امریکہ کی حکمران کلاس سے ایک سوال

   
۸ جولائی ۲۰۰۱ء

سوویت یونین کی شکست و ریخت اور خلیج عرب میں امریکہ کی فوجیں اترنے کے بعد اس وقت کے امریکی صدر جارج بش نے ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کا اعلان کر کے واحد سپر پاور کے طور پر امریکہ کی عالمی چوہدراہٹ کے جس ایجنڈے کا آغاز کیا تھا، اسے آگے بڑھانے کے لیے ان کے فرزند جارج ڈبلیو بش وائٹ ہاؤس میں براجمان ہیں اور پوری تندہی کے ساتھ اس پروگرام پر عملدرآمد کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔ ویسے تو یہ ایجنڈا صرف باپ بیٹے کا نہیں اور نہ ہی امریکہ جیسی منظم ریاست میں کوئی شخصی یا خاندانی ایجنڈا چل سکتا ہے، بلکہ یہ اس حکمران کلاس کا پروگرام ہے جو امریکہ پر ایک عرصے سے ڈیموکریٹک پارٹی اور ری پبلکن پارٹی کے دو ناموں سے حکمران چلی آ رہی ہے، اور بنیادی روح اور مقصد کی حد تک دونوں پارٹیوں کے پروگرام اور طرز عمل میں کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا۔ مگر اس ایجنڈے کے لیے باپ بیٹا جس جوش و خروش کا مظاہرہ کر رہے ہیں، اس کے پیش نظر اس حوالے سے امریکی تاریخ میں ان کے کردار کا امتیازی تذکرہ ضروری ہوگا۔

امریکہ قوت و دولت سے مالامال ملک ہے، اس کے پاس وسائل کی فراوانی ہے، افرادی قوت ہے، ٹیکنالوجی ہے، عسکری قوت ہے، جنگی سامان کے بے پناہ ذخائر ہیں، اور ظاہری طور پر وہ سب کچھ ہے جو سپر پاور بننے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ لیکن اس کے پاس جو کچھ ہے یا جس چیز کا بھی وہ اظہار کر رہا ہے اس سب کچھ کا تعلق صرف طاقت سے ہے اور طاقت کے ساتھ ساتھ بڑا بننے کے لیے جس دوسری چیز کی اس درجہ میں ضرورت ہوتی ہے بدقسمتی سے ابھی تک امریکی حکمران کلاس اس سے تہی دامن دکھائی دے رہی ہے۔ اور ان کا ظاہری طرز عمل غمازی کرتا ہے کہ شاید انہیں اس کی ضرورت بھی کسی درجہ میں محسوس نہیں ہو رہی۔ یہ دوسری چیز انصاف پسندی اور اخلاقی بالاتری ہے جو کسی بھی سطح پر بڑا بننے اور دوسروں سے خود کو بڑا منوانے کے لیے ناگزیر ہوتی ہے۔ اس کے بغیر دوسروں پر جبر کے ذریعے بڑائی مسلط تو کی جا سکتی ہے مگر اسے منوایا نہیں جا سکتا اور نہ ہی اسے زیادہ دیر تک برقرار رکھا جا سکتا ہے۔

ایک مثال سے بات واضح کرنا چاہوں کہ بڑائی کی ایک مثال چودہ سو سال پرانی ہے کہ امیر المؤمنین حضرت عمرؓ کے دور میں دجلہ اور فرات کے درمیانی علاقہ میں جزیرہ نامی صوبہ کے گورنر ولید بن عقبہؓ کو انہوں نے اس لیے معزول کر دیا تھا کہ وہ اپنے صوبے میں رہنے والے ایک عیسائی خاندان بنو تغلب کو دباؤ کے ذریعے مسلمان کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ امیر المومنین حضرت عمرؓ کو رپورٹ ملی تو انہوں نے اس پر ناراضگی کا اظہار کیا اور گورنر کو اس کے منصب سے سبکدوش کر دیا۔

مگر آج امریکہ پوری دنیا کو ’’ویسٹرنائز‘‘ کرنا چاہتا ہے اور مغرب کے کلچر کو پوری دنیا کا کلچر بنانے کے درپے ہے، جبکہ اس کے پاس اس کے لیے طاقت اور دباؤ کے سوا کوئی ہتھیار موجود نہیں۔ اور باوجود اس کے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر میں دنیا بھر کی اقوام کو اپنے اپنے کلچر کے تحفظ کا حق دیا گیا ہے، امریکہ اسی اقوام متحدہ کی طاقت یا دباؤ کو استعمال کرتے ہوئے دنیا کی مختلف اقوام اور خاص طور پر مسلمانوں کو اپنے کلچر سے دستبردار ہونے اور مغربی کلچر اپنانے پر مجبور کر رہا ہے۔

امریکہ بہادر اس سلسلہ میں مذاکرات، ڈائیلاگ اور دلیل و منطق کا کوئی راستہ اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ میں نے خود ایک دور میں لاہور میں امریکہ کے قونصل جنرل رچرڈ مکی سے ملاقات کے دوران سوال کیا تھا کہ جن دینی معاملات میں وہ حکومتِ پاکستان پر مسلسل دباؤ ڈالتے رہتے ہیں، کیا ان معاملات میں وہ دینی حلقوں کا موقف بھی براہ راست سننے کے لیے تیار ہیں؟ اس سوال کا جواب ان کے پاس ایک مسکراہٹ کے سوا کچھ نہیں تھا۔ اس کے بعد امریکہ کے ایک سابق سفیر کو میں نے باقاعدہ خط لکھا کہ متنازعہ اور مختلف فیہ امور پر انہیں پاکستان کے دینی حلقوں کے ساتھ گفتگو اور مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے، مگر انہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ کی اطلاع دینے کی زحمت گوارا نہ کی۔ ۔۔۔۔۔۔ کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ دنیا سے اپنی بڑائی اور سپرمیسی منوانے کے لیے امریکہ کی حکمران کلاس کسی دلیل، منطق اور گفتگو کی ضرورت محسوس نہیں کرتی، اور وہ طاقت اور دباؤ کے واحد حربے کے ذریعے ہی پوری دنیا سے اپنا پروگرام منوانے کا تہیہ کیے ہوئے ہے۔

پروفیسر خورشید صاحب نے ماہنامہ ترجمان القرآن لاہور کے جولائی ۲۰۰۱ء کے شمارے میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں امریکی حکمران کلاس کے اس طرز عمل کے حوالے سے مختلف واقعاتی شواہد پیش کیے ہیں، جن میں سے صرف ایک کا تذکرہ کرنا چاہوں گا کہ جناب لنڈن بی جانسن (امریکی صدر ۱۹۶۳ء تا ۱۹۶۹ء) کے دور میں یونان کے سفیر نے قبرص کے حوالے سے کسی مسئلہ پر ان سے کہا کہ یونان کی پارلیمنٹ اور دستور کی رو سے ان کا حکم ماننا مشکل ہے تو جناب جانسن نے فرمایا کہ

’’بھاڑ میں جائے تمہاری پارلیمنٹ اور جہنم رسید ہو تمہارا دستور! ۔۔۔۔ امریکہ ایک ہاتھی ہے اور قبرص ایک چھوٹا سا گھونگا۔ اگر یہ گھونگے ہاتھی کو تنگ کریں گے تو ہاتھی کی سونڈ انہیں کچل دے گی، مسٹر سفیر! ہم بہت سارے امریکی ڈالر یونان کو دیتے ہیں اگر تمہارے وزیراعظم مجھ سے جمہوریت، پارلیمنٹ اور دستور کی بات کرتے ہیں تو یاد رکھو کہ ان کی پارلیمنٹ اور ان کا دستور زیادہ دیر باقی نہیں رہیں گے۔‘‘

آج امریکہ بہادر کا یہی طرز عمل پوری دنیا کے ساتھ اور خاص طور پر مسلم ممالک کے ساتھ ہے۔ مگر میں امریکہ کی حکمران کلاس سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا اس طرح وہ دنیا سے اپنی بالاتری اور چوہدراہٹ تسلیم کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے؟

   
2016ء سے
Flag Counter