حالات دراصل ۱۹۷۱ء میں پاک بھارت جنگ کے سلسلہ میں نافذ کیے گئے تھے اور اس وقت سے اب تک بدستور چلے آرہے ہیں۔ حالانکہ اب وہ صورتحال باقی نہیں رہی جس کے تحت ہنگامی حالات کا نفاذ ضروری سمجھا گیا تھا۔ بھارت کے ساتھ شملہ معاہدہ کے بعد حالات کافی حد تک تبدیل ہو چکے ہیں اور تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے بھٹو حکومت ۱۲ ستمبر سے انڈیا گورنمنٹ کے ساتھ پھر سے مذاکرات شروع کر رہی ہے۔ اس لیے ہنگامی حالات کو مزید جاری رکھنے کی غرض سے سابقہ وجوہات کو بنیاد بنانے کا کوئی جواز نہیں۔ سالِ رواں کے آغاز پر جب ہنگامی حالات کی مدت میں چھ ماہ کی توسیع کی گئی تھی، وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے وعدہ کیا تھا کہ اس توسیع کے بعد ہنگامی حالت کی مدت میں مزید اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ لیکن اب چھ ماہ کے لیے ہنگامی حالات کی مدت اور بڑھا دی گئی ہے۔
اس سلسلہ میں حزب اختلاف کے اس الزام کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ بھٹو حکومت نے ہنگامی حالات کے تحت حاصل شدہ اختیارات کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے اور انہی مقاصد کے لیے ایمرجنسی کی عمر میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔
کیونکہ عملاً جو کچھ ہوا ہے اس کے پیش نظر یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اکا دکا واقعات کو چھوڑ کر اب تک ہنگامی قوانین مثلاً ڈیفنس آف پاکستان رولز وغیرہ کا بیشتر استعمال اپوزیشن کے راہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف ہوا ہے۔ اور اب بھی یہ قوانین تحریک ختم نبوت اور متحدہ جمہوری محاذ کے کارکنوں کے خلاف استعمال کیے جا رہے ہیں۔
اس وقت متعدد سیاسی و دینی کارکن ڈی پی او کے تحت جیلوں میں بند ہیں اور ہنگامی قوانین کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا رجحان بدستور اضافہ پذیر ہے۔ اس لیے ہم حزب اختلاف کے اس موقف پر صاد کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ
(۱) ہنگامی حالات کو باقی رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے،
(۲) اور بھٹو حکومت اپنے اقتدار کو تحفظ دینے اور اپوزیشن کو کچلنے کے لیے ہنگامی حالات کا سلسلہ دراز کر رہی ہے۔
آخر میں ہم ارباب اقتدار سے یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ آپ آخر کب تک ڈی پی او دفعہ ۱۴۴ اور امتناعی قوانین کی بیساکھیوں کے سہارے چلتے رہیں گے؟ آپ عوام کے منتخب نمائندے ہیں اور جمہوری عمل کے راستے سے آئے ہیں، اس لیے جمہوری عمل بحال کر کے جمہوری طریقوں سے اپوزیشن کا سامنا کیجئے۔ جمہوری عمل کے تعطل نے ہی تیرہ کروڑ مسلمانوں کے پاکستان کو دولخت کر دیا تھا اور اب پھر یہ تعطل دھیرے دھیرے منطقی نتائج کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس لیے اگر آپ حضرات نے جمہوری ذرائع سے عوام کو اعتماد میں لینے کا راستہ اختیار نہ کیا تو حالات جو رخ بھی اختیار کریں گے آپ حضرات اس کی ذمہ داری سے دامن نہیں چھڑا سکیں گے۔