رسول اکرمؐ کا طرزِ حکمرانی

   
۷ اگست ۱۹۹۶ء

جناب رسالتماب صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت کے دن صدر محترم سردار فاروق احمد خان لغاری نے قوم کے نام اپنے پیغام میں اس بات پر زور دیا ہے کہ حکومت و سیاست سمیت زندگی کے تمام شعبوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور سنت کی پیروی ضروری ہے۔ صدر محترم کا یہ ارشاد ہر مسلمان کے دل کی آواز اور دکھی انسانیت کے دکھوں کا حقیقی مداوا ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے اردگرد مستثنیات اور تحفظات کے جو دائرے کھینچ رکھے ہیں وہ سنت نبویؐ اور ہمارے درمیان ایک ایسی خلیج کی حیثیت اختیار کرتے جا رہے ہیں جنہیں زندگی کے کسی بھی شعبہ میں عبور کرنے کا ہم میں حوصلہ نہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز حکمرانی کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں مستثنیات، تحفظات، پروٹوکول اور پرسٹیج کا کوئی تصور نہیں اور عالم اسباب میں اس طرزِ حکومت کے کامیاب اور مثالی ہونے کی بڑی وجہ یہی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے خلفاء راشدینؓ نے تمام تر مواقع میسر ہونے کے باوجود ایک عام آدمی جیسی زندگی اختیار کی اور لوگوں کے درمیان گھل مل کر رہے۔ جس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ انہیں عام آدمی کی مشکلات و مسائل سے براہ راست واقفیت رہی۔ دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ اپنے حکمرانوں کو اپنے ساتھ مشکلات و مسائل کا شکار دیکھ کر عام آدمی میں مشکلات کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر چاہتے تو اپنے لیے پروٹوکول اور تحفظات کا اہتمام کر سکتے تھے اور اس کائنات میں پروٹوکول اور تحفظات اگر کسی کا استحقاق ہو سکتا ہے تو وہ انہی کی ذات گرامی ہے، لیکن انہوں نے اپنے گرد ایسا کوئی دائرہ نہیں کھینچا اور رہن سہن، نشست و برخاست، سفر و حضر اور بول چال میں کسی قسم کا کوئی امتیاز روا نہیں رکھا۔

ہمارے ہاں پروٹوکول کا ایک سبق یہ بھی ہے کہ کوئی بڑی شخصیت فون پر کسی سے بات کرنا چاہتی ہے تو پہلے اس شخص کو لائن پر لایا جائے پھر بڑے صاحب گفتگو کی زحمت فرمائیں گے، جبکہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہماری ہمیشہ یہ کوشش رہتی تھی کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرنے میں پہل کر سکیں، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔ ہم ابھی سلام کا لفظ کہنے کی تیاری کر رہے ہوتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلام میں پہل فرما دیتے۔ اس بظاہر چھوٹی سی مثال سے سمجھا جا سکتا ہے کہ سنتِ نبویؐ میں پروٹوکول کا درجہ کیا ہے۔

اس کے ساتھ ہی سنت نبویؐ کا یہ حسین منظر بھی ذہن میں تازہ کر لیں کہ ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں سے ایک صحابی کے ننگے بدن پر چھڑی لگ گئی، چھڑی ذرا سخت لگی اور بعض روایات کے مطابق خراش بھی آگئی۔ اس صحابیؓ نے مجلس میں ہی بدلے کا تقاضہ کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی پروٹوکول، پرسٹیج یا تحفظ کا سوال نہیں اٹھایا۔ چھڑی اس صحابیؓ کے ہاتھ میں دے دی اور کپڑا ہٹا کر ننگی کمر بدلے کے لئے اس کے سامنے کر دی۔ یہی سادگی اور بے تکلفی ہمارے طرزِ حکومت کا حصہ بنے گی تو سنت نبویؐ کی برکات حاصل ہوں گی۔

سنت نبویؐ کے حوالے سے صدر محترم کے ارشاد پر ہمیں خوشی ہوئی ہے اور ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی عرض کرنا چاہتے ہیں کہ حکومت و سیاست میں سنت نبویؐ کی پیروی کے لئے نوآبادیاتی نظام کے تحفظات و امتیازات سے نجات حاصل کرنا ہو گی، حاکم و رعیت کے درمیان اجنبیت و غیرت کی دیوار گرانا ہوگی اور عام لوگوں کے ساتھ ان کی آبادیوں میں گھل مل کر رہنا ہو گا۔

؏ گر یہ نہیں ہے بابا پھر سب کہانیاں ہیں!
   
2016ء سے
Flag Counter