دینی مدارس کے نصاب و نظام میں اصلاحی تدابیر

   
۷ فروری ۲۰۰۷ء

۳، ۴، ۵ فروری ۲۰۰۷ء کو جامعہ سید احمد شہیدؒ لکھنؤ (انڈیا) میں برصغیر کے دینی نصاب و نظام کے حوالے سے منعقد ہونے والے بین الاقوامی سیمینار کے موقع پر الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ (پاکستان) میں اس سیمینار کے ساتھ ہم آہنگی کے لیے ایک فکری نشست کا اہتمام کیا گیا۔ یہ نشست ممتاز ماہرِ تعلیم پروفیسر غلام رسول عدیم کی زیر صدارت ۳ فروری ۲۰۰۷ء بروز ہفتہ رات آٹھ بجے الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں منعقد ہوئی، جس میں الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے ڈائریکٹر ابوعمار زاہد الراشدی (راقم الحروف) کے علاوہ اکادمی کے ناظم مولانا حافظ محمد یوسف، جامعہ عربیہ گوجرانوالہ کے ناظم مولانا ضیاء الرحمٰن، گورنمنٹ کالج قلعہ دیدار سنگھ کے پروفیسر محمد اکرم ورک، گوجرانوالہ بار ایسوسی ایشن کے سینئر رکن چودھری محمد یوسف ایڈووکیٹ، پروفیسر محمد زمان چیمہ اور دیگر حضرات نے خطاب کیا۔

راقم الحروف نے اپنی تمہیدی گفتگو میں عرض کیا کہ جنوبی ایشیا میں دینی مدارس کا موجودہ نظام ۱۸۵۷ء کے بعد وجود میں آیا تھا، اس سے قبل اس خطے میں دینی اور عصری علوم کی تقسیم موجود نہیں تھی، اور سب لوگ ایک ہی طرز کا نصاب پڑھتے تھے، جس میں فارسی زبان، عربی زبان، فقہ اسلامی اور دیگر ضروری علوم و فنون شامل تھے۔ دفتری اور عدالتی زبان فارسی تھی، جبکہ عدالتوں میں فقہ حنفی نافذ تھی، اس لیے یہ نصاب قومی اور سرکاری ضرورت بھی تھا۔ لیکن جب عدالتوں میں برطانوی قانون نافذ کر دیا گیا اور فارسی کے بجائے انگریزی دفتری اور عدالتی زبان قرار دے دی گئی تو درسِ نظامی کا یہ نصاب قومی ضروریات کے دائرے سے نکل گیا۔ اس موقع پر کچھ اربابِ دانش نے دینی علوم کی حفاظت اور اگلی نسل تک دین کو پہنچانے کے لیے درسِ نظامی کے اس نصاب کی پرائیویٹ سطح پر تعلیم و تدریس کا اہتمام کیا اور رضاکارانہ بنیادوں پر اس کا نظام قائم کیا، جس کے تحت جنوبی ایشیا کے طول و عرض میں ہزاروں مدارس کام کر رہے ہیں۔

دینی مدارس کے اس نظام کی بنیاد تحفظات پر تھی اور اس کے اہداف میں اساسی طور پر یہ امور شامل تھے کہ

  1. دینی علوم کی حفاظت ہو،
  2. عام مسلمان کا دین کے ساتھ تعلق قائم رہے،
  3. اور اگلی نسلوں تک دینی علوم و روایات بحفاظت منتقل ہوتی رہیں۔

نوآبادیاتی دور میں ان دینی مدارس نے اپنے اہداف میں شاندار کامیابی حاصل کی اور اس خطے کے ممالک کی آزادی کے بعد بھی دینی مدارس کی ان خدمات کا تسلسل کامیابی کے ساتھ جاری ہے۔ مگر آزادی کے حصول اور عالمی سطح پر میڈیا کا دائرہ وسیع تر ہوتے چلے جانے کے بعد دینی مدارس کے اس تحفظاتی ماحول اور طریق کار کو ناکافی سمجھا جا رہا ہے اور بہت سے نئے تقاضے ایسے سامنے آئے ہیں جن کو پورا کرنے کی ان مدارس سے توقع کی جا رہی ہے۔

مثلاً پاکستان اور دیگر مسلم ممالک میں اسلامی نظام و قوانین کے نفاذ کے حوالے سے مطلوبہ رجال کار کی فراہمی، اور عدالتی، دفتری اور انتظامی ضروریات کے لیے ضروری افراد کی تیاری ایک اہم اور ناگزیر تقاضا بن چکی ہے۔ لیکن چونکہ مسلم ممالک کے ریاستی تعلیمی نظام اس ضرورت کو پورا نہیں کر رہے، بلکہ بعض جگہ ریاستی نظام ہائے تعلیم اس کے برعکس دفتری، عدالتی اور انتظامی ماحول کو برقرار رکھنے کا باعث بن رہے ہیں، اس لیے مسلم امہ کا باشعور طبقہ اس ملی ضرورت کی تکمیل کے لیے دینی مدارس کی طرف دیکھ رہے ہے اور عمومی طور پر دینی مدارس سے یہ توقع وابستہ کر لی گئی ہے۔ اسی طرح میڈیا کا دائرہ متنوع اور وسیع تر ہو جانے کے بعد مغرب اور عالم اسلام کے درمیان فکری جنگ، تہذیبی کشمکش اور ثقافتی تنازعات کے حوالے سے اسلام کے بنیادی احکام اور قرآن و سنت کی اساسی تعلیمات کے بارے میں شکوک و شبہات اور اعتراضات کا سلسلہ پھیلتا جا رہا ہے۔ اس کشمکش میں

  • مغرب کی فکری و ثقافتی یلغار کے مقابلے،
  • اسلامی تعلیمات کے بارے میں پھیلائے جانے والے شکوک و شبہات کے ازالے،
  • اور آج کے گلوبل ماحول میں اسلامی احکام و تعلیمات کو مؤثر طور پر پیش کرنے

کے لیے رجالِ فکر اور رجالِ فن کی تیاری ایک ناگزیر ضرورت کا درجہ اختیار کر چکی ہے، جو مسلمان ممالک کے کسی اور ادارے کی ذمہ داریوں میں ابھی تک شامل نہیں ہے۔ اس لیے یہ توقع بھی دینی مدارس سے وابستہ کر لی گئی ہے اور دینی مدارس سے تقاضا کیا جا رہا ہے کہ وہ اس مقصد کے لیے رجالِ فکر اور رجالِ فن کی تیاری کو اپنے پروگرام میں شامل کریں۔

اس کے ساتھ ہی آج کے عالمی اور گلوبل ماحول میں اسلام کی دعوت و تبلیغ، اور پوری دنیا میں نسلِ انسانی تک اسلام کی دعوت اور قرآن و سنت کی تعلیمات کو خالصتاً دعوتی انداز میں پہنچانا بھی ہماری دینی و ملی ذمہ داری ہے۔ اس کے لیے تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ حضرات کی ہر سطح پر ضرورت ہے۔ عام طور پر باشعور مسلمان دینی مدارس سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس ضرورت کا احساس کریں اور اس کی تکمیل کو اپنے اہداف اور پروگرام میں شامل کریں۔

اس لیے جہاں تک دینی مدارس کے اس نظام کے ان تحفظاتی اہداف کا تعلق ہے، جن کے لیے یہ نظام ۱۸۵۷ء کے بعد وجود میں آیا تھا، اس میں تو یہ بعض خرابیوں اور کمزوریوں کے باوجود کامیابی کے ساتھ پیشرفت کر رہا ہے، لیکن آج کے حالات کی روشنی میں اس نظام سے جو نئی توقعات وابستہ ہو گئی ہیں ان کے حوالے سے بہرحال ایک بہت بڑا خلا موجود ہے، اور دینی مدارس کے اربابِ حل و عقد کو یہ خلا پر کرنے کی طرف سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے۔

پروفیسر غلام رسول عدیم نے اپنے تفصیلی خطاب میں دینی مدارس کے موجودہ نظام و نصاب کے مختلف پہلوؤں پر اظہارِ خیال کیا اور اس بات پر زور دیا کہ تعلیمی معیار اور طلبہ کی ذہنی و فکری تربیت کے حوالے سے موجودہ صورتحال تسلی بخش نہیں ہے اور متعدد اصلاحات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مدارس کے قیام کے سلسلہ میں کوئی منظم پروگرام اور منصوبہ بندی موجود نہیں ہے، جبکہ مدارس قائم کرنے والے اپنا نصاب، تربیتی نظام اور معیار قائم کرنے میں کسی ڈسپلن کے پابند نہیں ہیں، جس کا نقصان سب کو نظر آ رہا ہے۔ اس کے لیے دینی مدارس کے وفاقوں کو سنجیدگی کے ساتھ کام کرنا ہو گا۔ سب سے پہلے مدارس کی فہرست بنائی جائے، ان کے کوائف جمع کیے جائیں اور دیکھا جائے کہ کون سا مدرسہ کس دائرے میں اور کس سطح پر کام کر رہا ہے۔ پھر ان مدارس کی درجہ بندی کی جائے، ہر طالب علم کا دورۂ حدیث تک پہنچنا ضروری نہیں، اس طرح درجہ بندی کی جائے کہ امامت و خطابت اور اس طرح کی دیگر ضروریات کے لیے الگ معیار قائم کیا جائے اور اس کو کافی سمجھا جائے، جبکہ اس سے اوپر کی سطح کے لیے طلبہ کی ذہانت اور ذوق کے مطابق مختلف علوم و فنون کے لیے ان کا انتخاب کیا جائے۔ اور جو ضروریات ملی طور پر محسوس کی جا رہی ہیں ان کے مطابق مستقل طور پر ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا جائے۔ الگ شعبے بنائے جائیں اور ہر شعبہ کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے اس کا نصاب مرتب کیا جائے، اور یہ کام ماہر اساتذہ اور متعلقہ علوم کے متخصصین کے ذریعے انجام دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اعلیٰ تعلیم کے لیے معیار کو سخت کیا جائے، ملی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے اس امر کا اہتمام کیا جائے کہ اس سطح پر کام کرنے والے علماء کو عالمی زبانوں، بالخصوص انگریزی پر عبور حاصل ہو اور وہ حالاتِ زمانہ سے بھی بخوبی واقف ہوں۔

مولانا محمد یوسف نے اپنے خطاب میں کہا کہ مدارس کی درجہ بندی کی جائے اور الگ الگ تعلیمی مراحل قائم کیے جائیں تاکہ ایک مرحلہ تک تعلیم حاصل کرنے والا طالب علم اس سطح پر خدمات انجام دینے کا اہل سمجھا جائے، اور اس سے اگلے مرحلے تک اسے زبردستی نہ لے جایا جائے۔ اسی طرح علماء کرام، ائمہ اور خطباء میں عوامی سطح پر کام کرنے کا ذوق پیدا کیا جائے اور اس کے لیے ان کی تربیت کی جائے۔ کیونکہ ہمارے ائمہ و خطباء جہاں جاتے ہیں ان کا وہاں کے عوام اور ان کی دینی ضروریات سے کوئی رابطہ نہیں ہوتا، وہ پہلے سے ایک طے شدہ ذہن لے کر جاتے ہیں اور اردگرد کے ماحول اور ضروریات کو سمجھے بغیر اپنا ایجنڈا چلانے کی کوشش کرتے ہیں جس سے خرابیاں جنم لیتی ہیں۔

مولانا ضیاء الرحمٰن نے اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ ہمارے مدارس کے طلبہ میں انقیاد و تسلیم کا جذبہ اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ وہ تخلیقی صلاحیتوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔ طلبہ میں تخلیقی صلاحیتوں اور فکر و نظر میں وسعت و ترقی کی طرف خصوصی توجہ دی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ دینی مدارس کے درمیان مشاورت اور رابطے کا ایسا نظام موجود ہونا چاہیے کہ سب ایک دوسرے کے کام کی نوعیت سے واقف ہوں، تاکہ کسی کام میں خوامخواہ تکرار نہ ہو اور کوئی ضروری کام رہ نہ جائے۔

چودھری محمد یوسف ایڈووکیٹ نے اپنی گفتگو میں کہا کہ مدارس کے نظام و نصاب میں بہتری پیدا کرنے کے لیے عرصہ دراز سے بحث و مباحثہ جاری ہے، لیکن عملی طور پر اس سمت میں کوئی واضح پیشرفت نہیں ہو رہی۔ انہوں نے کہا کہ کوئی عملی قدم اٹھائے بغیر محض بحث و مباحثہ طویل سے طویل تر ہوتا چلا جائے گا، اس لیے اب اس بحث کو عملی طور پر نتیجہ خیز بنانے کی طرف پیش قدمی کرنی چاہیے۔

پروفیسر محمد زمان چیمہ نے کہا کہ مسلمانوں کے زوال کی اصل وجہ جہالت اور لاعلمی ہے۔ ہم بحیثیت قوم نہ اپنے تاریخی و علمی ورثے سے واقفیت کی ضرورت کا کوئی احساس رکھتے ہیں اور نہ زمانے کی نبض پر ہمارا ہاتھ ہے، اس لیے اس رویے میں تبدیلی پیدا کیے بغیر کوئی مثبت نتیجہ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔

مقررین اور شرکاء نے جنوبی ایشیا میں مدارس کے کردار کو سراہتے ہوئے فکری و نظری بیداری کے لیے ندوۃ العلماء لکھنؤ اور مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کی خدمات کو بطور خاص خراجِ تحسین پیش کیا، اور جامعہ سید احمد شہیدؒ لکھنؤ کے سربراہ مولانا سید سلمان الحسینی کی دینی و تعلیمی مساعی کی تحسین کرتے ہوئے ۳، ۴، ۵ فروری کو منعقد ہونے والے بین الاقوامی تعلیمی سیمینار کے ساتھ ہم آہنگی کے اظہار کے علاوہ اس کی کامیابی کے لیے دعا کی۔

   
2016ء سے
Flag Counter