’’نوجوان کیا سوچ رہے ہیں؟ جدید مسائل اور اجتہاد‘‘

   
۲ جولائی ۲۰۰۶ء

اسلامی نظریاتی کونسل ایک آئینی ادارہ ہے جسے اس غرض سے تشکیل دیا گیا تھا کہ دستورِ پاکستان میں ملک کے تمام مروجہ قوانین کو قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھالنے کی جو ضمانت دی گئی ہے اس کی تکمیل کے لیے حکومتِ پاکستان کی مشاورت کرے۔ اس کی عملی شکل یہ ہے کہ جدید قانون کے ممتاز ماہرین اور جید علماء کرام پر مشتمل ایک کونسل تشکیل دی جاتی ہے جو حکومت کے استفسار پر یا اپنے طور پر ملک میں رائج کسی بھی قانون کا اس حوالے سے جائزہ لیتی ہے کہ وہ قرآن و سنت کے مطابق ہے یا نہیں۔ اور اگر وہ اس قانون کو اسلامی تعلیمات کے منافی تصور کرتی ہے تو اس کی خامیوں کی نشاندہی کرتی ہے اور اس کے متبادل قانون کا مسودہ ایک سفارش کی صورت میں مرتب کر کے حکومت کے سپرد کر دیتی ہے۔ دستور کی رو سے حکومت اس بات کی پابند ہے کہ وہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو قومی یا صوبائی اسمبلی میں پیش کر کے اس کے مطابق قانون سازی کرے۔

۱۹۷۳ء کے دستور سے قبل یہ ادارہ ’’اسلامی مشاورتی کونسل‘‘ کے نام سے اور اس سے پہلے ’’تعلیماتِ اسلامیہ بورڈ‘‘ کے نام سے قائم رہا ہے، اور ملک کے بہت سے سرکردہ ماہرینِ قانون اور ممتاز علماء کرام مختلف اوقات میں اس میں خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنے قیام کے بعد سے اب تک سینکڑوں قوانین کا جائزہ لیا ہے اور ان کے بارے میں اپنی تجاویز اور سفارشات مرتب کر کے حکومتِ پاکستان کے سامنے پیش کی ہیں، جن کے حوالے سے دستور کا یہ تقاضہ، کہ انہیں متعلقہ اسمبلیوں میں پیش کر کے قانون سازی کے مرحلے سے گزارا جائے، ابھی تک تشنہ تکمیل ہے۔ بلکہ اب تک یہ صورتحال رہی ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات اور اس کے مرتب کردہ مسودہ ہائے قوانین کی پیشانی پر ’’صرف سرکاری استعمال کے لیے‘‘ کا لیبل چسپاں کر کے اس کی اشاعت کو شجرِ ممنوعہ قرار دیا جاتا رہا ہے۔

لیکن جب سے ڈاکٹر خالد مسعود اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین بنے ہیں یہ صورتحال قدرے تبدیل ہو رہی ہے۔ ڈاکٹر صاحب موصوف جھنگ کے رہنے والے ہیں اور روزنامہ جنگ کراچی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر محمود شام صاحب کے بھائی ہیں۔ ان کے والد بزرگوار کا تعلق جمعیۃ علماء اسلام سے تھا اور وہ ضلع کی سطح پر جمعیۃ کے متحرک حضرات میں شامل رہے ہیں۔ ڈاکٹر خالد مسعود کا شمار ممتاز اسلامی سکالروں میں ہوتا ہے، وہ قدیم و جدید دونوں قسم کے علوم پر دسترس رکھتے ہیں، مختلف علمی اداروں میں کام کرتے رہے ہیں اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ وہ ان اربابِ دانش میں سے ہیں جو اسلامی تعلیمات و احکام کو جدید اسلوب میں ڈھالنے اور آج کی زبان میں دنیا کے سامنے پیش کرنے کی خواہش اور جذبہ رکھتے ہیں۔ وہ اس سلسلہ میں توسع بھی رکھتے ہیں، جس کے بارے میں دینی حلقے کسی حد تک تحفظات کا شکار ہیں، جبکہ جدت پسند طبقے ان سے بہت سی توقعات وابستہ کیے بیٹھے ہیں۔

ڈاکٹر خالد مسعود جب سے اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین بنے ہیں، کونسل کو عوامی بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ، نیز کونسل سے ہٹ کر علماء کرام اور دانشوروں کے وسیع حلقے کو اپنی مشاورت کے دائرے میں شامل کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ ۲۶ جون کو انہوں نے اسلام آباد میں اسلامی نظریاتی کونسل کے ہال میں اسی مقصد کے لیے ایک سیمینار کا اہتمام کیا جس کا عنوان تھا ’’نوجوان کیا سوچ رہے ہیں؟ جدید مسائل اور اجتہاد‘‘۔ اس میں انہوں نے یونیورسٹیوں اور مدارس کے طلبہ کو جمع کیا اور ایک پینل کے سامنے بٹھا دیا، جس میں جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال، اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ریکٹر ڈاکٹر منظور احمد کے ساتھ راقم الحروف کو بھی شامل کر لیا۔ ڈاکٹر خالد مسعود اس مذاکرے کے میزبان تھے جبکہ جناب خورشید احمد ندیم اور سید احمد مسعود صاحب نے ماڈریٹر کی ذمہ داری سنبھال رکھی تھی اور بعض دیگر اساتذہ اور اصحابِ دانش بھی شریکِ گفتگو تھے۔

اسلامی یونیورسٹی، قائد اعظم یونیورسٹی، فاطمہ جناح یونیورسٹی، نمل یونیورسٹی اور جامعہ فریدیہ کے متعدد طلبہ موجود تھے اور انہی کے سوالات مذاکرے کا موضوعِ گفتگو تھے۔ ان طلبہ اور طالبات نے اس سوال پر، کہ ان کے خیال میں آج مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے، جن خیالات کا اظہار کیا وہ عمومی نوعیت کے تھے، مثلاً یہ کہ

  • اسلام کا تاثر اور تصویر آج کی دنیا کے سامنے مجروح کی جا رہی ہے،
  • مسلمان اسلام سے دور ہو رہے ہیں،
  • مسلمانوں کی نئی نسل کو اسلام سے دور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے،
  • نوجوانوں کے سامنے اسلام کا تصور اور پیٹرن واضح نہیں اور وہ اس حوالے کنفیوژن کا شکار ہیں،
  • فرقہ واریت نے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا ہے،
  • اور اسلام کی بات کرنے والے انسانیت کے حوالے سے وسیع تناظر میں بات نہیں کر رہے۔

اس پر محترم ڈاکٹر منظور احمد صاحب نے قدرے مایوسی کا اظہار کیا، ان کا خیال تھا کہ یونیورسٹیوں کے طلبہ اور طالبات اس گفتگو میں ان جدید مسائل کی نشاندہی کریں گے جن پر اجتہاد کی ضرورت ہے، اور وہ اپنے تاثرات پیش کریں گے، لیکن انہوں نے وہی عام سی باتیں کی ہیں جو کم و بیش ہر مجلس میں ہوتی ہیں۔

میں نے گزارش کی کہ میرے خیال میں اس میں مایوسی کی بات نہیں ہے، اس لیے کہ یہ اس طرح کے نوجوانوں کے ساتھ ہماری پہلی نشست ہے اور پہلی ملاقات میں اسی طرح کی باتیں ہوتی ہیں، البتہ اگر ایسی نشستوں کا تسلسل جاری رہا اور ہمارے درمیان بے تکلفی کا ماحول پیدا ہوا تو یہ نوجوان اس سے اگلی باتیں بھی کریں گے، اور جن مسائل پر ان سے گفتگو کی توقع کی جا رہی ہے وہ ان پر بھی ضرور اظہارِ خیال کریں گے۔

ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب نے حسبِ معمول وہی باتیں کیں جو وہ ایک عرصہ سے اس سلسلہ میں کرتے چلے آ رہے ہیں۔ میں نے جب عرض کیا کہ اجتہاد کا عمل تو ہر دور میں جاری رہا ہے، البتہ فرق صرف یہ ہے کہ مسلمانوں کے دورِ اقتدار میں یہ اجتہاد اجتماعی صورت میں ہوتا تھا جس کی ایک مثال عثمانی خلافت کی طرف سے مرتب ہونے والا ’’مجلۃ الاحکام الاسلامیہ‘‘ اور دوسری مثال مغل حکمران اورنگزیب عالمگیر کے دور میں سرکاری سطح پر تدوین پانے والا ’’فتاویٰ ہندیہ‘‘ ہے۔ مگر اقتدار سے مسلمانوں کی محرومی کے بعد اجتہاد کا یہی عمل انفرادی دائروں میں چلا گیا ہے۔ تو ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب نے اس سے اختلاف کیا اور فتاویٰ عالمگیری اور المجلہ کو اجتہادی عمل تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ مجھے اس کے بعد اظہارِ خیال کا موقع نہ مل سکا ورنہ یہ ضرور عرض کرتا کہ دراصل آج اجتہاد کا ایک ہی مطلب اور مقصد سمجھ لیا گیا ہے کہ شرعی احکام کو کسی نہ کسی طرح تبدیل کر دیا جائے۔ جبکہ صرف ماحول اور تعامل کی تبدیلی کے ساتھ شرعی قوانین کے بنیادی ڈھانچے کو قائم رکھتے ہوئے ان کی نئی تعبیر و تشریح اور نئے حالات کے ساتھ ان کی ایڈجسٹمنٹ کا عمل بھی اجتہاد ہی کے زمرے میں شمار ہوتا ہے، جس کی عملی مثال کے طور پر میں نے فتاویٰ عالمگیری اور مجلۃ الاحکام کا حوالہ دیا تھا۔

ڈاکٹر صاحب نے اپنے اس موقف کو دہرایا کہ آج کے دور میں اجتہاد صرف پارلیمنٹ کر سکتی ہے، لیکن اس بات کو بھی تسلیم کیا کہ موجودہ پارلیمنٹ اجتہاد کی صلاحیت نہیں رکھتی، بلکہ اب تک پاکستان میں کوئی ایسی پارلیمنٹ وجود میں نہیں آئی جو اجتہاد کی صلاحیت سے بہرہ ور ہو۔ ان کا خیال ہے کہ اجتہاد کے لیے ایسے وکلاء کی ضرورت ہے جو اسلامی تعلیمات سے بھی ضرورت کے مطابق روشناس ہوں۔ انہیں شکوہ ہے کہ ایل ایل بی کے نصاب میں اسلامی قانون کی ضروری تعلیم و مہارت کا پرچہ شامل نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے وکلاء بھی اجتہاد کی ذمہ داری کو پورا کرنے سے قاصر ہیں۔ البتہ اس بات پر ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب کا اصرار قائم ہے کہ علماء کرام بہرحال اجتہاد کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

میں نے گزارش کی کہ آج کے دور میں اجتہاد کی جو ضروریات ہیں، ان میں سے کچھ ایسی ہیں جنہیں علماء کرام پورا نہیں کرتے، اور کچھ تقاضے ایسے ہیں جنہیں جدید قانون کے ماہرین پورا نہیں کر پاتے، اس کا یہ عمل دونوں کو مل کر کرنا ہو گا۔ چنانچہ میرے خیال میں اسلامی نظریاتی کونسل میں رہنما اصول کو اپنایا گیا ہے کہ جدید قانون کے ماہرین اور علماء کرام مل بیٹھ کر اسلامی قوانین کی تدوینِ نو کریں اور جدید پیش آمدہ مسائل کا جائزہ لیں، یہی اس مسئلہ کا صحیح حل ہے اور ہم سب کو اس عمل کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔

ڈاکٹر خالد مسعود صاحب نے بتایا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے ’’اجتہاد‘‘ کے نام سے سہ ماہی مجلہ کا اجرا کیا جا رہا ہے، جس کا مقصد عالمِ اسلام کے مختلف اطراف میں اجتہاد کے حوالے سے ہونے والی علمی کاوشوں سے پاکستان کے دینی و علمی حلقوں کو متعارف کرانا، اور اس طرح باہمی ربط و مشاورت کا ماحول پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ جدید مسائل کے بارے میں اجتہادی ضروریات سے انہیں آگاہ کرنا ہے۔

اس سیمینار میں بہت سے دیگر امور بھی زیر بحث آئے جن کا احاطہ بلکہ تذکرہ اس کالم میں بہت مشکل ہے۔ البتہ یہ اطمینان ہوا کہ دینی، علمی و ملی مسائل پر باہمی تبادلۂ خیالات اور مکالمہ کی ضرورت کا احساس بڑھتا جا رہا ہے، اور اس کے ساتھ ہی اسلامی نظریاتی کونسل جیسے اداروں کی ذمہ داریوں کا دائرہ بھی وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر خالد مسعود صاحب ایک عملی آدمی ہیں اور میرا خیال ہے کہ وہ اس سمت میں پیشرفت کے جذبہ، حوصلہ اور صلاحیت سے بہرہ ور ہیں، مگر ان کے لیے آزمائش کا یہ مرحلہ بہت کٹھن ہے کہ وہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سربراہی کے منصب پر خود کو کس کے نمائندہ کے طور پر متعارف کراتے ہیں۔ حکومتی حلقوں، جدت پسند طبقوں اور روایتی دینی و علمی حلقوں کی نظریں ان پر لگی ہوئی ہیں۔ میرے خیال میں اگر وہ خود کو ان میں سے کسی کھاتے میں ڈالنے کی بجائے ان تینوں کے درمیان اعتماد کا توازن قائم رکھ سکیں تو یہ ان کی بڑی کامیابی ہو گی، اور اسلامی نظریاتی کونسل کے لیے بھی یہ بات یقیناً نیک فال ثابت ہوگی۔

   
2016ء سے
Flag Counter