گزشتہ دنوں ایک جرمن این جی او کی دعوت پر اسلام آباد میں کرپشن کے خلاف کانفرنس کا اہتمام ہوا جس میں ملک کی چند بڑی سیاسی جماعتوں نے بھی شرکت کی۔ صدر جنرل پرویز مشرف نے کانفرنس سے خطاب کیا اور اس موقع پر ملک میں کرپشن کے خاتمہ کے لیے مشترکہ عزم کرتے ہوئے ایک عہد نامہ پر دستخط کیے گئے۔
خیانت، بد دیانتی، بدعنوانی اور کرپشن ہمارے ہاں ایک قومی بیماری کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ جس کے خاتمہ کے لیے جس طرف سے بھی کوشش کی جائے گی اور اس کے خلاف جہاں سے بھی آواز اٹھے گی اس کا خیرمقدم کیا جائے گا۔ کرپشن ہماری قومی زندگی اور ڈھانچے کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہے اور اس نے پورے نظام کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ اس لیے ہم اس کانفرنس اور اس میں کیے جانے والے عہد نامہ کا خیر مقدم کرتے ہیں، البتہ اس کے ساتھ دو گزارشات پیش کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں:
- ایک یہ کہ کرپشن صرف عہد نامہ پر دستخط کر دینے اور کرپشن کے خلاف بیانات اور تقاریر کا سلسلہ دراز کر دینے سے ختم نہیں ہو گی۔ بلکہ اس کے لیے ٹھوس عملی اقدامات اور مربوط حکمتِ عملی کی ضرورت ہے، جس میں قربانی اور ایثار کے سخت تر مراحل بھی آتے ہیں۔ اس کے بغیر کرپشن کے خاتمہ کی باتیں محض خود فریبی کی بات ہو گی۔
- دوسری گزارش یہ ہے کہ ہمارے ہاں عام طور پر کرپشن کا تعلق صرف مالی معاملات سے ہی سمجھا جاتا ہے، اور دولت کے غلط طریقہ سے حصول اور لوٹ کھسوٹ کو ہی کرپشن تصور کیا جاتا ہے۔ بلاشبہ یہ بھی کرپشن کا بہت بڑا شعبہ ہے، لیکن اسلامی تعلیمات کی رو سے کرپشن کا دائرہ اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ارشاد میں امانت کے ضائع کیے جانے کو قیامت کی نشانی قرار دیا تو آنحضرتؐ سے پوچھا گیا کہ امانت کے ضائع ہونے سے یا ضائع کیے جانے کی عملی شکل کیا ہو گی؟ تو سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’اذا وُسد الامر الیٰ غیر اہلہ‘‘ جب معاملات نا اہل لوگوں کے سپرد کیے جانے لگیں۔ یعنی معاملات کا نااہل لوگوں کے سپرد ہونا اور کسی منصب پر ایسے شخص کا بیٹھ جانا جو اس کا اہل اور مستحق نہ ہو، یہ بھی امانت کا ضائع ہونا ہے اور بہت بڑی کرپشن ہے۔ بلکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو کرپشن کا اصل سرچشمہ ہی یہ ہے:
- کیونکہ جب معاملات اہل لوگوں کے سپرد ہوں گے اور ہر منصب پر وہ شخص بیٹھا ہو گا جو اپنی تعلیم و تربیت اور اخلاق و دیانت کے لحاظ سے اس کی اہلیت رکھتا ہے، تو باقی معاملات میں بدعنوانی اور کرپشن کے امکانات خودبخود کم ہوتے چلے جائیں گے۔
- اور اگر معاملات ہر سطح پر نااہل لوگوں کے ہاتھ میں رہیں گے اور کرپشن کے خاتمہ کے لیے صرف نچلی سطح پر اقدامات کیے جاتے رہیں گے تو ان اقدامات کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا، کیونکہ نااہل ہاتھ کرپشن کے ایک طریقہ کی راہ روکنے پر اس جیسے کئی دوسرے طریقے ایجاد کر لیں گے۔
اس لیے کرپشن کے خاتمہ کی اصل عملی صورت یہی ہے کہ ملک کے نظام کو درست کیا جائے اور تمام معاملات کو صحیح طور پر چلانے کے لیے اہلیت، دیانت اور استحقاق کو ہر سطح پر بنیاد بنایا جائے۔ اس کے بغیر ملک میں کرپشن کے خاتمہ کا نعرہ لگانا خود کو اور پوری قوم کو فریب میں مبتلا رکھنے کی بات ہو گی۔